
رمضان کیسے گزاریں ؟ (۴)
افطار کی فضیلت
مولانا ندیم الواجدی
تمام دن کی بھوک پیاس کے بعد سورج غروب ہونے پر روزہ دار کو روزہ افطار کرنا ہے، یقینا یہ لمحہ خوشی کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ پابندی ہٹا دی ہے اور اب اس کا روزہ دار بندہ صبح صادق تک کھانے پینے کے لیے آزاد ہے، کیوں کہ روزہ دار نہ اپنی مرضی سے کھانا پینا چھوڑ رہا ہے اور نہ اپنی مرضی سے افطار کرر ہا ہے بلکہ جو کچھ کررہا ہے اللہ کے حکم سے کررہا ہے، اس لیے جس طرح اس نے سحری کے کھانے میں فضیلت وبرکت رکھی ہے اسی طرح افطار میں بھی برکت اور فضیلت رکھ دی ہے، جو کھانا افطار کے وقت کھایا جاتا ہے وہ اتنا مبارک ہے کہ امید ہے اس میں حدیث شریف کے بہ موجب حساب کتاب نہیں ہوگا ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین لوگوں سے ان کے کھانے کے معاملے میں ان شاء اللہ حساب نہیں ہوگا، ایک روزہ افطار کرنے والا، دوسرا سحری کھانے والا ، تیسرے اللہ کے راستے میں پہرا دینے والا (المعجم الکبیر:۱۱/۳۵۹، رقم الحدیث: ۱۲۰۱۲) افطار کے وقت روزہ دار کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے حدیث شریف میں اسے اس خوشی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جو مومن کو قیامت کے روز اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی، حضرت ابوہریرہؓ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملاقات کے وقت‘‘ (صحیح بخاری:۲/۶۷۳ رقم الحدیث: ۱۸۰۵) شارحین حدیث نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روزہ دار کو افطار کے وقت یہ خوشی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ اب کھانے پینے کے لیے آزاد ہوگیا بلکہ اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے ایک روزہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور اسی کے ساتھ اللہ کی نعمتیں جو دن بھر کے لیے حرام کردی گئی تھیں حلال ہوگئیں۔
افطار کے وقت دعا ؤں میں مشغول ہونا چاہئے:
عام طور پر لوگ افطار کے وقت ادھر اُدھر کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں، عورتیں افطار کا سامان تیار کرنے اور اس کو قرینے سے لگانے سجانے میں منہمک نظر آتی ہیں، مرد بازاروں کی چہل پہل میں اضافہ کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اور بچے کھیل کود میں مصروف ہوجاتے ہیں، لیکن یہ وقت بہت اہم ہے اور دعاؤں کی قبولیت کا ہے، یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی قبولیت دعا کا ہے، لیکن اس ماہ کے کچھ مخصوص اوقات ایسے ہیں جن میں رحمت حق اور زیادہ متوجہ ہوتی ہے اور حق تعالیٰ ان خاص اوقات میں مانگی گئی دعائیں اپنے فضل وکرم سے قبول فرما لیتے ہیں،افطار کا وقت بھی کچھ ایسا ہی خاص ہے، متعدد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ افطار کے وقت مانگی جانی والی دُعا رد نہیں کی جاتی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی (مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۲۷۴ رقم الحدیث: ۸۹۰۲) حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ کی روایت میں ہے ’’بلاشبہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ‘‘(بیہقی ،۳/۳۴۵، ) اسی بات کو ان لفظوں میں بھی بیان کیا گیا ہے : افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے (کنز العمال: ۸/۴۴۸)
