
زکوۃ و صدقات کی بہتر تقسیم کے لئے ’’زکوۃ مانیٹرنگ سوسائٹی‘‘ قائم کی جائے
بڑے شہروں میں جعلی سفراء سے نجات کے لئے مذکورہ اقدام معین و مددگار ثابت ہوگا
ممبئی:رمضان المبارک سایہ فگن ہے ۔عالم اسلام عبادت و ریاضت میں مشغول ہے ۔لوگ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی پلاننگ کر رہے ہیں وہیں ایک طبقہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ کئے جانے والے صدقہ و زکوۃ کو اپنی جھولی میں بھرنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق گذشتہ برس ماہ رمضان میں جھوٹے اور بوگس چندہ خوروں کی بڑی تعداد پکڑی گئی تھی جو مختلف مدرسوں ،اداروں اور مراکز کے نام پرچندہ وصول کر رہی تھی۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے معیشت میڈیا کے ذمہ دار دانش ریاض نے پریس اعلامیہ میں کہا کہ ’’مسلمانوں کے اصحاب فکر و نظر کو چاہئے کہ وہ ’’زکوۃ مانیٹرنگ سوسائٹی‘‘قائم کریں جو جعلی اور محض چندہ وصولنے والوں پرنظر رکھ سکے۔‘‘دانش ریاض کے مطابق’’ہندوستان میں فی الحال جو نظام رائج ہے وہ یہ ہے کہ مختلف مدارس ،تنظیموں ،ادروں کے ذمہ دار تصدیق نامہ جاری کرتے ہیں جس کے ذریعہ سفراء دور دراز کے علاقوں میں جاکر چندہ وصول کرتے ہیں۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سماج دشمن عناصرکسی بھی نام سے جعلی سرٹیفکیٹ بنا لیتے ہیں اور چندہ کرنے یا کروانے لگتے ہیں ۔ایسے میں لوگوں کے زکوۃ و صدقات تو ادا ہوجاتے ہیں لیکن وہ مستحقین تک نہیں پہنچ پاتے لہذا ضروری ہے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو ان امور کی نگرانی کر سکے‘‘۔
دانش ریاض کے مطابق’’ہندوستان میں ہلال سرٹیفکیشن کا عمل شروع ہے اور بیشتر بڑی کمپنیاں اپنے آئوٹ لیٹ میں اسے نمایاں جگہ لگائے رکھی ہیں جسے بھی حلال سرٹیفکیٹ دیکھنا ہو کہ وہ کس نے جاری کیا ہے وہ فوری طور پر دیکھ سکتا ہے۔لہذا سرٹیفکیشن کا ایک مرکزی ادارہ قائم ہو جو صرف سفراءکی جانچ پڑتال کے بعد اسے سرٹیفکیٹ ادا کرے تو مسائل میں کسی حد تک بہتری لائی جاسکتی ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’موجودہ دور میں انٹر نیٹ کی سہولت ہر جگہ موجود ہے جبکہ زیادہ تر افراد انڈرائڈ فون کا استعمال کرتے ہیں اگر ایک سسٹم بن جائے اور سفراء کی لسٹنگ ہوجائے تو جائز حقداروں تک حق بھی پہنچ جائے گا اور اس سلسلے میں جو بدعنوانی ہو رہی ہے اس پر قابو بھی پایا جاسکے گا۔‘‘
واضح رہے کہ ہندوستان میں کئی ہزار کروڑ روپئے کی زکوۃ صرف ماہ رمضان میں تقسیم ہوتی ہے ۔ممبئی،دہلی،بنگلور،حیدر آباد،کولکاتہ،چنئی ،احمد آبادجیسے بڑے متمول شہروں میں سفراء کی بڑی تعداد گھومتی ہے جن میں بعض تو مختلف مدارس ،و مکاتب کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن بعض صرف پیشہ ور چندہ خور ہوتے ہیں جو مختلف اداروں کے نام سے رسیدیں تیار رکھتے ہیں اور بھولی بھالی مسلم قوم انہیں صرف شکل و شباہت پر خطیر رقم دے دیتی ہے جس سے نہ صرف مستحقین کا حق مارا جاتا ہے بلکہ سماج میں ناپسندیدہ عناصر کے حوصلے بھی بڑھ جاتے ہیں۔
دانش ریاض کے مطابق’’مختلف مدارس جو تصدیق نامہ جاری کرتے ہیں وہ ٹیکنالوجی کے دور میں بہتر نہیں ہے لہذا سفراء کی لسٹنگ کے بعد اگر سرٹیفکیٹ جاری ہو جسے کوئی بھی مقامی طور پر چیک کرسکے تو یہ نظام بڑے اداروں کے لئے بھی بہتری کا باعث بنے گا۔‘‘