آخر دلت اور مسلمان کیوں ہیں تعلیمی جمودکا شکار؟

نیلوفر حبیب
ابھی حال میں وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی نے تعلیم کے میدان میں ملک کے مختلف طبقوں کی نمائندگی کے جو اعدادو شمار پیش کئے ہیں اس سے صاف ہے کہ ملک میں تعلیم کی تصویر قابل ستائش تو نہیں ہے۔ یہ اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ پرائمری اسکولوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں مسلم بچوں کے داخلوں میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے ہلکی گراوٹ ایس سی ایس ٹی بچوں کے داخلوں میں دکھائی د ی ہے۔ دوسری جانب دیگر پسماندہ طبقوں کے داخلوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ شیڈول کاسٹ کے بچوں کے اسکول داخلے میں ہلکی گراوٹ اور مسلم بچوں کے داخلے میں معمولی اضافہ دونوں ہی ملک کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے کیونکہ ہلکی گراوٹ یا معمولی اضافے کا مقصد ایک ہی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایس سی ایس ٹی اور مسلمانوں میں تعلیم کے میدان میں ٹھہرائو کی حالت ہے۔ وہ بھی ایسے دور میں جب معلومات اورایجادات کولانچے مار رہے ہیں۔ بنیادی تعلیم میں بڑی آبادی میںجمودملک کے لئے باعث تشویش موضوع ہے کیونکہ دونوں سماج ملک کی تقریبا ایک تہائی آبادی ہیں۔ اگر ملک کی ایک تہائی آبادی غیر تعلیم یافتہ ، مواقع کے حقوق سے دور اور غریبی میں رہے گی تو ملک آگے بڑھنے اور ترقی کے کسی بھی مقام کو چھو نے میں ناکام رہے گا بلکہ ایسے حالات رہنے سے یہ آبادی ملک کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ نیزطاقتور ہندوستان بننے کے راستے میں اتنی بڑی آبادی کمزور ثابت ہو سکتی ہے۔ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کے اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی اسکولوں میں مسلمان بچوں کا داخلہ سال 2012-13 میں 14.20 فیصد تھا جو کہ سال 2013-14 میں بڑھ کر14.35 فیصد ہوا ہے۔ وہیں ایس سی ایس ٹی کا داخلہ 20.24 فیصد سے کم ہو کر 19.72 فیصد ہو گیا ہے۔ ان اعدادو شمار میں پسماندہ طبقوں کے بچوں کا داخلہ 42.9 فیصد سے بڑھ کر 44.1 فیصد ہوا ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کے بچوں کے داخلے میں اضافے سے ہم بھلے ہی مطمئن ہوں لیکن مسلمان اور ایس سی ایس ٹی بچوں کے داخلوں کا فیصد مایوس کرنے والا ہے۔ یہاں سوا ل اٹھنا لازمی ہے۔ 67سا ل کی جمہوریت اور پانچ سال پہلے بنے قانون جس میں6 سے 14 سال تک کے بچوں کے لئے تعلیم مفت اور لازمی کی گئی تھی۔ لازمی تعلیم کے قانون کے باوجود ان حالات کا ہونا مرکزی اور ریاستی حکومت کی ذمہ داریوں پر سوال اٹھاتی ہیں ۔ ان سوالوں کا جواب ہماری انتظامیہ کو دینا چاہئے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ مفت اور لازمی تعلیم بنا دینے سے کیا سماج کے سبھی طبقے سے بچے اسکول چلے جائیں گے؟ اگر بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں تو بچوں کو اسکول جانے سے روکنے والے حالات کو سمجھنا ہوگا اور اسے بدلنا بھی ضروری ہے۔ ان حا لات کو بدلنے کے چیلینج کو موجودہ حکومت کو قبول کرنا چاہئے۔ اگر حکومت ان سے نبردآزما ہونے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے گی تو اچھے دن کا وعدہ غریبی ہٹائو کے نعرے جیسا ہی بن کر رہ جائے گا ۔
مسلمانوں اور ایس سی ایس ٹی کے بچوں کے اسکول نہ جانے کے حالات مختلف ہیں۔ پچھلے لمبے عرصے سے ایس سی ایس ٹی اور قبائل کے لئے سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کے ساتھ پنچائتوں سے لیکر لوک سبھا تک ریزرویشن مختص ہے۔ اس کا فائدہ بھی انہیں بڑی تعداد میں ملا ہے۔ اس ریزرویشن نے اس طبقے کی تقدیر اور تصویر کو خاصا بدلا ہے۔ایس سی ایس ٹی جیسے سماجی اور معاشی حالات میں رہنے واے مسلم سماج کو وہ حق حاصل نہیں ہے جو ایس سی ایس ٹی کو حاصل ہے۔ مسلم سماج کے لئے ریزرویشن جیسی کسی چیز کے لئے مرکز کی جانب سے کیا انتظام نہیں ہے۔ اس کے باوجود دونوں کے تعلیم حالات میں ٹھہرائو پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سماج کے روشن خیا ل لوگوں کو اس معاملے پر غور کرنا چاہئے کہ آخر وہ کون سے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان طبقوں کے بچے اسکول جانے کی حالت میں نہیں ہیں ؟ ان کے خاندان کی معاشی حالت کیسے بدلے اور ملک کو تعلیم ، ترقی یافتہ اور خوبصورت بنانے کا خواب ان کا اپنا خواب کیسے بنے؟ بغیر خواب دیکھے اسے مکمل کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اس خواہش کے لئے ان کے سماجی حالات کو بدلنے کے لئے منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جو تعلیم مل رہی ہے یا جو تعلیمی ڈھانچہ ہم نے کھڑا کیا ہے وہ کیسا شہری پیدا کر رہا ہے اس جانب بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تعلیم کے سامنے بہت سے مسائل ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ سرکاری تعلیمی نظام کا ایک بڑا حصہ کاہل اور غیر ذمہ دار ہو گیا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ جس طرح سے پہلے اساتذہ کو عزت دی جاتی تھی ویسا آجکل نہیں ہے۔ اساتذہ کو سماج میں مناسب عزت دینے کی ضرورت ہے۔ حالت یہ ہے کہ تعلیمی ادارے اب سرسوتی کی جگہ لکشمی کی پوجا کر رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کا ایک بڑا حصہ صرف نوکری کر رہا ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ بنیادی اسکولوں سے پاس ہونے والے بہت سے بچے کتابوں کو روانی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی کتابوں سے متعلق سوالات کے جوابات لکھنے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ان حالات میں وہ مڈل اسکول تک جانے کے لائق نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں پاس تو کر دیا جاتا ہے لیکن آگے چل کر فیل ہونے لگتے ہیں۔ والدین ان بچوں کو اسکول سے ہٹا دیتے ہیں۔ ایسی تعلیم کا کیا مقصد ہے؟ جب وہ پانچ سیڑھیوں بعد پانچویں سیڑھی پر آتے ہی لڑکھڑانے لگتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کے حالات کچھ ایسے ہی بنتے جا رہے ہیں۔ ان اسکولوں کے بچے جن کی بنیادی تعلیم اتنی کزور ہو وہ آگے کیسے تعلیم حاصل کر پائیں گے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان اسکولوں میں ملک کی غریب بڑی آباد ی کے بچے پڑھنے آتے ہیں۔ اپنے شہریوں کو یہ سرکاری اسکول تعلیم کہاں تک پہنچا رہے ہیں یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ شاید اسی لئے اہل خاندان اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ اس نظریے کو بدلنے میں حکومت کو اپنا کردا ر ادا کرنا چاہئے۔ قبول کرنا ہوگا کہ اسکول جانے کے لائق بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے غریبی اور بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس خاندان میں روزگار کا ذریعہ نہ ہو وہ کیسے اپنے بچے کو اسکول بھیجے گا ۔ یہ وہ خاندان ہیں جو خود بچپن سے اپنے والدین کی مدد کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ ذرائع کی کمی کے چلتے یہ جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں اور تھک جاتے ہیں۔ ان کی تھکی ہوئی زندگی بھی ان کے بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ان کے بچے یا تو اسکول جاتے نہیں یا اگر جاتے ہیں تو بیچ میں پڑھائی چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ ایسے بچے بڑے ہوکر ایسے روزگار پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں جو ان کی اگلی پیڑھی کو تعلیم یافتہ کر سکے اور مقابلے میں کھڑا کر سکے ۔ حکومت کو اپنی ذمہ داری تو ادا کرنی ہوگی دونوں سماج کو عہد کرنا ہوگا کہ اگر انہیں آگے بڑ ھنا ہے اور اپنی اگلی پیڑھی کو بھی تعلیم یافتہ دیکھنا ہے تو انہیں کچھ اور زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ ان کے بچوں کو بھی سب طرح کی مصیبتیں اٹھا کر تعلیم یافتہ ہونا ہوگا ۔