ماہ رمضان اور مسلم نوجوان

محمد ارشد،اردو نیوز بیورو

آزاد میدان ممبئی میں عوام نماز ادا کرتے ہوئے۔(فائل فوٹو: معیشت)
آزاد میدان ممبئی میں عوام نماز ادا کرتے ہوئے۔(فائل فوٹو: معیشت)

موجودہ دور میں ہرکوئی وقت کی تیز رفتاری کا شاکی ہے۔ہر شخص اس قدر مصروف اور تلاش معاش میں سرگرداں ہیں کہ دنیا کے اعلی سے اعلیٰ منازل پر پہنچنے کے بعد بھی اس کے خواہشات کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، اور باوجود کہ اسے بہتر ین زندگی کے تمام تر وسائل دستیاب ہیں ، پھر بھی اسے کسی پہلو سکون نہیں ہے۔ ایک فانی زندگی کے لئے انسانوں کی یہ تگ و دو اور دنیا طلبی میں اس قدر مصروف ہونا کہ اسے اپنی ابدی زندگی تک کا علم نہیں۔ پھر یہ کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب کہ پوری دنیا اپنی تیز رفتار ترقی اور گلوبلائزیشن کا دعوی کررہی ہے۔ لیکن ان کا یہ دعویٰ محض ایک دعوی سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ ایک انسان کا اپنی اصلیت سے ناواقف ہونا،کہ وہ کیا ہے ، اسے کس نے پیدا کیا ، دوسروں کے ساتھ اسے کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے ، پڑوسیوں کے اس پر کیا حقوق ہیں ، یا پھر اس کی پیدائش کا کیا مقصد ہے ، ان سب سے بے خبر وہ دنیا کے منازل طے کررہاہے لیکن ان سب کے باوجود اگر وہ دنیا طلبی کی انتہا کو پہنچتے ہوئے ڈھیر ساری دولت کا مالک ہوجائے تو کیا وہ اپنی زندگی کا کامیاب ترین انسان تسلیم کیا جائے گا ، یااگر وہ دنیا کے اعلیٰ مقام فائز ہوجائے تو کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا اور اس کے بعد اس کی زندگی میں اب کوئی اور تکلیف دستک نہیں دے گی۔ یقینا ا ن سوالوں کا جواب ہر ذو رائے اور دانش مند انسان نفی میں دے گا۔ کیوں کہ ایک انسان کو حقیقی سکون اس وقت محسو س ہوتا جب وہ عبادت کے کسی فریضے کو صدق دل سے ادا کرتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی دنیا وی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ ایک ادنی انسان کی مدد کی صورت میں ہو یا پھر بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی شکل میں۔
ان تمام مسائل میں ہمارے نوجوان پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایسے میں ایک عظیم ماہ کی آمد جسے ہم رمضان المبارک کے مہینے سے جانتے ہیں یہ ہمارے اوپر کتنا اثر انداز ہوگا اور اس میں ہمارے نوجوان اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنی ابدی زندگی کے لئے کیا کچھ حاصل کریں گے یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر ہم نوجوانان ملت کا جائزہ غیر رمضان میں لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم میں سے اکثر یا تودنیا طلبی میں اس قدرغرق ہیں کہ انہیں اپنے دین و اسلام سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ یا پھر اس قدر بے راہ روی کے شکار ہیں کہ انہیں دین و اسلام بس مدرسہ اور اہل مدارس تک محدود لگتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ رکھنا ، نماز پڑھنا، دینی احکامات پر عمل کرنا یہ یاتو ضعیف المعرشخص کے لئے خاص ہے یا پھر ان حضرات کے لئے جن کا تعلق مدرسہ سے ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے مستثنی سمجھتے ہیں۔ لیکن افسو س ہے کہ یہ صرف عبادات میں ہی اپنے آپ کو مستثنی سمجھتے ہیں جبکہ عیدین میں تو پیش پیش نظر آتے ہیں۔ایسا اس لئے کہ وہ دینی تعلیم سے بے بحرہ ہیں اور ان کی تربیت میں بھی نقص ہے۔ ان کی تربیت بھی ایسے ہاتھوں سے ہوئی ہے جو صرف اور صرف مسلم گھرانے میں پید ا ہونے ہی کو مسلم ہونے کے لئے کافی سمجھتے ہیں، دینی تعلیم یاشر عی احکامات پر عمل کرنا مسلم ہونے کے لئے ان کے نزدیک کوئی ضروری شیء نہیں ۔ جبکہ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث نبویہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ فرائض سے کوتاہی کرنے والوں سے باز پرسی کی جائے گی اور انہیں اس کی سزا بھی ملے گی۔ وہیں اس کی ادائے گی کرنے والوں کو اس کا پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ صحابہ کرام ، تابعین عظام ، سلف صالحین کی زندگی کے شب و روز اسی کی آئینہ دار ہے۔
رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت پر اللہ تعالی نے سورہ بقرہ کی آیت ۳۸ میں کہاکہ ” اے مومنو ! تم پر روزے ایسے ہی فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے امتوں پر فرض کئے گئے تھے ۔۔۔اور یہ کہ تم میں کا جوشخص رمضان المبارک میں باحیات رہے اسے چاہئے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کے لئے اس کی قضاء کرنا جائز ہے “۔ آیت مبارکہ روزے کی فرضیت پر صراحتا دلالت کرتی ہے۔ جبکہ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی میں کہا کہ ” اللہ تعالی کہتا ہے کہ ہر وہ عمل جو انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے ، اس لئے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ تو جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ لغویات اور شوروغل سے بچے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو چاہئے کہ وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں ، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ،اور روزے دار کے لئے دو خوشی کے مواقع ہیں ایک جب وہ افطار کرے تو افطار کی وجہ سے اور دوسرے جب وہ مجھ سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے۔ اس حدیث قدسی کا ہر جز رمضان اور روزے کی فضیلت کا آئینہ دار ہے۔ اس کے علاوہ دوسری احادیث بھی ہیں جو اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ روزے کا مطلب صبح سے شام تک کھانے ، پینے اور خواہشات نفسانی سے رکے رہنا ہی نہیں بلکہ روزے کی حالت میں لغویات و فحش گوئی ، جھوٹ ، غیبت و چغل خوری اور لڑائی جھگڑے سے بھی اپنے آپ کو روکے رکھنا روزے کی تکمیل کے لئے بے حد ضروری ہے۔
اب ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہمارے وہ نوجوان جو روزے کا اہتمام کرتے بھی ہیں تو اس کی ہیئت یہ ہوتی ہے کہ صبح سے شکام تک صرف کھانا ، پینا اور جمع سے دور رہنا ہے۔ لیکن دوسری لغویات ، جھوٹ اورلڑائی جھگڑے کے اندر شب و شتم تو جیسے ان کیرگ و پے میں رچی بسی ہیں ، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے روزے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ جو شخص روزے کے اندر فسق و فجور سے بعض نہ رہے اس کے لئے قطعی یہ مناسب نہیں کہ وہ دن بھر بھاکا رہے۔ یعنی ایسے شخص کا روزہ رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے روزے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ پھر یہ کہ بحالت روزہ فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی ضروری ہے اور اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرکے اپنی مغفرت کرالینا اور اپنے آپ کو پاک صاف کرلینا ہی اس ماہ مبارک کا مقصد ہے۔
جہاںرحمت و برکت اور عظمتوں والایہ مہینہ ضعیفوں کے لئے امید کی ایک کرن لے کر آتاہے وہیں جوانوں کے اصلاح نفس کا بہترین موقع ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی صفائی بھی کرلیں اوراپنی طرز زندگی میں بھی تبدیلی لائیں۔ اس کے لئے وہ لوگ جو اسلامی تعلیمات سے مزین ہیں خواہ یہ مدارس کے ذریعہ ہو یا دیگر ذرائع کے ذریعہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے سماج اور معاشرے کے نوجوان بھائیوں کی بھلائی کے اس کام میں مدد کریں اور نیکی کے کام میں انہیں بھی شریک کریں۔ انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنے سے زیادہ علم والوں سے رجوع کریں سیکھیں اور دنیا وی شرمندی کی پرواہ کئے بغیر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کریں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔”آمین”
(اردو نیوز بیورو)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *