ریلوے تحفظ کے چیف کمشنر نے راجدھانی ایکسپریس حادثہ کا جائزہ لیا

ٹوٹے ٹریک کی مرمت کرنے والے ناراض ’گینگ مین‘ نے گھیرائو کیا

چھپرہ: (یو این بی): گزشتہ 25 جون کی رات بہار کے چھپرہ میں ہوئے راجدھانی ایکسپریس حادثہ کی جانچ شروع ہو چکی ہے اور اس کے تحت ریلوے تحفظ کے چیف کمشنر پی کے واجپئی آج چھپرہ پہنچے۔ یہاں انھوں نے جائے حادثہ کا جائزہ لیا اور سونپور ریل ڈویژن کے ریلوے منیجر اور دیگر اعلیٰ افسران سے واقعہ کی پوری تفصیلات معلوم کی۔ جائے حادثہ کا جائزہ لینے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے پی کے واجپئی نے کہا کہ ’’ہم حادثہ سے متعلق سبھی پہلوئوں پر جانچ کر رہے ہیں۔ ایک مہینے کے اندر جانچ رپورٹ مکمل کر لی جائے گی اور اسی وقت حادثہ کے صحیح اسباب کا پتہ لگ سکے گا۔‘‘ اس حادثہ کے پیچھے نکسلیوں کے شامل ہونے کے سوال پر واجپئی نے کہا کہ ریلوے کی ٹیم دونوں ہی پہلوئوں پر جانچ کر رہی ہے اور فی الحال اس بات کا اعتراف یا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ریلوے تحفظ کے چیف کمشنر جب جائے حادثہ کا جائزہ لے رہے تھے اس وقت عجیب و غریب صورت حال پیدا ہو گئی جب وہاں پر ٹوٹے ٹریک کو ٹھیک کر رہے کئی ’گینگ مین‘ نے ان کا گھیرائو کر دیا۔ گینگ مین کی شکایت تھی کہ گزشتہ تین دنوں سے وہ ٹریک کے مرمت کے کام میں مصروف ہیں لیکن نہ تو انھیں وقت پر کھانا دیا جاتا ہے اور نہ ہی پینے کے پانی کا انتظام کیا گیا ہے۔ وہاں موجود حفاظتی عملہ کی مدد سے ریلوے افسران تو کسی طرح گینگ مین کے گھیرائو سے آزاد ہو گئے لیکن بعد میں سبھی مشتعل گینگ مین نے وہاں سے گزر رہی سابرمتی ایکسپریس اور ایک مال گاڑی کو روک دیا جس کی وجہ سے اس روٹ پر تقریباً 2 گھنٹوں تک ٹرین کی آمد و رفت متاثر رہی۔
جب مسٹر واجپئی جائے حادثہ کا معائنہ کر رہے تھے تو ریلوے کی ایک بڑی لاپروائی لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکی۔ جس ٹریک پر راجدھانی ایکسپریس حادثہ زدہ ہوئی تھی ٹھیک اس کے بغل والے ٹریک کا سلیپر اس دن بھی ٹوٹا ہوا دیکھا گیا تھا جب حادثہ ہوا تھا اور آج بھی یہی صورتحال تھی۔ ریلوے نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی نوٹس نہیں لیا اور بے توجہی اختیار کی۔ حیرت تو یہ ہے کہ حادثہ کا جائزہ لینے پہنچے ریلوے تحفظ کے چیف کمشنر کی بھی نظر اس سلیپر پر نہیں گئی۔ ریلوے کے ایک ملازم سے جب اس سلسلے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ٹوٹے ہوئے سلیپر کی وجہ سے کبھی بھی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *