
مسلمانوں کو ریزرویشن ایک سراب

مرزاعبدالقیوم ندوی *
قومی ترجمان آل انڈیامسلم او بی سی آرگناائزیشن
ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
جب جب بھی الیکشن آتے ہیں ،سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کی فکر ستانے لگتی ہے ،خصوصاکانگریس کچھ زیادہ ہی مہربان ہونے لگتی ہے۔شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ؎
یہ اچانک سی مروت یہ دفعتاََ سی دوستی سب ضرورت کے تماشے سب غرض کے اشتہار
مسلمانوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے ،ان کا حافظہ بہت کمزورہے۔حسن کمال کا لکھا ہوا فلم نکاح کا گیت ، یاد آرہاہے،’’ہم بھول گئے رے ہر بات ،مگر تیرا پیار نہیں بھولے ‘‘کانگریس سے مسلمانوںکاتعلق ’’چولی دامن‘‘کاہے ۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے ،وہ سب اس کی محبت میںبھولتے رہتے ہیں۔خیر ہم بات کررہے ہیں حکومت مہاراشٹر کے اس اعلان کی’مسلمانوںکو ریاست میں 05%ریزرویشن دیا جائے گا۔اس اعلان کے ختم ہونے سے پہلے ہی مسلم محلوں اور لیڈروں کے گھروں کے سامنے آتش باز یاں شروع ہوگئیں تھی،تادم تحریر یہ سلسلہ جاری ہے،اخبارات میں گلی کے لیڈر سے لیکر دلی تک کے لیڈروں کے بیانات اورحکومت مہارشٹر کو مبارک بادیوں کی خبریں چھائی ہوئی ہیں۔؎
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ ، دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبادیکھ
مراہٹوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی ریزرویشن دیا گیا ،اس پر ریاست مہاراشٹر کے حزب مخالف لیڈرایکناتھ کھڑسے نے کیا خوب بات کہی ’’مراہٹوں کے ریزرویشن میںمسلمانو ںکا ریزرویشن ٹھوس دیاگیا،دوسرے کئی ہندولیڈروں اور کٹر ہندوتنظیموں کے بیانات بھی شائع ہوئے کہ ’’ہم مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دینے دیں گے ‘‘ان کی باتوںمیں د م ہے،وہ اس طرح کہ قانون اعتبارسے مسلمانوں کو دیئے گئے ریزرویشن کی کوئی حیثیت نہیں ۔یہ بات صحیح ہے کہ ریاستوں کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں،چنانچہ حکومت مہاراشٹر نے دفعہ 15/4اور 16/4کے تحت اس ریزرویشن کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ قانون یہ ہے کہ ملک میں 50%سے زیادہ ریزرویشن نہیںدیاجاسکتا ،یہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے۔مہاراشٹر میں پہلے ہی سے 52%ریزرویشن نافذہے ،اب یہ73% ہوگیا اور قوی امکان ہے ،یہ سپریم کورٹ میں رد ہوجائے گا۔
