آسمان کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے انسان کو کو شش کرتے رہنا چاہئے

نصف درجن سے زائد پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کے مالک محمد ذکاء اللہ صدیقی جب 1964 میںالہ آباد سے ممبئی آئے تھے تو انہیں حاجیوں کا معلّم بنایا گیا تھا ۔لیکن جاں گسل جد و جہد ،انتھک محنت و مشقت کے ذریعہ آج وہ درجنوںفلاحی و سماجی ادروں کے سربراہ ہیںدانش ریا ض سے ہوئی گفتگو میںانہوں نے ان تجربات کو بیان کیا جسے چار دہائی کے عرصے میں انہوں نے حاصل کیا ہے….پیش ہیں اہم اقتباسات

 محمد ذکاء اللہ صدیقی
محمد ذکاء اللہ صدیقی

سوال:الہ آباد سے ممبئی تک کا سفر اور پھر نصف درجن سے زائد کمپنیوں کا قیام ساتھ ہی درجنوں فلاحی اداروں کی سربراہی ،کیوں کر یہ سب ممکن ہوسکا ہے؟
جواب:دراصل زندگی کا پورا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے،اتر پردیش کے غازی پور ،بزرگہ میں جب میں نے 12اپریل 1939کو امۃ النسا کی گود میں آنکھیں کھولی تھیںتومیری والدہ گھریلو خاتوں تھیں اور والد صاحب نور اللہ صدیقی علاقے کے زمیندار کہلایا کرتے تھے۔لیکن 1955میںجب زمینداری کا خاتمہ ہوا تو پھر کسمپرسی کی زندگی شروع ہوگئی۔افرا تفری کا عالم یہ تھا کہ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے کیا نہ کرے ،تبھی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے الہ آباد آگیا جہاں سے بی اے اورایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔تعلیم سے فراغت کے بعد تلاش معاش کا دور شروع ہوا اور ممبئی میری قسمت کی جائے پناہ قرار پائی۔1964میں جب میں یہاں آیا تھاتو حاجیوں کی معلّمی اور ان کے قانونی معاملات دیکھنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔اسی دوران سالیسیٹر پی جی آڈیٹر کے یہاں بطو Trainee کام کرنے لگا ،دریں اثنا میں نے بطور ایڈ وکیٹ بار کونسلآف مہاراشٹر کی ممبر شپ حاصل کی ، رجسٹریشن ملنے کے بعد میں نےذاتی کنسلٹنسی قائم کی اور قانونی معاملات کا مشیر بن گیا ،چونکہ پہلے تمام حاجی پانی کے جہاز سے سفرکیا کرتے تھے لہذا ان کا حلف نامہ داخل کرنا اور دیگر قانونی معاملات دیکھنا میری ہی ذمہ داری تھی ،Shippingکے ساتھ حج کمیٹی کے بھی چھوٹے موٹے Legalکام ملنے لگے جسے میں نے اوّلین فرصت میں کرنے کی کوشش کی۔ انہیں دنوں پانی کے جہاز سے میں نے دو مرتبہ فریضہ حج بھی ادا کیا۔مغل لائن اور برٹش انڈیا شپنگ کمپنی نے مجھے Passenger Brokerکا لائسنس دیا لیکن جب شپنگ کا زمانہ ختم ہوا اور لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرنے لگے تو پھر میں نے ہوائی جہاز کی ٹکٹنگ کا کام شروع کیا اور 1969-68میں Zaireen Travel Service کو رجسٹرڈ کرایا اور کام کا آغاز کیا۔
سوال:ٹریول سروس میں تو بہت سارے لوگ ہیں لیکن آپ کو امتیاز کیوں حاصل ہے؟
جواب: جس وقت میں نے Zaireenکا کام شروع کیا تھا اسی وقت مجھے سعودی ایئر لائنس کی طرف سے کثیر تعداد میں ٹکٹ بکنگ کا آفرملا اور پھر سعودی ایئر لائنس کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات استوار ہوگئے 1980میں انہوں نے مجھے جنرل سیلس ایجنٹ کا لائسنس دے دیا،1982میں میں نے Fourways Travels Pvt.Ltd کو خرید لیا جس کے ساتھ ہی کارگو ،ڈومیسٹک اور انٹر نیشنل ٹکٹنگ کا کام احسن انداز میں ہونے لگا۔میں نے وہلی ،حیدر آباد،لکھنئو،الہ آباد ،ممبئی وغیرہ میں اپنی آفیسیز قائم کیںجب ڈومیسٹک ایئر لائنس کا زمانہ آیا تو نارتھ ایسٹ ایئر لائنس کے لئے لائسنس حاصل کیا ،لیکن بحیثیت جنرل سیلس ایجنٹ سعودی عرب کے ساتھ تجارت پر میری نظر مرکوز رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے بالمقابلآج بھی مجھے امتیاز حاصل ہے۔