جب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ افطار کے وقت اللہ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ بار گاہِ حق میں قبولیت سے سرفراز کی جاتی ہیں تو روزہ داروں کو چاہئے کہ وہ لایعنی کاموں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بہ جائے دعاؤں میں مشغول ہوں ضروری کام پہلے انجام دے لئے جائیں خواتین بھی کھانے پکانے سے فارغ ہوجائیں اور بچوں کو بھی ہدایت کریں کہ وہ کچھ وقت کے لیے یک سُو ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں اور دُعا کریں، یہ موقع سال بھر میں صرف تیس دنوں کے لیے ملتا ہے آپ اس وقت ہر طرح کی دعائیں مانگ سکتے ہیں، یہ قبولیت کی گھڑی ہے جو بھی دعا مانگیں اس یقین کے ساتھ مانگیںکہ آپ کی دُعا قبول ضرور ہوگی، مغفرت کی خیرو برکت کی، صحت وتن درستی کی، قرض سے سبک دوشی کی، دین ودنیا کی فلاح کی، ملک میں اور دنیا میں امن وامان کی اپنے لیے ، اپنے والدین کے لیے، اپنے بچوں کے لیے رشتے داروں کے لیے سب کے لئے دعائیں مانگیں، احادیث کی کتابوں میں اس موقع پر مانگی جانے والی دعائیں بھی منقول ہیں، دعاؤں کی کوئی کتاب پاس ہو تو اور بہتر ہے اس طرح کی دعاؤں میں زیادہ خیر وبرکت اور تأثیر ہوتی ہے، مگر اجتماعی دعا نہ کریں کیوں کہ اس مو قع پر اجتماعی دعا منقول نہیں ہیں، بعض جگہوں پر لوگ افطار کے وقت ایک جگہ سمٹ آتے ہیں اور کوئی صاحب بہ آواز بلند دعا شروع کرادیتے ہیں اور یہ سلسلہ افطار کے وقت تک جاری رہتا ہے، یہ غلط ہے روایات سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، ہر شخص اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر دُعا مانگنے میں مشغول رہے۔
افطار کی دعا:
جب افطار کا وقت آجائے تب بھی دل اور زبان یاد خدا سے غافل نہ ہوں اس موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دُعا منقول ہے: اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ (ابوداؤد:۱/۷۱۹، رقم الحدیث: ۲۳۵۸) ’’اے اللہ میں نے تیرے ہی لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا‘‘ بعض کتابوں میں وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ کا بھی اضافہ ملتا ہے، یہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں، اگرچہ ان کا مفہوم صحیح ہے، مگر جب ایک دعا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ کلمات میں موجود ہے تو اس پر اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہ کرناچاہئے۔ افطار سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھ لینی چاہئے: ذَہَبَ الظَّمأُ وَابْتَلَّتِ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ (ابوداؤد، ۱/۷۱۹، رقم الحدیث: ۲۳۵۷، سنن الدار قطنی: ۱/۷۱۹، رقم الحدیث: ۲۵) ’’پیاس جاتی رہی رگیں تر ہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا ان شاء اللہ تعالیٰ‘‘ اگر عربی زبان کے الفاظ کی ادائیگی میں دشواری ہو تو اردو ترجمہ زبان سے ادا کرلینا چاہئے۔
روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے:
ویسے تو آپ کسی بھی چیز سے روزہ افطار کرسکتے ہیں، جو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے کھائیں، بس اس کا خیال رہے کہ جو کچھ کھائیں وہ جائز اور حلال ہو، مگر کیوں کہ یہ عبادت کاموسم ہے، اس موسم میں ہمیں کوشش یہی کرنی چاہئے کہ ہمارا ہر ہر عمل سنت کے مطابق ہو ، یہاں تک کہ ہم کھانے پینے میں بھی وہی طریقہ اپنائیں جو ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا ہے، روایات میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے سے قبل چند کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے، اگر کھجوریں نہ ہوتیں تو چھوارے تناول فرماتے، چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی سے روزہ افطار فرمالیتے (ترمذی: ۳/۷۹، رقم الحدیث: ۶۹۶) اس سلسلے میں متعدد روایات بھی موجود ہیں ایک روایت میں ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے کھجور سے روزہ افطار کرنا چاہئے، کیوں کہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرے، کیوں کہ پانی پاکیزہ ہوتا ہے‘‘ ( ترمذی: ۳/۴۶ رقم الحدیث: ۶۵۸)