مسلم ریزرویشن کی بنیاد تین ستونوں پر قائم ہے ، مہاراشٹر کے وزیر اعلی نے کہا کہ ہم نے مسلمانوں کو ریزرویشن ،رنگاتھن مشرا کمیشن ،جسٹس راجندر سچر کمیٹی اور محمود الرحمن کمیٹی ،ان تینوں کی سفارشات کی بنیاد پر دیا ہے ۔یہ ستون نہایت ہی کمزور ہے ۔ ہمارے بھائی لوگ بھی خوش فہمی مبتلا ہیں کہ ان تینوں کی سفارشات کے بعد تو مسلمانوں کو ریزرویشن ملنا ہی چائیے۔ ان تینوں کی سفارشات کاہم ذر اتجزیہ کرتے ہیں۔سب سے پہلی بات جو دھیا ن میں رکھنی ہے وہ یہ کہ ان تینوں کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ہمارے لیڈروںکوتو جانے دیجئے بہت سارے لکھے پڑھے مسلم بھائیوںکو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ،بھارت میںکمیٹی اور کمیشن کی سفارشات کی حیثیت کیا ہوتی ہے۔کانگریس نے 2004نے اپنے اعلامیہ میں کہا تھا ہم الیکشن جیتنے کے بعد مسلمانو ں کو ریزرویشن دیں گے۔ جس کے لیے انہوںنے جسٹس راجندرسچر کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔دس سال تک اقتدار میںرہنے کے باوجود مسلمانوں کو کیا دیا؟دس سالوں تک انہیںمسلمانوں کے مسائل کی یا دکیوں نہیںآئی۔ادھرمہاراشٹر میں کانگریس بھی 15سال سے اقتدار میں ہے ۔ان سالوں میں کیوںکوئی ٹھوس فیصلہ مسلمانوں کے بارے میںنہیں کیا گیا،جبکہ مسلمان پورے تن من دھن سے کانگریس کے ساتھ رہے ہیں ،کانگریس نے سوائے وعدوںکے مسلمانوں کیادیا۔؟رنگاناتھن مشرا نے اقلیتوں کے لیے 15%ریزرویشن کی سفارش کی تھی۔کانگریس نے مشرا کی سفارشات کو کیوں نہیںروبعمل لایا۔
ہم بات کررہے ہیں،تین ستونوں کی جس پرسارے ریزرویشن کی بنیاد کھڑی ہے۔(۱)جسٹس رنگاناتھن مشرا کمیشن حکومت نے قائم کیا،جسٹس مشرا صاحب نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے مسلمانوں کے تمام مسائل کواپنی رپورٹ میںپیش کیا،( طوالت کی بناپر یہاںاس کی تفصیلات نہیں دی جارہی ہے) مگرواہ رے کانگریس!! دس سال میںمشرا کمیشن کی رپورٹ کو پارلیامنٹ میںبحث کے لیے تک نہیںرکھا۔جبکہ آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن کے روح رواں شبیر احمد انصاری نے ہرسال دہلی میں تمام مسلم ممبر ان پارلیامنٹ کو جمع کرکے اور مشرا کمیشن کی سفارشات کو اردو ،ہندی میںترجمہ کرکے ان ممبران کودیا ،انہوں نے وزیر اعظم اور سونیا گاندھی کوہر سال مشرا کمیشن کی سفارشات کو پارلیامنٹ میںبحث میںلانے کے کہا ،مگر ایسا نہیںہوا،دس سال تک کانگریس مسلمانوں کو بے وقوف بناتی رہی ۔قانونی اعتبار سے جب تک کمیشن کی رپورٹ پرپارلیامنٹ میں بحث نہیںہوتی اس وقت تک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔چنانچہ آج جسٹس رنگاناتھن مشرا کمیشن کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیںرہی(ہاںاگر اس کو ا ب بھی پارلیامنٹ میںبحث کے لیے رکھا جاتاہے تو اس کی حیثیت رہے گی۔مگر ا ب بی جے پی ْحکومت سے یہ توقع رکھنا عبث ہے)یہ ایک ستون تھا جس کا حال ہم نے آپ کے سامنے بیان کیا ۔(۲)ہم بات کرتے ہیں جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی ،یادر ہے کہ کمیٹی صرف سفارشات پیش کرسکتی ہے اور سفارشات کو ماننا کوئی ضروری نہیںہے،نہ یہ رپورٹ پارلیامنٹ میں پیش کی گئی اور نہ اس پر پارلیامنٹ میں کوئی بحث ہوئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وزیر اعلظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی تھی،اس میں سابقہ چیف جسٹس بھی تھے اور آئی پی ایس آفسران بھی تھے مگر اس پر بھی بحث نہیں ہوئی ۔ (۳) محمود الرحمن کمیٹی تو مسلمانوں کے ساتھ بھونڈا مذاق تھا ۔یہ ملک میں قائم ہوئیں تمام کمیٹیوںمیں سے سب سے ہٹ کر کمیٹی تھی جس کے دفتر کا آج تک پتہ نہیںچل سکا ،یہ بھی سناگیا کہ جو گاڑی کمیٹی کے چیئر مین کو دی گئی تھی اس کا کرایہ بھی کئی دنوں تک ادانہیںکیاگیا۔کوئی بھی کمیٹی جب بنائی جاتی ہے تو اس کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ تمام مسائل پر غور خوض کرے،جس سماج یا برادری کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا ہے ، لوگوں سے جاکر ملاقات کرے،شہروں میں جاکر وہاں کی این جی اوز ،فلاحی ،سماجی تنظیموں سے رابطہ قائم کرکے ان سے مسائل طلب کریں ،ان سے مسائل معلوم کرے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔چنانچہ جب کورٹ میں ان کمیٹیوں کی سفارشات کو بنیاد بنایاجائے گاتو ان کی کوئی بھی قانونی حیثیت نہیں ہوگی،رہی سفارشات کی تو قبول کر نا یا نہیں کرنا یہ کورٹ کا اپنا اختیار ہوگا۔
مسلمانوں کا یہ کہنا کہ کچھ نہیں سے کچھ تو سہی :اس بات میں کوئی دم نہیں،ارے بھائی کچھ بھی نہیں ملنے والاہے۔جب کورٹ کی پہلی ہی پیشی میںخارج ہوجائے گا تو کہاں کچھ ملنے والا ہے۔ٹھیک یہ مان لیتے ہیں کہ حکومت اس کو اور اچھی طرح پوری تیاری کے ساتھ پیش کرے گی ۔کانگریس کے پاس دن کتنے رہ گئے ہیں ،کل ملا کر 60دن کی حکومت ہے ،اس میں ان کو فیصلہ کرنا ہے ۔اب کوئی سیشن بھی نہیں چلنے والا کہ اس پر بحث ہوسکے ۔ریاستی پسماندہ طبقات کمیشن کو بھی اپنی رپورٹ دینا باقی ہے۔اس کے لیے بھی مدت درکار ہو گی ۔
مراہٹہ کو بھی ریزرویشن نہیں ملنے والا :مراہٹہ سماج کو بھی بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیںہے،کیونکہ جن مسائل کا سامنا مسلمانوں کو ہے ان ہی مسائل کا سامنا مراہٹوں کو بھی ہے۔مسلمانوں کے لیے تو سچر کمیٹی بنائی گئی تھی جس کوپارلیامنٹ کے خصوصی اختیار ات حاصل تھے ،اسی طرح جسٹس رنگاناتھن مشرا کمیشن بھی بنایا گیا تھا ،جس کی بھی قانونی حیثیت ہے ،اسی طرح محمود الرحمن کمیٹی بھی بنائی گئی جو کہ آئی اے ایس آفسر ہیں ۔ لیکن مراہٹہ کو صرف نارائن رانے کی ماتحتی میں ایک کمیٹی بنا دی گئی ، جبکہ اس کمیٹی نے پورے مہاراشٹرکا دورہ کیا ،لاکھوں لوگوں سے ملاقات کی ،ان سے ان کے مسائل دریافت کیے ،مراہٹوں کی سیاسی ،سماجی ،فلاحی تنظیموں میں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مہاراشٹر میں مرہٹوں کی صورتحال سے ہر میٹنگ میںکمیٹی کو آگاہ کیا۔ان سب کے باوجود اس کمیٹی کو کوئی قانونی درجہ حاصل نہیں تھا ۔وہ اس لیے کہ کمیٹی کا چیئر مین کسی سیاسی پارٹی کا رہنما اور موجودہ حکومت میںوزیر بھی ہے،دوسرے جس سماج کے معاشی ،تعلیمی ،سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ان کو چئیرمین بنایاگیا ہے ان کا تعلق بھی اسی سماج سے ہے ۔ اس لیے ان کی سفارشات بہت زیادہ کور ٹ میں دم مارنے والی نہیںہے ۔قانون کے حسا ب سے اس طرح کی رپورٹیں پیش کرنے کے لیے جو کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ان میں کسی ریٹائرڈ جج یا آئی ا ے ایس آفسر کا ہونا لازمی ہوتاہے ،اس کو ریاستی پسماندہ طبقاتی کمیشن کی منظوری بھی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ہی اس رپورٹ کو بحث کے لیے ایوان میں رکھا جاتاہے ۔ مذکورہ بالا باتوں میں سے نارائن رانے کمیٹی کے معاملہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔اس لیے یہ ریزرویشن بھی بہت دیر دم نہیں مار پائے گا۔
مراہٹہ ریزرویشن کے خلاف ہائی کورٹ میںجورئیٹپشین داخل کی گئی ہے اورجودلائل دیئے گئے ہیں اس سے تو لگتاہے کہ مراہٹوں کو ریزرویشن ملنا مشکل ہی ہوگا۔ممبئی کے ایک صحافی کیتن تیروڈ کر نے عدالت کے علم میں یہ باتیں لائی ہیںکہ۔(۱)موجودہ اور سابقہ وزیر اعلی میں99%مراہٹہ سماج سے تھے۔ (۲)اس سماج کے ڈی وی پاٹل ،پتنگ راؤ کدم انہوںنے تعلیم کے نام پرحکومت سے ہزاروں ایکڑ زمینات حاصل کی ہیں۔(۳) ریاست کے جملہ شوگر فیکٹریوںمیں سے 85%کے مالکانہ حقوق یاتصرف مراہٹہ سما ج کے پاس ہے۔(۴)ریاست کی جملہ ارضیات میںسے 75%مراہٹوں کے پاس ہے۔ (۵)ریاستی اسمبلی میں ابھی تک کے 2000ممبران اسمبلی میںسے تقریباََ1200ممبران مراہٹہ سماج سے تھے۔(۶)پسماندہ یاپھردیگر پسماندہ کے ریزرویشن میںسے ایک بھی ریزرویشن زبان کی بنیادپر نہیں ہے۔(۷)مراہٹہ یہ پسماندہ ذات ہے کہنا مطلب اس سماج میں پیداہوئے بڑے آدمیوں کی توہین کرنا ہے۔(۸)اس برادری کو پسماندہ کہنا مطلب بھارت کے شہریوں کو دھوکہ دینا ہے ،اس کے ساتھ ہی دستور کی بھی خلاف ورزی ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ اگر مراہٹوںکا ریزرویشن ختم ہوا تو مسلمانوں کا خود بخود ختم ہوجائے گا۔ مراہٹہ بھی یہ چائیں گے کہ ہمارا ریزرویشن ختم نہ ہو اور مسلمانوںکو بھی ملے۔
مسلمانوں کو ریزرویشن !!!یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیا گیا ہے۔بظاہرایسا باور کرایا جاتا ہے کہ ملک میں مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں دیا جاتاہے ۔جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ،ایک مثال دیتا ہوں ،ہندو قصائی (کھاٹک ) کو ایس ٹی کا درجہ حاصل ہے ،جبکہ مسلم قصائی کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے،دوسری طرف کوئی شیڈول کاسٹ کا فرد مذہب تبدیل کرتا ہے ،مثال کے طورپرمسلمان بنتا ہے تو اس سے وہ سہولت چھین لی جاتی ہے۔ا گر وہی شخص بدھ مت قبول کرتا ہے تو اس کو تمام سہولتیں حاصل رہتی ہیں۔
