Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مسلم علماء زمیندارانہ مسلم تہذیب کے علمبردار

by | Jun 21, 2014

  ظفر آغا

ایک دور تھا کہ مسلمان دنیا پر چھایا ہوا تھا۔ کبھی بغداد تو کبھی قسطنطنیہ تو کبھی دہلی، آگرہ اور لکھنؤ جیسے شہر دنیا کی نگاہوں کے مرکز تھے۔ وہ بغداد کی خلافت رہی ہو یا ترکی خلافت یا پھر مغلیہ حکومت، یہ تمام مسلم حکومتیں میڈویل دور یعنی قرون وسطہ کے زمانوں کی سپر پاور تھیں جن کے آگے مغربی دنیا تک سرنگوں تھی۔ پھر ایشیا اور افریقہ پر مسلم حاکموں اور مسلم تہذیب کا پرچم لہرا رہا تھا۔ لیکن وسط 18ویں صدی میں یورپ یعنی مغرب میں سائنسی انقلاب نے کیا انگڑائی لی کہ بس مسلم دور کو گھن لگ گیا اور وسط انیسویں صدی یعنی 1857 میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے لے کر ترکی کی خلافت کے زوال تک مسلمان ایسے زوال کا شکار ہوا کہ اب وہ کم و بیش دنیا بھر میں غلامی کی کگار پر ہے۔ خود ہندوستان میں یہ عالم ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال سے اب تک مسلمان ایک لامتناہی شکست اور پسماندگی سے گزر رہا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔ راقم نے اکثر اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ مسلم پسماندگی اور زوال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک سپر پاور کی حیثیت کے دور سے گزر کر مسلمان جب مغرب سے پسپا ہو گیا تو اس کے علماء کرام نے اس تصادم کو اسی سازش کا حصہ سمجھا جو خلیجی جنگوں کے وقت اسلام اور مسیحی مغرب کے درمیان کا تصادم تھا۔ اس کے نتیجے میں علماء کرام نے مسلم تہذیب اور مغربی تہذیب کو ایک تہذیبی تصادم کا حصہ مان کر پوری مغربی تہذیب کو ہی رد کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان پوری اس انڈسٹریل تہذیب کو رد کر بیٹھا جس نے انسانیت کو جمہوریت کا نیا طرز سیاست دیا، نئے سائنسی ٹیکنالوجیکل علوم عطا کیے اور انسانیت کو پوری زمیندارانہ اور قبائلی معیشت سے باہر نکال کر انڈسٹریل معیشت سے ہم کنار کروایا کہ جس کے سبب ساری دنیا میں ترقی کی وہ راہیں کھل گئیں جو انسان کے لیے انڈسٹریل انقلاب سے پہلے ممکن ہی نہ تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حقیقتاً اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک تصادم ہے کہ جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتا ہے! اس سوال کے جواب سے قبل یہ سوچنا ہوگا کہ کیا کسی مذہبی عقیدے اور کسی تہذیب کے درمیان کوئی تصادم ممکن ہے! راقم کی رائے میں تہذیبوں کے درمیان تو تصادم ہوتے ہیں اور ممکن ہیں لیکن مذہبی عقیدے اور تہذیب کے درمیان تصادم ممکن نہیں ہے۔ اسلام ایک عقیدہ ہے جو وحدت الٰہی اور نبوت رسول پر مبنی ہے اور قرآن ان عقائد کی وضاحت کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے اخوت، برابری، حقوق نسواں، عبادت کی آزادی اور اپنے ماننے والوں کو ہر قسم کے مذہبی پیشوائوں کے چنگل سے آزادی دلوا کر تمام انسانیت کے لیے empowerment کے وہ راستے ہموار کیے تھے کہ جس کا خواب بھی انسانیت نے اسلام کے عروج سے قبل نہیں دیکھا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اسلام سو سال سے کم مدت میں دنیا پر چھا گیا اور مسلم حکومتیں دنیا میں گلوبل پاور بن کر ابھریں۔ انھیں اسلامی empowerment کی قدروں کا استعمال کر مسلمان پورے میڈویل دور میں دنیا پر چھایا رہا۔ لیکن حکومتیں اولاً اور آخراً حکومتیں ہی ہوتی ہیں۔ خالص اسلامی قدروں پر جنم لینے والی اسلامی حکومتوں کا دور خلفائے راشدین کے دور کے بعد ختم ہوا۔ اس کے فوراً بعد خلافت نے بادشاہت کا روپ اختیار کر لیا۔ پہلے عمومی شاہی دور رہا پھر بغداد میں عباسی خلافت کا دور ہوا اور اس طرح ساری دنیا میں مسلم شاہی کا ڈنکا بجنے لگا۔ دنیا بھر میں شاہی نظام کی بنیاد زمیندارانہ معیشت اور زمیندارانہ قدروں پر ہوتی ہے۔ چنانچہ مسلم خلافتیں اور مسلم شاہی دور بھی آہستہ آہستہ زمیندارانہ معیشت اور زمیندارانہ قدروں کی غلام ہو گئیں۔ وہ اسلامی قدریں جن کی بنیاد رسول کریم نے مدینی دور میں رکھی تھیں وہ اب آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گئیں۔ مثلاً رسول کے دور میں تمام مسلمان اللہ کے بندے تھے اور بھائی تھے جو ہر سطح پر برابر تھے۔ جب بادشاہی دور شروع ہوا تو بادشاہ کو عروج ملا کہ وہ ظل الٰہی بن کر بندوں کی زندگی کا مالک ہو گیا۔ یعنی بادشاہی دور میں اسلامی اخوت ختم ہو کر محض مسجد اور نماز کی صفوں تک سمٹ گئی اور مسلمان سماجی سطح پر زمیندارانہ اونچ نیچ کا شکار ہو کر خانوں میں بنٹ گیا۔ اسی طرح وہ اسلامی قدر جس میں رسول کریم نے عورت کو آزادی کا وہ پیغام دیا تھا کہ جس کا تصور بھی انسانیت نے اسلام سے قبل نہیں کیا تھا، وہی عورت کی آزادی زمیندارانہ قدروں کا شکار ہو کر گھر کی چہار دیواری میں قید ہو گئی۔ ذرا تصور کیجیے کہ رسول کی بیوی حضرت خدیجہ کا شمار مکہ کی اولین Business Women میں ہوتا تھا۔ آج مسلمان عورت اگر خود کوئی بڑی تجارت کرے تو اس کو مسلم سماج میں عزت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے گا۔ پھر رسول عورت کو مسجد نبوی میں مردوں کے ساتھ صفوں میں نماز پڑھا کر یہ پیغام دے گئے کہ اللہ کے گھر میں عورت اور مرد کا برابر کا رتبہ ہے۔ آج دہلی یا لکھنؤ کی کسی مسجد میں مردوں کے ساتھ کوئی عورت نماز پڑھنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتی ہے۔ پھر رسول نے عورت کو اپنے والدین اور اپنے شوہر کے مال و دولت میں حصہ عطا کر عورت کو معاشی آزادی اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا سبق دیا۔ آج مسلم سماج میں ایک لڑکی اگر نوکری کی جرأت کرتی ہے تو خود اس کے والدین اس کو معیوب سمجھتے ہیں۔ پھر اسلام دنیا کا وہ نظام ہے کہ جس نے عورت کو خلع کا حق دے کر عورت کو ازدواجی حقوق کے میدان میں مرد کے برابر کر دیا۔ آج ہندوستانی مسلمان طلاق بدعت یعنی تین طلاق کا حق قائم رکھنے کے لیے اپنی جان دینے کو تیار ہے۔ لب لباب یہ کہ مسلم شاہی دور کا تعلق رسول کے اس اسلام سے نہیں تھا جس کی بنیاد پر رسول نے مدینہ میں ایک نئے اسلامی سماج کی بنیاد رکھی تھی بلکہ خلافہ کے دور کے بعد جو مسلم معاشرہ قائم ہوا وہ بنیادی طور پر اس دور کے تمام معاشروں کی طرح زمیندارانہ معیشت اور زمیندارانہ قدروں پر قائم تھا۔ اور انھیں زمیندارانہ قدروں پر مبنی ایک مسلم تہذیب نے جنم لیا جس کا اسلامی قدروں سے صرف ایک سطحی تعلق تھا۔ مثلاً شاہی تہذیب کے دور میں مسلمان عالمی سطح پر ایک دوسرے کی برابری کھو چکا تھا۔ اس تہذیب میں اسلامی قدر کا صرف اتنا اثر رہ گیا کہ ’محمود و ایاز‘ محض مسجد میں ایک دوسرے کے برابر ہوتے تھے۔ اسی طرح میدان جنگ میں جانے والی رسول کے دور کی عورت شاہی دور میں زمیندارانہ قدروں کی غلام ہو کر گھر کی چہار دیواری میں قید ہو چکی تھی، اور وہ حجاب جو اسلامی دور میں اس کی شرم و حیا کا پاسبان تھا وہ حجاب شاہی دور میں پورے برقعے کی شکل میں اختیار کر عورت کو اپنے خاوند کا تابعدار بنا چکا تھا۔ یعنی اسلام نے جس نسوانی آزادی کا پیغام رسول کے دور میں دیا تھا وہ مسلم شاہی دور میں ختم ہو چکا تھا۔ اب مسلمان عورت دنیا کے تمام زمیندارانہ معاشروں کی طرح مردوں سے کمتر اور گھر کی چہاردیواری تک مقید تھی۔ اسی طرح اسی ہندوستانی شاہی معاشرے کا یہ عالم تھا کہ مسلمان اللہ کا بندہ کم بلکہ اپنی سماجی حیثیت کے اعتبار سے پہلے دو خانوں یعنی اشراف و کمتر میں بنٹ چکا تھا۔ پھر سماجی تقسیم کا یہ عالم ہوا کہ اسی ہندوستان میں کوئی سید تو کوئی شیخ تو کوئی پٹھان تو کوئی جولاہا تو کوئی قصائی تو کوئی راعین۔۔۔ نہ جانے کتنی برادریوں میں بنٹ گیا۔ یعنی مسلم شاہی دور نے رسول کے دور کی خالص مسلم اخوت اور مسلم سماج کی انسانی برابری کا بھی خاتمہ کر دیا اور یہی حال کم و بیش دنیا کے تمام مسلم سماج کا ہوا کیونکہ وہ اب اسلامی قدروں کے نہیں بلکہ شاہی زمیندارانہ یا قبائلی قدروںمیں یقین کرنے لگے تھے۔ لب لباب یہ کہ رسول کے انتقال کے بعد اور حد سے حد خلفاء راشدین کے دور کے بعد عالم اسلام سے اسلامی تہذیب کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ مسلم سماج میں ایک مسلم شاہی دور نے جنم لیا تھا جس کی بنیاد میڈویل دور کی زمیندارانہ قدروں پر مبنی تھی اور آج ہم جس مسلم تہذیب کا ڈنکا پیٹتے ہیں اور جس کو آج بھی گلے سے لگائے پھرتے ہیں دراصل وہ مسلم تہذیب کچھ اور نہیں بلکہ زمیندارانہ یا کچھ حصوں میں قبائلی تہذیب کا ورثہ ہے۔ اس مسلم تہذیب میں سیاسی و سماجی سطح پر اسلامی اخوت ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ مسلم شاہی نے لے لی ہے جس کو طالبان اور القاعدہ جیسے گروہ آج بھی خلافت کا نام دیتے ہیں۔ تب ہی تو کم و بیش تمام مسلم ممالک میں آج بھی شاہی دور یا کسی نہ کسی قسم کی ایک شخص کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے جو زمیندارانہ سیاسی نظام کا شیوہ ہے اور مسلم ممالک میں سیاسی سطح پر جمہوریت کا چلن نہیں ہے۔ طالبان آج بھی افغانستان میں ووٹ ڈالنے والوں کی انگلیاں کاٹ دیتے ہیں۔ ہم آج بھی ملالہ یوسف زئی کو اس لیے سزا دیتے ہیں کہ وہ لڑکی ہو کر چہار دیواری کی قید توڑ کر تعلیم حاصل کر خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی جرأت کرتی ہے۔ ہمارے یہاں بینک آج بھی حرام ہے کیونکہ وہ زمیندارانہ معیشت کے بجائے انڈسٹریل معیشت کی علامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی عقائد کا مغرب کی انڈسٹریل تہذیب سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ یہ مسلم زمیندارانہ تہذیب کے باقیات ہیں جو مغرب کو صلیبی دشمن سمجھ کر آج بھی زمیندارانہ مسلم تہذیب کو برقرار رکھنے کی ضد میں پوری انڈسٹریل تہذیب کو رد کر مسلمانوں کو پسماندگی کے غار میں ڈھکیل رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس مردہ اور رجعت پسند زمیندارانہ مسلم تہذیب کے علمبردار وہ لوگ ہیں جو اپنے کو علماء کہتے ہیں۔ اس لیے مسلمان کا دشمن مغرب نہیں بلکہ وہ علماء ہیں جو اسلام کے علمبردار نہیں بلکہ ایک ایسی زمیندارانہ مسلم تہذیب کے علمبردار ہیں جس کو انیسویں صدی سے گھن لگ چکا ہے اور وہ خود اسلامی قدروں سے دور ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ ایسے علماء سے نجات حاصل کریں۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...