
بارامتی کے لاٹ صاحب شرد چند را گووند رائو پوار
دانش ریاض

پونے سے شمال مشرق کی طرف اگر آپ سفر کا آغاز کریں تو 100کلو میٹر کی دوری پر بارامتی آئے گا جہاں این سی پی سپریمو شرد چند را گووند رائو پوار نے 12دسمبر 1940کو اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔اسٹیٹ ٹرانسپورٹ بس کی بالکل آخری نشست پر بیٹھتے ہوئے میں اس خوف سے ہلکان ہوا جارہا تھا کہ نہ جانے راستے میں کتنے ہچکولے کھانے پڑیں لیکن میرے قریب ہی بیٹھے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے لکچرار مسٹر سنیل اس قدر مطمئن تھے کہ گو وہ شاہی سواری پر سفر کر رہے ہوں ۔بالآخر انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’آپ پریشان نہ ہوں آپ بارامتی جا رہے ہیں،یہاں کی سڑکیں بالکل درست ہیں ۔دوگھنٹے کے اندر ہی آپ کا سفر ختم ہوجائے گا‘‘۔اور ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی ۔جب ہم بارامتی میں داخل ہوئے تو نہ ہمیں قد آدم ہورڈنگس نظر آئے اور نہ ہی مبارک و سلامت کا کوئی پوسٹر یا بینر ہی دکھائی دیا، جبکہ انتخابی نتائج کے بعد پورے مہاراشٹر میں اس کی باڑھ سی آئی ہوئی تھی۔لیکن جس کسی سے بھی شرد پورا کے متعلق گفتگو کرنے کی کوشش کی تو اس کا لب و لہجہ اس بات کی چغلی ضرور کھانے لگا کہ وہ کہیں نہ کہیں ’’پوارخاندان‘‘کے احسانوں تلے دبا ہوا ہے۔
دراصل شرد پوار نے اپنے حلقہ انتخاب میں جس چیز کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی ہے وہ’’ تحفظ و استحکام‘‘Security and Estabilityہے لہذا کسانوں کے لئے انہوں نے جہاںAgriculture Trustقائم کیا وہیں عام مزدوروں کے لئے Sugar Industries کی بنیاد ڈالی ۔عام افراد تک دودھ پہنچانے کے لئے دودھ سنگھ بنایا۔گائوں اور اس کے مضافات میں بسے لوگوںکو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے Education Landمختص کیا ۔سماجی و معاشرتی حالات کو بہتر بنانے کے لئے Social and Culturel Trustبناکر لوگوں کو تفریح کا سامان فراہم کیاجبکہ سیاسی طور پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے مختلف تنظیموں کی بنیاد ڈالی جو مختلف سیاسی معاملات میں پیش پیش رہا کرتی ہیں۔دراصل سیاسی،سماجی،ثقافتی،زراعتی،صنعتی،اور تعلیمی ترقی کے لئے کئے گئے کاموں نے ہی سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ انہوں نے ملک کی ترقی کے لئے بھی Baramati Patternاختیار کرنے کی اپیل کر ڈالی۔
ماضی میں سیاسی حریف رہنے والے کرن بھجبل گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’بارامتی کو عالمی نقشے پر متعارف کرانے میں شرد پوار کے خاندان نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔1967میں پہلی مرتبہ 18ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد شرد پوار ترقی کے منازل طے کرتے گئے جبکہ علاقے کے لوگوں نے بھی انہیں بھر پور تعاون دیا۔یہی وجہ ہے کہ اب جب انتخابات آتے ہیں تو تشہیری مہم کے لئے بھی کبھی انہیں آنا نہیں پڑتا بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ دوسرے کاموں میں لگے رہتے ہیںاور علاقے کے لوگ انہیں کامیاب بناکر بھیجتے ہیں‘‘۔
کرن بھجبل ماضی کو کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں’’اس علاقے میں پوار اور کاکڑے خاندان ہی مد مقابل ہے ۔بابا لال جی کاکڑے 1965میں شرد پوار کے خلاف کھڑے ہوئے تھے لیکن پوار کی عوامی مقبولیت نے انہیں پچھاڑ دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پوار جی نے ابتداء میں ہی جن عوامی پروگرام کا آغاز کیا تھا اس کی وجہ سے وہ ہر ایک کے محبوب ہوگئے تھے ۔1967میں ہی آسٹریلین مشن کی مدد سے انہوں نے Perculation Tankبنوایا اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ہی کسانوں کو راحت پہنچائی‘‘۔