اترپردیش بنا جرائم پردیش`1

منتری محفوظ اور عوام غیر محفوظ
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
Mob:09312976216
یوپی کے ایک منتری کے باغ سے کچھ پولس والوں نے آم توڑ لیا تو ان کے خلاف کارروائی کی گئی اور سب کے سب معطل کردیئے گئے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یوپی میں حکومت اتنی چست ہے کہ ہر معاملے میں ایسا ہی ایکشن لیا جارہا ہے۔ یہ تو خاص لوگوں کی بات ہے عام لوگوں کی حالت تو ایسی ہے کہ ان پر قیامت گذر جاتی ہے تب بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ یہاں صرف ملائم سنگھ یادو کا خاندان اور ان کے منتری محفوظ ہیں باقی لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ کسی کے ٹویٹ کیا ہے کہ یہاں صرف منتری اور ان کی بھینسیں محفوظ ہیں اور باقی کسی کی خیریت نہیں ہے۔ اصل میں یوپی کی صورتحال روز بروز مزید خراب ہوتی جارہی ہے اور کب ،کہاں کیا ہوجائے سمجھ پانا مشکل ہے۔ یہاں منتریوں کی بھینسیں غائب ہوجائیں تو مل جاتی ہیں مگر انسان غائب ہوجائے تو اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ گینگ ریپ کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں اور لوگ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے میں خوف کھا رہے ہیں۔ قتل و خونریزی روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے اپنے منتریوں کے محکمے بدلے ہیں مگر سُپر وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے تمام منتریوں کو بلاکر کہا کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں کسی کا بھی استعفیٰ نہیں لیا جائے گا۔ تھانوں میں پولس افسران کی بحالی کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کی لیاقت کیا ہے اور وہ حالات پر قابو پانے کی کس قدر قابلیت رکھتے ہیں ، بلکہ ان کی ذات برادری دیکھی جاتی ہے اور یادو برادری کے تھانے داروں کو خاص طور پر ترقی دی جاتی ہے۔ ان حالات نے ہی سماج وادی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن میں بدترین حالات سے دوچار کیا ہے مگر سرکار کو اس کے باوجود ہوش نہیں آئے اور اب بھی وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔
لاقانونیت اور جرائم کی آماجگاہ یوپی
اترپردیش میں دس دنوں کے اندر بی جے پی کے تین لیڈروں کا قتل ہوا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کس قدر خطرناک ہوچکے ہیں۔ عام لوگوں کے قتل و خونریزی کی کوئی گنتی نہیں ہے۔ یونہی ریاست میں گینگ ریپ اور قتل کی وارداتیں بھی تزی سے بڑھی ہیں اور ھالات بدتر ہوئے ہیں۔ بدایوں میں دو دلت لڑکیوںکے گینگ ریپ اور قتل کا معاملہ ابھی تازہ ہی تھا کہ یہیں دوسری ایسی ہی واردات سامنے آئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجرم یہاں خود کو کس قدر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور کس قدر بے خوف ہیں۔ اسی بیچ خبر آئی کہ سنبھل میں بھی ایسی ہی ایک واردات ہوئی ہے۔ حالانکہ پوری ریاست میں ایسے جرائم کی کوئی کمی نہیں ایک لمبی فہرست ہے۔ خود ریاست کی راجدھانی لکھنئو میں آئین و قانون کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور عوام خوفزہ ہیں۔ یوپی میں یہ خبر بھی عام ہے کہ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو شام سات بجے تک ہی کام کرتے ہیں اور اس کے بعد انھیں کوئی نہیں پاسکتا۔ وہ وزیر اعلیٰ کی بجائے ایک سرکاری ملازم کی طرح گھڑی کا ٹائم دیکھ کر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ حالانکہ جب یہ بات وزیر اعلیٰ تک پہنچی تو انھوں نے تردید کہ کہ وہ ایسا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے دنوں جب نیپال میں ایک اکسیڈنٹ ہوا تو مرکزی وزارت خارجہ نے ان سے رات کو گیا رہ بجے رابطہ کیا اور انھوں نے وزیر خارجہ سے بات کی۔ حالانکہ عوام کو یہی شکایت ہے کہ وہ سوائے چند اہم لوگوں اور معاملوں کے کسی بھی بارے میں بات نہیں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ اپنے منتریوں کو بھی دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔ کسی وزیر اعلیٰ کا اس قسم کا رویہ ظاہر کرسکتا ہے کہ صوبے میں لاقانونیت اور بد امنی کیوں ہے؟ایک طرف جہاں جنگل راج کا دور دورہ ہے وہیں دوسری طرف مظفر نگر کے فساد زدگان کو راحت کیمپوں سے کھدیڑنے کے لئے حکومت کوشاں ہے اور ان پر بلڈوزر چلوانے کا پروگرام ہے۔ سرکار کا لگتا ہے کہ اس سے اس کی بدنامی ہورہی ہے لہٰذا اب یہاں کے فسادزدہ مسلمان اس کے نشانے پر آگئے ہیں۔ ان خانماں برباد مسلمانوں کو مسجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کہاں جائیں اور کیا کریں؟
مجرم سرکار میں بیٹھے ہیں
ریاست میں بڑھتے جرائم اور ریپ کی وارداتوں کے بیچ ایک خبر یہ آئی کہ راجہ بھیا کے کزن اورسماج وادی پارٹی کے ایم ایل سی اکشے پرتاپ سنگھ عرف گوپال بھیا کو ایک کانگریس لیڈر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ قتل امیٹھی کے علاقے میں ابھی چند دن قبل ہوا تھا۔ جس کانگریس لیڈر کا قتل ہوا تھا اس کا نام مہیندر پرتاپ سنگھ عرف ددن بھیا تھا جو کانگریس کا علاقائی لیڈر تھا اور سابق وزیر جنگ باز بہادر سنگھ کا بیٹا تھا۔اس واردات میں ددّن بھیا کا ایک اور ساتھی بھی مارا گیا تھا۔وزیر خوراک و رسد راجہ بھیا کا نام تو پہلے ہی سے ریاست کے نامی غنڈوں میں تھا مگر ملائم سنگھ یادو کے وہ منظور نظر ہیں لہٰذا انھیں جیل سے نکال کر منتری بن ادی اگیا تھا، اب ان کے کزن کا نام آنا کسی کے لئے بھی حیرن کن بات نہیں ہے۔ اس واقعے سے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں اور عوام کا جینا کیوں دوبھر ہوا ہے۔ اصل میں تمام جرائم کی جڑ تو خود سرکار کے اندر ہی موجود ہے۔ جب مجرموں کو منتری بنایا جائے گا تو جرائم میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔
طاقت کے مراکز
کسی بھی ریاست کے اندر طاقت کے کئی مراکز کا ہونا ہلاکت خیز ہوتا ہے اور اس سے افراتفری پھیلتی ہے۔ یوپی میںجنگل راج کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں اکھلیش یادو کے علاوہ بھی کئی وزراء اعلیٰ کام کر رہے ہیں۔ کہنے کو تو وہ وزیر اعلیٰ ہیں مگر کئی طرف سے احکام آنے کے سبب افسران بھی کنفیوز ڈ رہتے ہیں کہ کس کا فرمان تسلیم کریں اور کس سے انکار کریں؟ خود ملائم سنگھ یادو سب سے بڑے وزیر اعلیٰ ہیں اور انھیں اکھلیش یادو پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ وہ کبھی بھی وزیر اعلیٰ کے احکام کے اوپر اپنا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ وہ اب تک مرکز کی سیاست میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے تھے مگر اب لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد ریاست کی سیاست پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمر زیادہ ہوگئی ہے اور اعصاب جواب دینے لگے ہیں۔ کان سے سن نہیں سکتے اور حالت پر نظر رکھنا ان کے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ وہ اپنے گھر کے اندرونی جھگڑوں کو سلجھانے میں بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور ان کے دوسرے بیٹے پرتیک یادو کی مخالفت ان کے بھائیوں اور رشتہ داروں کی طرف سے ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح کے غیر ضروری تنازعات بھی ان کے لئے وبال جان نبے رہتے ہیں ایسے میں وہ گھر دیکھیں یا سرکار؟
ملائم سنگھ کے گھروالے اور تمام بھائی بھتیجے خود کو وزیر اعلیٰ سمجھتے ہیں اور احکام جاری کرتے رہتے ہیں جو افسروں کے لئے وبال جان بنا رہتا ہے۔ ان میں ایک نام ملائم سنگھ کے چچازاد بھائی اور راجیہ سبھا ممبر رام گوپال یادو کا آتا ہے جو پارٹی کے جنرل سکریٹری بھی ہیں۔ پارٹی ان کی پالیسی پر انحصار کرتی ہے۔ وہ ایک ٹیچر تھے مگر ملائم سنگھ یادو کے اقتدار میں آتے ہی پروفیسر ہوگئے تھے۔
شیوپال یادو ملائم سنگھ کے سگے بھائی ہیں اور وزیر اعلیٰ کے چچا ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ سے زیادہ تجربہ بھی رکھتے ہیں اور پہلے بھی پارٹی و سرکار میں اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں لہٰذا وہ وزیر اعلیٰ کو اپنے سے کمتر مانتے ہیں۔ ان پر خود اکھیلش یادو کا بس نہیں چلتا۔ شیوپال یادو پی ڈبلیو ڈ ی کے منتری ہیں اور دوسرے سات ملائی دار وزارتیں ان کے پاس ہیں۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر اثر و رسوخ والے آدمی ہیں۔ وہ بھی افسروں کو وزیر اعلیٰ کے طور پر احکام جاری کرتے ہیں۔
اعظم خاں کو سماج وادی پارٹی اور اس کی سرکار کا مسلم چہرہ مانا جاتا ہے۔ وہ ملائم سنگھ اور پارٹی کے تئیں بے حد وفادار بھی رہے ہیں۔ جب پارٹی پر امر سنگھ کا قبضہ ہوگی اتھا تب دیگر بہت سے نیتائوں کی طرح وہ بھی پارٹی سے دور ہوگئے تھے مگر کوئی دوسری پارٹی جوئان نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ ملائم سنگھ انھیں کود مناکر پارٹی میں لائے تھے۔ اعظم خان اس وقت یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات ہیں اور موجودہ سرکار میں رعب و دبدبہ رکھتے ہیں۔ ان کے حکم کی خلاف ورزی کرنا کسی بھی افسر کے بس کی بات نہیں اور وہ اسی انداز میں حکم بھی دیتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے اہل خاندان اور چند بارسوخ منتریوں کے علاوہ خود وزیر اعلیٰ کی پرنسپل سکریٹری انیتا سنگھ بھی ایک سپر وزیر اعلیٰ ہیں۔ ۱۹۹۰ء بیچ کی آئی اے ایس افسر انیتا سنگھ ،ملائم سنگھ کی بے حد قریبی ہیں اور ان کے نیز وزیر اعلیٰ کے فیصلوں پر بھی حاوی رہتی ہیں۔ اکھلیش یادو تک پہنچنے والی فائلیں انھیں سے ہوکر جاتی ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی فائل وزیر اعلیٰ تک نہیں پہنچ سکتی۔ وہ خود ان فائلوں کو پڑھتی اور سمجھتی ہیں اس کے بعد اپنے مشورے کے ساتھ آگے بھیجتی ہیں۔ وہ ملائم سنگھ یادو کی طرف سے وزیر اعلیٰ پر نگرانی رکھتی ہیں اور ایک طرح سے انھیں گائیڈ بھی کرتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ جو کچھ کہتے ہیں پہلے اسے انیتا نگھ ہی پاس کرتی ہیں پھر اس کا اعلان وزیر اعلیٰ یا یوپی حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔اس طرح وہ ریاست کی سب سے اہم افسر ہیں نیز باختیار شخصیت بھی جس کا سرکار کے کاموں اور فیصلوں پر اثر رہتا ہے۔
تقریباً آدھ درجن نیتائوں ، منتریوں اور افسروں نیز اپنے اہل خاندان کے لوگوں کے بیچ خود اکھلیش یادو کے لئے بھی فیصلے لینا اور ان پر عمل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس طرح سے طاقت کے مراکز تقسیم ہونے کے سبب ریاست میں بد امنی اور انتشار رہتا ہے۔ جنگل راج رہتا ہے۔(یو این این)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *