
کچھ ایسے بدحواس ہوئے آندھیوں میں لوگ
سید خرم رضا
’’کیا کریں اور کس کے لئے کریں ، اگر ہم ووٹر کے لئے کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں اوربی جے پی یا عام آدمی پارٹی سے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تو کیا ووٹر ہمیں پانچ سال کے لئے دوبارہ منتخب کر یں گے ۔ کیا علاقہ کے ووٹر ہمیں اس لئے ووٹ دے دیں گے کہ ہم نے اصولوں کی سیاست کی اور فرقہ پرست و موقع پرست سیاسی پارٹیوں کا ساتھ نہیںدیا۔ ایسا ہر گز نہیں ہوگا ۔ اسی لئے ہماری کوشش ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحا ل کے پیش نظر ہم کسی بھی پارٹی کی مدد کر کے اس کی حکومت بنوا دیں اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پانچ سال بعد دہلی کی سیاست میں ہمیں کوئی بھی نہیں پہچانے گا ۔ اس لئے فی الحال تو ہماری کوشش یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی چاہے وہ بی جے پی ہی کیوں نہ ہو کی دہلی میں حکومت قائم ہو جائے اور انتخابات کی جو تلوا ر ہمارے سروں پر لٹکی ہوئی ہے وہ کسی طرح سے ہمارے سروں سے ہٹ جائے ۔ کسی بھی پارٹی کی جب بات ہو رہی ہے تو اس میںبی جے پی بھی شامل ہے‘‘۔ یہ بات کہنے والے دہلی کے مسلم رکن اسمبلی ہیں جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے۔حقیقت یہ ہے کے دہلی میں اس وقت کسی بھی پارٹی کا رکن اسمبلی انتخابات نہیں چاہتا اور اس کی خواہش یہ ہے کہ کسی کے بھی ساتھ کسی بھی طرح سے گٹھ جوڑ کی حکومت تشکیل ہو جائے تاکہ انتخابات ٹل جائیں۔ انتخابات میں جتنا زیادہ پیسے کا دخل ہے اور جتنی ذہنی اور جسمانی محنت کی اس میں سرمایہ کاری ہے اس کو دیکھ کر کوئی بھی رکن اسمبلی ہمت نہیں کر پا رہا کہ وہ ایک سال کے اندر دوبارہ انتخابی میدان میں اترے اور اس صورتحال سے بچنے کے لئے وہ ہر طرح کے جوڑ توڑ کے لئے تیار ہے ۔جس انداز میں دہلی کے منتخب امیدوار سوچ رہے ہیں اس طرح کی سوچ میں کوئی برائی بھی نہیںہے ہر شخص اپنے مفاداور حالات کوذہن میں رکھ کر ہی کوئی فیصلہ لیتا ہے۔
کیا یہ بات صرف اسی حد تک محدود ہے یا یہ حالات کسی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔کیا واقعی ووٹر کا اپنے منتخب نمائندہ کے ساتھ رشتہ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ منتخب نمائندہ اپنے ووٹر پر آنکھ بند کر کے بھروسہ نہیں کر سکتا۔ کیا کسی پارٹی کے لیڈر کا اپنی پارٹی کے ساتھ تعلق صرف کامیابی کی ضرورت سے جڑا ہوا ہے اور اگر اپنی پارٹی کی وجہ سے اس کواپنی انتخابی شکست نظر آتی ہے تو وہ پارٹی کو خدا حافظ کہنے میں دیر نہیں کرتے۔ شاید اب اصولوں اور وفاداریوں کادور ختم ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ اس طرح کی تبدیلی واضح نظر آرہی ہے۔اس نئی تبدیلی کو مفاد پرستی اور موقع پرستی کے علاوہ کسی اور شکل میں پیش کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ عام انتخابات سے قبل کئی پارٹیوں کے بڑے رہنمائوں نے اپنی انتخابی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے پالہ تبدیل کیا۔ ویسے تو اس فہرست میں ناموں کی کوئی کمی نہیں ہے چاہے وہ یو پی کے جگدمبیکا پال ہو ں جنہوںنے کانگریس کا دامن چھوڑکر بی جے پی میں شمولیت اختیا کی ہو یاراجستھان سے تعلق رکھنے والے کانگریس ہی کے کرنل سونا رام ہوں جو آج بی جے پی سے منتخب ہو کر لوک سبھا کے رکن ہیں۔جنتا دل (یو) کے صابر علی نے بھی انتخابات سے قبل پارٹی کو چھوڑکر بی جے پی میں شمولیت اختیا ر کر لی تھی۔ویسے ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے اور بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ اس تبدیلی کا خاص پہلو یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کا مسلم منتخب نمائندہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ بی جے پی میں شامل ہو جائے یا اس کی حمایت کر دے لیکن دہلی کے مسلم رکن اسمبلی کے بیان سے جس سوچ کی عکاسی ہوتی ہے وہ دراصل ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اگر یہ سوچ اپنی قوم کی ترقی کو ذہن میں رکھ کر بنتی یا ملک کے مفاد کو ترجیح کی بنیاد پر بنتی تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہوتی مگر کیونکہ یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس سوچ کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد ہے کہ سیاست داں اب ادھر کھڑا دکھنا چاہتا ہے جہاں اس کے مفادکو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو۔اس لئے اب قوم اور پارٹی سے وفاداری گزرے دنوں کی بات ہو گئی ہیں۔
جس طرح کی شکایت منتخب نمائندہ کو اپنے ووٹر سے ہے وہ بھی ایک حققیقت ہے۔ ووٹر بھی پہلے کی طرح جذباتی وفادار ووٹر نہیں رہا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں نظریات کی سیاست کا دور ختم ہو گیا ہے اور سیاست نے ایک انڈسٹری یا صنعت کی شکل اختیار کر لی ہے ۔اگر سیاست میں اس طرح کی عدم وفاداری یا غیر اعتمادی نے اپنی جڑیں جما لیں تو پھر حکومتیں بڑے بڑے مالس بنا سکتی ہیں اور بلیٹ ٹرینوں کا جال بچھا سکتی ہیں لیکن ایسا سماج نہیں بنا سکتی جہاں اصولوں اور قدروں کا راج ہو ، جہاں غریب صرف حکومت میں آنے کا ذریعہ نہ ہو بلکہ غریب کے مسائل کے تئیں فکر ہو۔آج جو سوچ دہلی کے مسلم رکن اسمبلی کے ذہن میں گھر کر گئی ہے وہ سوچ کسی بھی سماج کے لئے اچھی نہیں ہے۔ دراصل یہ سوچ شکست خوردہ ذہن (Defeatist Mentality) کی سوچ ہے اور اس سوچ کے ساتھ کوئی بھی ملک یا قوم ترقی نہیں کر سکتا۔ ایسا اکثر ہوا ہے جب خودساختہ رہنمائوںنے حساس اور انتہائی نازک حالات میں ایسے فیصلے لئے جن سے وقتی فائدہ ہوا ہو یا نہیں ہوا ہو لیکن بڑا نقصان ضرورہوا ہے۔
کچھ ایسے بدحواس ہوئے آندھیوں میں لوگ
جو پیڑ کھوکھلے تھے انہی سے لپٹ گئے