Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

دہلی میں بی جے پی بنائے گی حکومت، مودی کی اجازت کا انتظار!

by | Jun 17, 2014

جگدیش مکھی، رام ویر سنگھ بدھوڑی اور وجے گویل وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں شامل

نئی دہلی:(یو این بی): آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے دہلی انچارج پربھات جھا نے واضح کر دیا کہ قومی راجدھانی دہلی میں بی جے پی-عام آدمی پارٹی (عآپ) کے کچھ ممبران اسمبلی کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہلی میں حکومت بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور زیادہ تر بی جے پی کارکنان کی یہی رائے ہے کہ پارٹی کو کانگریس کے باغی ممبران اسمبلی اور عآپ سے ناراض چل رہے ممبران اسمبلی سے حمایت لے کر حکومت بنا لینی چاہیے۔ خصوصی ذرائع سے موصولہ اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی اجازت کا انتظار ہے۔ ایک بار ان کی ’ہاں‘ ہو جائے توپھر حکومت سازی کا عمل تیز ہو جائے گا۔ واضح رہے مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرشوردھن اس طرح کی حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہے۔
اس سلسلے میں بی جے پی کی جانب سے تین لیڈروں کے نام بھی سامنے آ رہے ہیں جو کہ وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہوں گے۔ خبروں کے مطابق یہ تین نام جگدیش مکھی، رام ویر سنگھ بدھوڑی اور وجے گویل ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر وجے گویل کے نام کو آر ایس ایس آگے بڑھا رہی ہے اس لیے ممکن ہے کہ آخر میں ان کے نام پر مہر لگ جائے۔ جگدیش مکھی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ چونکہ تنازعات سے دور رہنے والے لیڈر ہیں اس لیے انھیں سبھی گروپ کی حمایت حاصل ہے، لیکن وہ جوڑ توڑ سے بنی حکومت چلا پائیں گے یا نہیں، اس میں کچھ شبہات ہیں۔ دوسری طرف رام ویرسنگھ بدھوڑی پہلے این سی پی میں تھے اور انتخابات سے ٹھیک پہلے وہ این سی پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ بدھوڑی کو بی جے پی کے ایک درجن ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ مزید چھ ممبران اسمبلی کی حمایت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن پارٹی کے بڑے لیڈروں کو ان کی قائدانہ صلاحیت پر اعتماد نہیں ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ایک نام اور ہے جس پر لوگوں کی نظریں ہیں، اور وہ ہے میناکشی لیکھی کا نام۔ لیکن ان کے نام پر لوگوں کو شبہ اس لیے ہے کہ وہ ابھی ناتجربہ کار ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انھیں اس دوڑ میں شامل نہیں مانا جا رہا ہے۔
بہر حال، دہلی میں دوبارہ انتخاب کرانے سے بچنے کے لیے حکومت سازی کی کوششوں پر عآپ، بی جے پی اور کانگریس ممبران اسمبلی کے ریعہ مختلف زاویوں سے غور کیا جاتا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً عآپ اور کانگریس کے اتحاد سے حکومت تشکیل کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ لیکن بی جے پی کے ذریعہ حکومت سازی کی بات نے اس وقت سے زور پکڑ لیا جب عآپ کے کنوینر اور سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ان کی پارٹی کے 8 ممبران اسمبلی سے بی جے پی لیڈران لگاتار رابطہ کر رہے ہیں۔ دراصل اس طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ عآپ کے کچھ ممبران اسمبلی دہلی میں حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کی حمایت کر سکتے ہیں۔ دہلی میں 49 دنوں تک حکومت چلانے والے اروند کیجریوال کے سامنے اب سب سے بڑا چیلنج پارٹی کو منتشر ہونے سے بچانا ہے۔ عآپ کے ایک ممبر اسمبلی نے اپنا نام شائع نہیں کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’پارٹی کے کئی ممبران اسمبلی دہلی میں حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کو حمایت دے سکتے ہیں۔ مستحکم حکومت دہلی کے عوام کے مفاد میں ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ بی جے پی یہ مہیا کرا سکتی ہے۔‘‘ انھوں نے بی جے پی کو حمایت دینے والے ممبران اسمبلی کی تعداد کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی لیکن اتنا ضرور کہا کہ بی جے پی لیڈران عآپ کے کئی ممبران اسمبلی سے رابطے میں ہیں۔
واضح رہے کہ عآپ کے ممبران اسمبلی نے پارٹی قیادت سے کانگریس کی حمایت سے دہلی میں دوبارہ حکومت بنانے کی اپیل کی تھی اور خصوصی ذرائع کے مطابق عآپ کے سرکردہ لیڈران نے کانگریس کے اعلیٰ کمان سے رابطہ بھی قائم کیا تھالیکن کانگریس نے دہلی میں دوبارہ عآپ کی حمایت سے واضح طور پر انکار کر دیا۔ کیجریوال نے حالانکہ ایک انٹرویو میں بی جے پی لیڈران کے ذریعہ عآپ ممبران اسمبلی سے لگاتار رابطہ میں رہنے کی بات کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا تھا کہ وہ عآپ کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے، لیکن تازہ صورت حال کچھ اور ہی بیان کر رہا ہے۔ عآپ کے سینئر لیڈر منیش سسودیا سے جب اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے پارٹی ممبران اسمبلی کے ذریعہ بغاوت کرنے کے امکانات کو سرے سے خارج کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’پارٹی ممبران اسمبلی کے الگ ہونے کو لے کر ہم فکر مند نہیںہے کیونکہ ہمیں سبھی جانکاریاں انھیں ممبران اسمبلی سے ملی ہے جن سے بی جے پی کے لیڈران رابطے میں ہیں۔ اگر ہمیں یہ جانکاریاں تیسرے فریق سے ملی ہوتیں تو ہمیں فکرمند ہونے کی ضرورت ہوتی، لیکن ہمارے ممبران اسمبلی ہی ہمیں سبھی جانکاریاں فراہم کرتے رہتے ہیں۔‘‘

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...