مودی مہنگائی اور اچھے دنوں کی چاہت

نہال صغیر۔۔ایکتا نگر ۔کاندیولی (مغرب)ممبئی :400067 موبائل:9987309013

سابقہ کانگریس کی سربراہی والی ترقی سند اتحاد کی حکومت کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کیا ۔مہنگائی بڑھتی رہی نتیجہ یہ ہوا کہ اس حکومت کو عوام کے سخت غصہ کا سامنا اس صورت میں کرنا پڑا کہ کانگریس بری طرح ہاری ۔لیکن ہار کی اصل وجہ صرف مہنگائی اور بد عنوانی ہی نہیں تھی ۔بلکہ کانگریس کی ہار کی سب سے بڑی وجہ عوام دوست فیصلے بھی ہیں ۔یہ بات کچھ عجیب لگے گی کہ کانگریس نے کچھ عوام دوست فیصلے بھی کئے اورپھر بھی عوام نے اسے رد کردیا ۔کبھی یہ زمانہ رہا ہو تو رہا ہو لیکن آج صرف عوام دوست فیصلے کسی حکومت کے استحکام کا سبب ہر گز نہیں بن سکتے ۔آج کی حکومت بدلنے والی جمہوری جنگ ہو یا جارح جنگی مہمات ہر دو طرح کی جنگ صرف میڈیا کے ذریعہ جیتی اور ہاری جارہی ہے اور میڈیا قومی اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کا غلام ہے۔موجودہ مودی حکومت بھی اسی میڈیا کی دین ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس زبردست میڈیا مہم کیلئے اتنی خطیر رقم کہاں سے آئی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ خطیر رقم اسی گروپ اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے ادا کیا ہوگا جنہوں نے اپنے ایجنڈا یعنی منافع خوری کیلئے ایک سمجھوتہ کے تحت حکومت سے پیکیج حاصل کرنے کا وعدہ لیا ہوگا۔اس کے آثار تو تقریب حلف برداری کے دن سے ہی ظاہر ہونے لگے تھے ۔جب ڈیزل کی قیمت میں چار روپئے سے زائد کا اضافہ درج کیا جارہا تھا ۔اس کے بعد ابھی مہنگائی کی رفتار پچھلے چار مہینے میں سب سے بلندی پر ہے۔وزیر اعظم مودی نے بھی سخت فیصلے لینے والی بات کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ مہنگائی کی مار ابھی اور زیادہ لوگوں کو جھیلنی پڑے گی۔معلوم یہ ہوا ہے کہ اس بار کا بجٹ بھی خاصے خسارے کا پیش کیا جائیگا ۔نیز ریلوے بجٹ میں بھی کرایہ میں کافی اضافہ کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔مہنگائی کے اس عفریت پر جس کے مودی کی حکومت میں اور بے قابو ہونے کی بات کی جارہی ہے سوشل میڈیا پر کسی نے بہت اچھا تبصرہ کیا ہے جس کا یہاں ذکر دلچسپی سے خالی نہیں رہے گا۔تبصرہ کچھ یوں ہے’’اشتہار کے ذریعے خریدی گئی ہر چیز مہنگی پڑتی ہے ۔کیوں کہ اس کے دام میں اشتہار کا خرچ بھی جڑ جاتا ہے۔اس بار تو لوگوں نے حکومت ہی اشتہار والی چن لی ہے‘‘۔
مبصرین کے خیال میں کانگریس کے کئی اہم فیصلوں میں غذائی تحفظ کا بل ایک ایسا بل تھا جس کو سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ جیسے ادارے خوش نہیں تھے ۔اس کے علاوہ کچھ اور اداراہ بھی ہو سکتے ہیں انہوں نے ہی کانگریس کی سربراہی والی اس حکومت کو ہٹاکر نریندر مودی یا بی جے پی کی حکومت لانے میں اپنے خزانے کے منھ کھول دئے اور عوام کے سامنے کانگریس کی صرف برائیاں اور اس کی ناکامیاں ہی بیان کی گئیںاور بی جے پی نیز نریندر مودی کو ہندوستانی عوام کا واحد نجات دہندہ بناکر پیش کیا گیا ۔میڈیا کے اثرات سے تو خواص کا طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا عوام تو بے چاری عوام ہے ۔اسے کیا معلوم کہ پردے کے پیچھے سے اصل کھیل دکھانے والا کھلاڑی کون ہے ۔یہاں تو میڈیا میں اصلی کو نقلی اور نقلی کو اصلی،ہیرو کو ویلن اور ویلن کو ہیرو بنانے کا کھیل برسوں سے جاری ہے ۔اس الیکشن پر ہی تھوڑی سنجیدگی سے غور کرلیں تو حالات آئینہ کی طرح صاف دکھائی دیں گے ۔ہزاروں لاکھ کروڑ روپئے خرچ کرکے الیکشن ملک کی خدمت کیلئے نہیں لڑا جاتا اور نہ ہی جیت کے بعد اس طرح کا کوئی جذبہ کارفرما ہو تا ہے ۔یہ سب کچھ پچھلے 67 سالوں سے دیکھ رہے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ کچھ جذباتی باتیں کرکے عوام کو طفل تسلی میں مصروف رکھا جائے ۔اس سے کام چلتا ہے تو ٹھیک نہیں تو پھر برسوں پرانا فرقہ وارانہ منافرت کا نسخہ کیمیا ہندوستانی سیاست دانوں کیلئے مجرب ہے ۔ جسے بارہا آزمایا جاچکا ہے ۔جب بھی کسی معاملے میں حکومت کسی مصیبت کا سامنا کرتی ہے تو آ پ دیکھیں گے کہ کہیں کوئی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ چل پڑے گا ،کوئی بم دھماکہ ہوجائے گا یا سرحد پر کوئی غیر معمولی واقعہ ہو جائے گا ۔عوام اسی میں الجھ کر بھول جائے گی کہ حکومت نے اس سے عوامی اور ملکی مفاد کے کچھ وعدے بھی کئے تھے ۔ ابھی تو صرف معمولی مناظر ہی سامنے آئے ہیں لیکن بہت جلد جن لوگوں نے بڑے جوش خروش کے ساتھ مودی حکومت کو کلی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں اس امید پر بھیجا ہے کہ وہ عوام کی توقعات کو پورا کریں گے مہنگائی پر قابو پائیں گے اور کچھ ایسا کریں گے کہ ملک سے غریبی کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک امریکہ اور چین سے آگے بڑھ کر عالمی معیشت میں نمبر پر پہنچ جائے گا ۔انہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ ملک کو پچھلے 67 سالوں سے جن راہوں پر چلایا جارہا تھا وہاں سے واپس موڑ کر اسے عالمی قائد کی حیثیت دلانا ناممکن تو نہیں لیکن سخت دشوار ضرور ہے ۔کیوں کہ یہاں کی عوام بہت جلد فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہوجاتی ہے اور یہی حربہ سیاستدانوں کیلئے مفید ہے کہ جب وہ عوامی توقعات پر کھرے نہ اتریں اور ملک کو صحیح راستہ پر نہ ڈال سکیں تو عوام کے درمیان تفریق پیدا کردیں تاکہ انہیں حکومت سے یہ سوال کرنے کا ہوش ہی نہ رہے کہ تم نے ہم سے کچھ وعدے کئے تھے اس کا کیا ہوا۔ لہٰذا اچھے دنوں کا نہیں بلکہ پہلے سے سے زیادہ برے دنوں کا انتظار کیجئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *