
میڈیا لینس کے دس برس…..
دانش ریاض
چند روز قبل جناب ڈاکٹر خورشیدسید صاحب نے مجھے میڈیا لینس کے ایک مضمون کو اردو میں منتقل کرنے کے لئے کہا تو میں نے فوری طو ر پر ترجمہ کر کے اسے روانہ کردیا۔لیکن مضمون ا س قدر فکر انگیز تھا کہ میں اس کے اثرات کو دیر تک محسوس کرتا رہا۔دراصل مضمون کا ابتدائی پیرایہ یو ں تھا کہ’’ میڈیا لینس کے ساتھ تقریباً دس برس کی وابستگی نے مجھے براہ راست اس بات کا تجربہ کرایا ہے کہ بظاہر ایک جمہوری سماج میں کس طرح پُر پیچ مباحث کو بھی اپنے قابو میں رکھا جاتا ہے ۔یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے کہ کس طرح ہم اپنے سوالات ترتیب دیتے ہیں ،نہ ہی یہ اہم ہے کہ کس سنجیدگی کے ساتھ ہم اسے پیش کرتے ہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ کس طرح اس کے بعد ہم خوفناک طریقے سے ،غیر منطقی انداز میںاورغیر موزوں پیرائے میںاس کی تشہیر کرتے ہیں۔‘‘اس روشنی میں جب ہم انّا ہزارے کی میڈیا کوریج کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ حقیقتاً کیا ہورہا ہے۔انا ہزارے نے جب پہلی مرتبہ India against Corruption مہم کا آغاز کیا تھاتو میں نے watch and waitکی پالیسی ہی بہتر سمجھی تھی نہ تو اس وقت لب کشائی کی کوشش کی تھی اور نہ ہی اپنے الفاظ کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔لیکن اسی وقت یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔اس پر مستزاد جب بابا رام دیو ساڑی پہن کر رام لیلا میدان سے بھاگے تو عوام کی سمجھ میں مزید آگیا کہ ڈھونگی باباکن کے اشاروں پر اپنا الّو سیدھا کرنے آئے تھے اورپھر خوفزدہ ہوکر کیوں بھاگ گئے۔لہذااس کے بعد جب حکومت نے خود ہی لوک پال بل پیش کردیا توجن لوگوں نے پورا ڈرامہ اسٹیج کیا تھا ان کو اپنے کئے کرائے پر پانی پھرتا نظر آنے لگا لہذا انہوں نے دوبارہ انّا کے سر’’ مکھن کی ہانڈی‘‘ رکھی اور 15اگست کے بعد 16اگست سے نام نہاد دوسری جنگ آزادی کا راگ الاپتے ہوئے اپنی مہم کا آغاز کردیا۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ بدعنوانی ملک کا سنگین مسئلہ ہے اور بہر صورت اس کا خاتمہ ضروری ہے لیکن خاتمے کا پروسیس کیا ہو، اس کا جاننا بھی ہر کسی کے لئے ازحد ضروری ہے۔انّا نے ماضی میں بہت سارے ایسے کام کئے ہیں جو انہیں ایک سچا محب وطن ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ،حق اطلاعات قانون انہیں کے مرہون منت ہے۔اس کے علاوہ بھی مہاراشٹر میںبدعنوانی کے بہت سارے معاملات انہوں نے ہی اٹھائے ہیں اور لوگوں کی وزارت تک چھین لی ہے۔البتہ سائلین یہ پوچھنے سے احتراض نہیں کرتے کہ ماضی میں جن لوگوں کے خلاف انّا کے کہنے پر کارروائی ہوئی آخر اس کا فائدہ کس کس کو پہنچا؟آخر انّا نے کس کے اشارے پر این سی پی کے وزراء کو بے نقاب کیا؟خود انّا نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ India against Corruptionپر مجھے بھی اتنی پذیرائی اورحمایت کی امید نہیںتھی کہ جتنی مل رہی ہے۔تو پھر معاملہ کیا ہے؟آخر ممبئی کے آزاد میدان میں محض دو ہزار کی تعداد بیس ہزار کس طرح باور کرائی جارہی ہے۔میڈیا لینس کے نامہ نگار نے تحریر کیا ہے کہ ’’صحافی حضرات بھی ان تمام باتوں کو بہ خوبی سمجھتے ہیں۔بلکہ بسا اوقات تو یہ ذہنی شعبدہ بازی پر ہی منحصر ہوتا ہے؛ اگر ہم کسی سے کوئی سوال پوچھتے ہیں اور وہ جواب دینے سے معذور رہتا ہے (خواہ وہ اپنے ملازمین یا متعلقین کے کسی ادنی معاملہ کا ہی ذمہ دار کیوں نہ ہو)تو وہ لوگ اسے تمسخر پر محمول کرتے ہیں،انہیں تکلیف ہوتی ہے اور اکثر وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات وہ لوگ خود ہی ایسی حرکتیں کرجاتے ہیں کہ ان کی تحقیر ہو چکی ہوتی ہے‘‘۔انّا کی حمایت کے معاملے میں میڈیا کی یہی رپورٹنگ رہی ہے اور اس نے اپنی شبیہ بری طرح داغدار کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن یرقانی میڈیا کو اس سے کیا سروکار کہ اس کی شبیہ کیا بن رہی ہے۔میں نے ممبئی کے آزاد میدان میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح دس دس اور پندرہ پندرہ لوگوں کا غول بناکر میڈیا کے الگ الگ گروپس کے ساتھ مل کر لوگ ’’وندے ماترم ‘‘کا نعرہ لگا رہے تھے۔میڈیا ان دس دس لوگوںکے غول کو جس طرح سیکڑوں اور ہزاروں میں منتقل کر رہا تھا وہ بہر حال میڈیا کی جانب داری پر سوالیہ نشان تھا۔میڈیا لینس کے نامہ نگار نے جو بات کہی ہے وہ بجا ہے کہ ’’لیکن یقینا ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم کسی صحافی کی بے عزتی نہ کریں کیونکہ ان کے پاس ایک ایساکارڈ موجود ہے جوانہیں کسی بھی’’ قید و بند کی صعوبت سے مستثنیٰ‘‘ رکھتا ہے۔اگر ہم ان سے نرم لہجے میں ہی یہ دریافت کریں کہ آپ کا اخبار خام تیل کے اشتہارات کیوں قبول کرتا ہے جو کہ آپ کے موسمیاتی تبدیلی کے علمبرادر ہونے کے فیصلے کے برخلاف ہے تو پھر آپ انہیں بغلیں جھانکتے دیکھیںگے۔وہ لوگ آپ کے خیالات سے متفق نہیں ہوں گے اور آپ کو بیوقوفوں کی طرح دیکھیں گے۔ البتہ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ وہ کارپوریٹ دنیا کے کسی ملازم کی گفتگو کو رد نہیں کریں گے،خواہ وہ اس کے پروڈکٹ کو ناپسند ہی کیوں نہ کرتا ہو!یا یہ کہ وہ ہمیں نظر انداز کر سکتے ہیں جبکہ انہیں تھوڑی بہت بھی ابہام کی بو باس آئے۔(ہوسکتا ہے کہ وہ بہت مصروف ہوں) لیکن اگر ہم تھوڑے سخت واقع ہوئے ،تو ان کا یہ جواب ہو سکتا ہے کہ ’’گستاخی معاف ،میں بے ہودہ ای میلس کا جواب نہیں دیتا‘‘۔
میں نے بھی جب کچھ صحافی دوستوں سے مذکورہ واقعہ پر گفتگو کی کوشش کی تو ان کی مسکراہٹ ناقابل بیان تھی۔میںنے دیکھا کہ کس طرح اکھلیہ بھارتی ودیارتھی پریشد کے لڑکے ان نعروں کو بار بار دہرا رہے تھے جو انہیں شاکھائوں میں سکھائی جاتی ہے۔یہ یقینا india against Corruptionکے بجائے india against democracyتھا۔ذرا میڈیا لینس کی یہ سطریں بھی پڑھ لیں۔’’ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم ایک آزادانہ سماج میں سانسیں لے رہے ہیں۔لیکن مین اسٹریم صحافی جو کہ موجودہ میڈیا کے داخلی نظام کی میزبانی کرتے ہیں ہمیں حقیقت سے متعارف نہیں کراتے۔گزشتہ دس برسوں میں ،ہم کارپوریٹ مین کے ساتھ رو برو ہوئے ہیں (یا گارجین مین جیسا کہ نک ڈیوس کو کہا جا سکتاہے)کو دیکھا ہے ۔دراصل ایسے لوگ جو ہزاروں میںتن تنہا حذف و اضافہ کا اختیار رکھتے ہیں ،نہ صرف اپنی ملازمت بر قرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ انہیںاپنے کریئر کے ساتھ معاشی تحفظات بھی پیش نظر رہتا ہے۔مین اسٹریم میڈیا سے اختلاف رائے کو تسلیم کرتے ہوئے ،جب آپ تیسری دنیا پر لکھنے والے ،خصوصا ًموسمیاتی تبدیلی اور اسلحہ کی تجارت وغیرہ پر اظہار خیال کرنے والے ،جسے کہ عوام سب سے زیادہ پسند کرتی ہے، یہ دریافت کریں کہ میڈیا کیا ہے ،یا جس میڈیا کے لئے آپ کام کر رہے ہیں وہ کیسا ہے تو وہ خاموش ہو جائیں گے۔یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کہ وہ کس قدر صاف گو ہیں،یا عموماً جب وہ بہتر ہوتے ہیں اور زمینی حقائق سے واقفیت رکھتے ہیںتو جواب دینے میں تساہلی سے کام لیتے ہیں،یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بالکل خاموش ہو جائیں اور کوئی جواب ہی نہ دیں،یا بسا اوقات ہم خود ہی حیرانی میں مبتلا ہو جائیں،اور پھر یہ محسوس ہو کہ بے جا مداخلت کی وجہ سے انہیں ناگوارگذرا ہے اور انہوں نے جواب نہیں دیا ہے۔دراصل میڈیا کو استعمال کرنے کے بہانے بین السطور پیغام یہ دیا جاتا ہے کہ ’’اگر میں آپ کی مدد کرتا ہوں تو گویا آپ میرے دوست ہیں،اگر آپ میرے دوست ہیں تو پھر آپ مجھ پر تنقید نہ کریں،لیکن اس کے باوجود آپ مجھ پر تنقید کرتے ہیں تو پھر ہماری دوستی طویل مدت تک برقرار نہیں رہ سکتی اور میں آپ کی مددنہیں کر سکتاــ‘‘۔
دراصل یہ ایک اہم ایماندارانہ بحث ہے جو غیرکارپوریٹ افراد کے مابین ان دوستوں کے لئے ہے جو مر کزی دھارے میں شامل ہیں(حالانکہ روایتی طور پر صحافت کو کوئی منافع بخش تجارت نہیں کہا گیا ہے لیکن اس کے باوجود جو لوگ مر کزی دھارے کے خلاف ہیں وہ ایسے اشتہارات بھی نہیں حاصل کر پاتے جس کے ذریعہ کارپوریٹ دنیا دوسروں کا تعاون کرتی ہے لہذا وہ بڑی کسمپرسی میں اپنی زندگی گذارتے ہیں)
یہاں تک کہ وہ دوست اور اتحادی بھی جو ہماری ویب سائٹ کے لئے لکھتے ہیں جب وہ فلم ،کتاب اور دیگر بحثوں پر اپنے مضامین تحریر کرتے ہیں تو اس میںبھی ہمارا حوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،یقینا اس کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔لیکن حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ ہم بہت ہی( radioactive) تابکارہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاص متعلقین بھی ہم سے وابستہ ہونے پر نقصان ہونے کا ڈر سمائے رکھتے ہیں۔ہمیشہ کی طرح میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں کا اس طرح پیش آنا بالکل غلط ہے (کیونکہ اسٹریٹجی اور احتیاط یقینا گیم کھیلنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں)لیکن ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کا ماحول فراہم کر رہے ہیں تو وہ بجا سوچ رہا ہے۔دراصل ہم آزادی اظہار رائے کے ذریعہ ہزاروں لی لی پٹ کی دھمکیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مزید مطالعہ کے لئے
Ten Years Of Media Lens – Operation Rheinübung
یا پھر
Twitter ،Youtubeاور Facebookپر فالو کریں
میڈیا لینس کی دوسری کتاب, ‘NEWSPEAK in the 21st Century’مصنف David Edwards and David Cromwel 2009 میںپلوٹو پریس کی طرف سے شائع ہوئی تھی جس کے بارے میں جان پلجر نے لکھا تھا کہ’’اس میں بہتر طور پر تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حقائق پیش کئے گئے ہیںجو چومسکی کے الفاظ میں حقائق کا بیانیہ ہے لہذا آپ اسے میڈیا لینس بک شاپ سے حاصل کریں‘‘۔
تعاون…….
میڈیا لینس تعاون کی بنیاد پر ہی اپنی خدمات پیش کرتا ہے ۔اگر آپ کارپوریٹ میڈیا کی اخبارات خرید کر مدد کرتے ہیں تو پھر آپ Media Lens کا تعاون کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
ہندوستان میں تعاون کرنے کے لئے آپ tirmidhi@hotmail.com پر رابطہ قائم کریں۔یا پھر www.medialens.org پر وزٹ کریں۔