کرن کے مطابق’’ایک سو دس گائوں پر مشتمل بارامتی حلقہ انتخاب میں یوں تو مراٹھوں کی تعداد صرف 40%ہے لیکن دنگر،شیتکر،مالی،او بی سی ،گجراتی اور مسلم سماج کے کل ملا کر% 60 افراد بھی انہیں ہی اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ شرد پوار نے مقامی طور پر لوگوں کو خود مختار بناکر جس طرح ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے اس کی وجہ سے بھی ایک بڑی آبادی خوش نظر آتی ہے۔1972میں قائم ہوئے 200ایکڑ پر مشتمل Vidya Partisthanکے منتظم کار ستیش ٹاورے کہتے ہیں’’پوار صاحب کسی بھی کام کا ذاتی طور پر کریڈٹ نہیں لیتے بلکہ اس کے لئے وہ عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔یہ میری تیسری پیڑھی ہے جو ان کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔دراصل یہاں تعلیم اور روزگار کے بھرپور مواقع فراہم کئے جاتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ہر آدمی پوار صاحب کے خاندان پر جان نچھاور کرتا ہےـ‘‘۔
ؓBaramati Agriculture Collageمیں شعبہ ماحولیات کے HODڈاکٹر مہیش گائیکواڑ کہتے ہیں ’’ہم محض شرد پوار سے محبت نہیں کرتے بلکہ ہم ان کے کاموں سے محبت کرتے ہیں ۔انہوں نے لوگوں کی بھلائی کے لئے اتنا کچھ کر دیاہے کہ ان سے عقیدت و محبت ہمارا فرض بنتا ہے۔‘‘البتہ Vidya Pratisthan Collage of Engenearingکے ڈائرکٹر ڈاکٹرامل گوجے کہتے ہیں’’شرد پوار نے تو صرف بیج بویا ہے اس کا پھل تو کوئی اور کھائے گا ۔دراصل یہاں کے لوگوں نے ان ہدایات کو اسی طرح قبول کیا ہے جس طرح ان کی رہنمائی کی گئی ہے ،ورنہ ودربھ میں جو کبھی کاٹن کی وجہ سے مشہور تھا آج اکال پڑا ہوا ہے ،وہاں کے لوگوں نے ویسی محنت نہیں کی جس قدر یہاں کے لوگوں نے کی ہے،پوار ترقیاتی کاموں کے کرتے وقت صرف ایک ہی بات کہتے ہیں ’’آم کھائو گٹھلیوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز مت کرو‘‘امُل کے مطابق’’پوار نے لوگوں کو آگے بڑھنے کے طریقے سکھائے ہیں اور ہر آدمی کو ترقی کے بہتر مواقع فراہم کئے ہیں اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ کون اس سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے‘‘۔
بجلی اور پانی کی بہتر فراہمی کے ساتھ چاروں طرف سے گھرے ہرے بھرے بارامتی کو دیکھ کر یقینا آدمی شرد پورا کے حق میں رطب اللسان ہوجاتا ہے اور ان کا مخالف بھی سر اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا البتہ آپ جیسے ہی ان کی حد بندیوں سے باہر نکلیں ان پر تنقید کرنے والوں کی باڑھ سی آجائے گی۔بارامتی سے تھوڑی دوری پر واقع (Lodga)لودگا میں 200ایکڑ زمین پر ٹیکنیکل کالج تعمیر کرنے والے پاشا پٹیل کہتے ہیں’’پوار صاحب 4مرتبہ وزیر اعلی رہے پھر مرکز میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اس کا بھر پور فائدہ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب کو دیا ہے آج اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن مسائل کا انبار ہے جو میرے سامنے کھڑا ہے‘‘۔
دراصل شرد پوار نے Baramati Patternکے ذریعہ اپنے حلقہ انتخاب کو تو خوب سے خوب تر بنا دیا ہے لیکن ان کے حلقہ انتخاب کے باہر کے علاقے آج بھی ان بنیادی مسائل کا رونا رو رہے ہیں جس سے عام کسان جوجھ رہاہے ۔ودربھ میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات ہوں یا پھر بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو صنعت کی تباہی کا معاملہ ہو ،شرد پوار کو ان کی کوئی فکر نہیں ہوتی لیکن اگر ان کے حلقہ انتخاب کا کوئی شخص اپنے مسائل لے کر ممبئی چلاجائے تو اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ کیا مقامی طور پر تمہارے مسائل کو حل نہیں کئے گئے ؟
بارامتی سے واپسی کے وقت آئی آئی ایم آر سی کے لکچرر مسٹر سنیل کی یہ بات مجھے بار بار یاد آنے لگی کہ ’’سب پسیے کا کھیل ہے ،زمین پر غاصبانہ قبضہ اور عبدالکریم تیلگی معاملے میں ماخوذ ہونے کے باوجود پوار صاحب اپنا دبدبہ قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ،ورنہ ودربھ کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کے کسان ان سے ناراض ہی نظر آئیں گے‘‘۔