آل انڈیامسلم او بی سی آرگنائزیشن کے قائد شبیر احمدانصاری ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس ملک میںمسلمانوں کو مذہب کے نام پرریزرویشن نہیںمل سکتا ۔اگر لیناہی ہے تو اس کے لیے دستورمیںترمیم یا اضافہ کرناہوگا۔اور یہ ممکن نہیں،کیونکہ وہ پارٹی جس مسلمانوںکے بل بوتے پراقتدارکامزہ چکھتی رہی ہے،اس نے پارلیامنٹ کے دونوںمیںایوانو ںمیںاکثریت حاصل ہوتے ہوئے بھیمسلمانوں کو ریزرویشن نہیںدیا۔جو باتیں کرنے کی تھی وہ تو نہیںکی،اب جبکہ ریاست مہاراشٹرمیںالیکشن قریب ہے تو مسلمانوں کی فکر ستانے لگی ہے۔ہم پوچھتے ہیںکہ گزشتہ پندرہ سالوں سے آپ کوریزوریشن دینے سے کس نے منع کیا تھا۔
حکومت مہاراشٹرمسلمانوں کو سراسر گمراہ کررہی ہے ،وہ ایک طرف یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے مسلمانوںکو مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیںدیا ہے،بلکہ پسماندگی بنیاد پر دیاہے۔اس کے لیے حکومت نے Creamy Layerکی قید لگائی ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوںمیںایک طبقہ مالدار ہے،ان کوریزرویشن کی سہولت نہیںملنی چائیے ۔creamy layer کی جو بنیادی شر ط لگائی گئی ہے ،اس میںمسلمانوں کو جھوٹے ،حلف نامے دینا پڑیں گے۔ ہر کوئی غریب بننے کی کوشش کریگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،جن برادریوں،خاندانوں ،مسلکوں کو اس میںشامل کیاگیا ہے،کیا حکومت کے پاس اس کی کوئی فہرست ہے،جس طرح کی فہرست یا ریکارڈ ،او بی سی میںشامل برادریوں کا ملتا ہے۔ مثال کے طورپررحمانی،نوری،فقیہ،فراش ،خاکروب ،قاسمی،شطاری وغیرہ وغیرہ۔یہ ایسے القاب ہیں لوگوںنے بعدمیںاپنے ناموں کے آگے لگالیاہے۔ان ناموں کا سرکاری دفاتر ،تعلیمی اسناد میں کوئی ریکارڈنہیںملتا (الاماشاء اللہ ) ان لوگوں کو ریزرویشن کی سہولت حاصل کرنے کے لیے مذکورہ عہد ہ ،القاب کا اضافہ ،اپنے اسناد میںکرنا پڑے گا ،جو کہ بہت مشکل کام ہے،۔آل انڈیا مسلم او بی سی کے ذمہ داران گزشتہ کئی دہائیوں سے کاسٹ سرٹیفکیٹ نکالنے میںمصروف ہیں ،انہیں پتہ ہے کہ اپنی برادری ثابت کرنے کے لیے کتنی تکالیف پیش آتی ہیں۔کل ملاکر یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت کی نیت مسلمانوں کوریزرویشن دینے کی نہیںہے بلکہ اسمبلی انتخابات مد نظر مسلمانوںبہلاناہے اور یہ باور کرانا ہے کہ اب کی بار بھی ہم کو چن کر دو ہم دوبارہ منتخب ہونے کے بعد باقی مانندہ خامیاں دور کریں گے۔!!!
آخری بات: ابھی حکومت کی جانب سے حتمی اعلامیہ آنا باقی ہے،دیکھتے ہیں اس میںحکومت کیا کچھ غل کھلاتی ہے۔ہم پھر یہ بات دہراناچاہیں گے کہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے،اتنی کم مدت میں تمام قانونی تقاضوں کو پرکرنا یہ ممکن نہیں ہے۔اسی لیے ہمیںحکومت کی نیت پرشک ہے کہ وہ مسلمانوں کوہی نہیں بلکہ مراہٹوںکوبھی ریزرویشنن کا لالی پاپ دینا چاہتی ہے