سوال :تجارت کو فروغ دینے کے لئے مزید کیا منصوبے زیر غور ہیں؟
جواب:الحمد للہ اس وقت کیرلہ میں کالی کٹ،بنگال میں کلکتہ،آندھراپردیش میں حیدر آباد،اتر پردیش میں لکھنئو و الہ آباد،مدھیہ پردیش میں اندور،جبکہ گوا اور دہلی میں میری کارگو آفسیز قائم ہیں ،لہذا میں کارگو کا ڈومیسٹک ایئر لائنس شروع کرنےکے لئے لائسنس لے رہا ہوں۔ویسے تاحد آسمان پرواز کرنے کے لئے آدمی کوکو شش کرتے رہنا چاہئے۔
سوال:تجارت کو فروغ دینے میں آپ کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے؟
جواب:جس وقت میں نے تجارت کا آغاز کیا ہے اس وقت نہ تو ٹیلی فون کی سہولت تھی اور نہ ہی موٹر کار و گاڑیوں تک عام آدمی کی رسائی تھی لیکن اب ٹیکنالوجی کے زمانے میں بیٹھے بیٹھے آپ ہر چیز حاصل کر سکتے ہیں،پہلے قانونی سختیاں بھی تھیں جب کہ اب بہت ساری آزادیاں ملی ہوئی ہیں،اگر انسان کے اندر لگن ہو تو پھر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے،لہذا پریشانیوں کا رونا کبھی بھی نہیں رونا چاہئے بلکہ لگن کے ساتھ اپنے ہدف کو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔خاص بات یہ ہے کہ جب پریشان تھا تب بھی سکون تھا اور آج جب کہ فراوانی ہے تب بھی سکون ہے،کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ ہمیشہ عزت کی روٹی حاصل کی ہے۔
سوال :ہندوستان کا جمہوری نظام مسلم تاجروں کے لئے کیسا ہے،کیا آپ کو بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے؟
جواب:ہندوستان کا قانون تمام لوگوں کے لئے یکساں ہے ۔جس وقت میں نے تجارت کا آغاز کیا تھااس وقت انتہائی نچلی سطح پر تعصب دیکھنے کو ملتا تھا ،خصوصاً ہمارے بزنس میں کوئی تعصب نہیں تھا لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیزیں Upper Lavelپر بھی سرایت کر گئی ہیں دراصل سنگھ پریوار کے لوگ اب ہر جگہ براجمان ہو گئے ہیں۔ویسے مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام راہ نجات ہے،وہی زندگی گذارنے کا طریقہ فراہم کرتا ہےاگر انسان محنت و مشقت اور انتہائی ایمانداری کے ساتھ کام کرے تو پھر اسے بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔کیونکہ اسلام کا پیغام آفاقی ہے ،اور آفاقی پیغام کی حامل امت کبھی بھی تعصب و تنگ نظری سے پریشان نہیں ہوتی۔دراصل ممبئی کی ایک خاص بات ہے وہ یہ کہ ممبئی ہر آدمی کو ایک موقع دیتی ہے ،جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو گھبرا جاتا ہے وہ پھر کبھی سنبھل نہیں پاتا۔حسد ،جلن سے دور رہتے ہوئے اگر آپ پوری ایمانداری کے ساتھ دین پر عمل کرتے ہوئے تجارت کریں گے تو اللہ تعالی بھی آپ کو نوازے گا۔اسی طرح کوئی کامیابی فوری طور پر نہیں ملتی بلکہ صدیاں لگ جاتی ہیں،لہذاصبر کا دامن بھی تھامے رکھنا چاہئے۔
سوال:سررکاری نوکری کے لئے آپ کے دل میں خیال پیدا ہو ا یا نہیں؟
جواب:بچپن میں مجھےسول سروس امتحان پاس کرنے کی خواہش تھی لیکن اس وقت فیس اس قدر تھی کہ میں اس خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تھا۔پڑھائی کے بعد فوری طور پر نوکری حاصل کرنا میری ضرورت تھی لہذا ممبئی آیا اور جو کام بھی ملا اسے کرنے لگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *