رمضان کیسے گزاریں ؟ (۶)
روزہ و افطار: چند اہم باتیں
مولانا ندیم الواجدی
مسجد میں افطار:
حرمین شریفین میں اجتماعی طور پر روزہ افطار کرنے کا معمول ہے، ہمارے شہروں اور قصبوں کی مساجد میں بھی لوگ گھروں سے افطار کا سامان لا کر ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور روزہ افطارکرتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اگر یہ کام اس جذبے سے ہو کہ مسافر یا محلے کے غریب لوگ بھی افطار میں شریک ہوجائیں گے تو باعث اجرو ثواب بھی ہے ان شاء اللہ ، مگر اس عمل سے مساجد کا ادب واحترام اور اس کی نظافت متأثر نہ ہونی چاہئے، عموماً لوگ افطار کرکے گھٹلیاں اور پھلوں کے چھلکے وغیرہ مسجد میں ڈال دیتے ہیں، چاول کے دانے یا روٹی کے ریزے بھی صفوں پر پڑے رہتے ہیں، یہ طریقہ مناسب نہیں ہے، افطار سے فارغ ہونے کے بعد دستر خوان اور برتن وغیرہ سلیقے سے سمیٹ دینے چاہئیں، مسجد کا ادب یہ ہے کہ افطار کے وقت شور شرابہ اور دھینگامشتی نہ ہو، بلکہ خاموشی کے ساتھ کھایا جائے، اور جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پہلے فراغت حاصل کرلی جائے، بعض اوقات نماز شروع ہوجاتی ہے اور لوگ کھانے پینے میں مشغول رہتے ہیں، جب امام رکوع میں چلا جاتا ہے تو اسے دوڑ بھاگ کرپکڑتے ہیں، بہتر یہ ہوگا کہ بیرون مسجد کوئی الگ جگہ کمرہ یا برآمدہ وغیرہ اس کام کے لیے خاص کرلیا جائے۔
مغرب کی نماز میں تاخیر:
مغرب کا وقت بہت مختصر ہوتا ہے، اسی لیے اذان ہوتے ہی نماز شروع کردی جاتی ہے لیکن رمضان میں کھانے پینے کے معمولات تبدیل ہوجاتے ہیں، اگر اذان اور نماز میں تھوڑا بہت فصل نہ ہو تو افطار کرنے کے بعد گھر سے چل کر مسجد تک بر وقت پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اذان کے بعد کچھ انتظار کرلیا جائے لیکن یہ وقفہ مختصر ہونا چاہئے ، اگر زیادہ دیر لگائی گئی تو مکروہ وقت ہوجانے کا اندیشہ ہے نیز اس سے ان نمازیوں کو بھی تکلیف ہوگی جو مختصر افطار کرکے مسجد میں آجاتے ہیں اور نماز سے فراغت کے بعد اطمینان سے کھانے کے عادی ہیں، حضرات مفتیان کرام نے لکھا ہے کہ اذان وجماعت میں اتنا فصل کیا جائے کہ پابند جماعت افطار سے فارغ ہوکر کلی وغیرہ کرلیں اور شروع جماعت سے شریک ہوسکیں، آپس کی مشاورت سے پانچ دس منٹ جیسا مناسب ہو تجویز کرلیں (فتاوی محمودیہ جدید :۱۰/۲۱۲) بہ ہر حال افطار کی وجہ سے نماز میں حسب ضرورت تاخیر بلا کراہت جائز ہے (فتاوی دار العلوم : ۶/۴۵)
روزہ کشائی کی تقریبات:
مسلم معاشرے میں روزہ کشائی کی تقریبات کا چلن دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوا دیتے ہیں اور اس موقع پر بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں ،یہ محض ایک رسم ہے اور اس کے پیچھے نام ونمود کا جذبہ زیادہ کار فرما ہوتا ہے، روزہ عبادت ہے، ابھی بچے اس عبادت کے مکلف نہیں ہیں ،پانچ پانچ چھ چھ سال کے بچوں کو بھوکا پیاسا رکھنا کون سی دانش مندی ہے، پھر اگر یہ کام عبادت سمجھ کر کیا جاتا ہے تو اس میں ڈھنڈورہ پیٹنے کی ضرورت کیا ہے، اس طرح تو پہلی مرتبہ نماز پڑھنے کے موقع پر بھی تقریب نماز ادا ئی کا اہتمام کرنا چاہئے، پھر ان تقریبات میں لغویات زیادہ ہوتی ہیں، فوٹو گرافی اور بے پردگی تو عام بات ہے، نماز باجماعت تو چھوڑئے نماز تک کا خیال نہیں آتا، فضول خرچی الگ ہے، اگر یہ رقم غریبوں کو دے دی جائے تو ان کے کام آجائے، ثواب بھی ہوگا اور غریبوں کا رمضان بھی اچھا گزرے گا، یوں بھی رمضان کے لیل ونہار عبادت کے لیے ہیں نہ کہ دعوتیں اڑانے کے لیے۔
روزہ افطار کرانا:
البتہ بہ نیت ثواب کچھ روزہ دار وں کو افطار پر مدعو کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ عین ثواب ہے، اس میں امیر غریب کی بھی کوئی تخصیص نہیں حدیث شریف میں ہے کہ روزہ افطار کرانے پر اللہ تعالیٰ تین انعام عطا فرماتے ہیں (۱) گناہوں کی مغفرت (۲) دوزخ کی آگ سے نجات (۳) روزہ دار کے برابر ثواب۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ افطار میں پیٹ بھرکر کھانا کھلایا جائے بلکہ ایک چھوارے، کھجور یا دودھ کی کچھ لسّی یا پانی کے ایک گھونٹ کا بھی اتنا ہی اجر ہے (صحیح ابن خزیمہ بحوالہ ترغیب والترہیب :۲/۹۲) بعض لوگ کسی کے یہاں اس لیے افطار نہیں کرتے کہ اس طرح ان کا اجر وثواب کم ہوجائے گا، یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے روزہ دار کا ثواب اپنی جگہ ہے ، البتہ روزہ افطار کرانے والے کو روزہ دار کا ثواب کم کئے بغیر اس کے روزے کا اجر عطا کیا جائے گا، جیسا کہ حضرت زید بن خالد الجہنی ؓ کی روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر ہے لیکن روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی(ترمذی: ۳/۱۷۱، رقم الحدیث: ۸۰۷،ابن ماجہ: ۱/۵۵۵، رقم الحدیث: ۱۷۴۶) لیکن شرط یہ ہے کہ حلال کھانے سے افطار کرایا جائے، کسی کو حرام کھلانا بڑے گناہ کی بات ہے خاص طور پر روزہ دار کو حرام کھانا کھلانا تو بہت ہی بڑا گناہ ہے، حضرت سلمان الفارسیؓ کی روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی روزہ دار کو حلال کھانے سے افطار کرائے تو رمضان کی ساعتوں میں فرشتے اس شخص پر رحمت بھیجتے ہیں اور شب قدر میں خود حضرت جبرئیل امینؑ اس پر رحمت بھیجتے ہیں (کنز العمال: ۸/۴۹۸ رقم الحدیث: ۲۳۶۵۸)
افطار پارٹیاں:
اب افطار پارٹیاں بھی دی جانے لگی ہیں، خاص طور پر سیاست اور حکومت کے شعبے سے وابستہ لوگوں میں ان پارٹیوں کا بڑا چلن ہے، ایسی پارٹیوں میں بڑی گہما گہمی رہتی ہے، شریک ہونے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں روزہ نماز سے دور کابھی واسطہ نہیں ہوتا، یہ پارٹیاں روزے کی روح کے خلاف ہیں، روزہ ایک عبادت ہے کوئی نمائشی چیز نہیں ہے کہ اس کے نام پر سیاسی روٹیاں سینکی جائیں، جو لوگ اس طرح کی تقریبات کو باہمی اتحاد اور یگانگت کا حصہ سمجھتے ہیں وہ بتلائیں کہ گذشتہ ساٹھ سالوں سے یہ پارٹیاں دی جارہی ہیں کیا ملک میں اتحاد کی فضا بنی؟ مسلمان جذباتی قوم ہیں، اس طرح کی تقریبات سے بہل جاتے ہیں، ہماری رائے یہ ہے کہ ان افطار پارٹیوں میں جاکر اپنے روزے کی روحانی کیفیت کو قربان نہ کیا جائے۔
افطار سے متعلق کچھ اور باتیں:
افطار کاوقت بڑے صبر وتحمل کے مظاہرے کا وقت ہے، یہ صحیح ہے کہ ہر شخص اس وقت گھر پہنچ کر افطار کرنے کی خواہش رکھتا ہے اسی لیے بازاروں اور سڑکوں پر بھیڑ بڑھ جاتی ہے، نتیجۃً حادثات بھی پیش آتے ہیں، بسا اوقات آگے نکلنے کی خواہش میں گالم گلوچ اور جو تم پیزار کی نوبت آجاتی ہے، افطار کا ثواب اپنی جگہ یہ ثواب تو سڑک پر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن گھرپہنچنے کی جلدی میں جھگڑا فساد کرنا تو بڑا گناہ ہے سارے دن روزہ رکھ کر آخری وقت میں اس کا ثواب ضائع کردینا کہاں کی دانائی ہے کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اتنے پہلے افطار کے لیے نکلا جائے کہ وقت سے پہلے پہلے پہنچنا ہوجائے اور اگر کسی وجہ سے بھیڑ میں پھنس جائے تو مشتعل نہ ہو بلکہ صبر کرے، اس کا اجر الگ ہوگا ان شاء اللہ ، افطار میں بھی وقار وسکون کے ساتھ مشغول ہونا چاہئے بھوکوں اور ندیدوں کی طرح کھانے پر نہ گرنا چاہئے اور نہ اتنا ٹھونس ٹھونس کر کھانا چاہئے کہ مغرب کی نماز کے لیے بھی نہ اٹھ سکے اور تراویح بھی گول ہوجائے، یا اگر نماز میں بہ مشکل تمام کھڑا بھی ہوجائے تو ڈکاریں لے لے کر نمازیوں کا ناک میں دم کردے۔

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں
دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...