حقیقی ہیرو کی تلاش ممکن ہے؟
حقیقی ہیرو کی تلاش ممکن ہے؟
طوائفوں کی فلاح و بہبود کے لیئے کام کرنے والی تنظیم ’’پرچم‘‘ نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر ہندوستان سے کبوتر بازی اور ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنا ہے تو پھراس پیشے سے وابستہ افراد کئے حکومت کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی مثببت پلاننگ کرنی پڑے گی تنظیم کی سکریٹری نسیمہ خاتون سے دانش ریاض کی گفتگو
ممبئی کے ہوٹل ٹرائیڈنٹ سے سانتا کروز ایئر پورٹ تک کے سفر کے بعد جب میں انڈیکا کار سے نیچے اترتے ہوئے نسیمہ کو الوداع کہہ رہا تھا تو اس کے چہرے کی اداسی اس بات کی چغلی کھا رہی تھی کہ میں نے مصافحہ کئے بغیر صرف سلامیسے ہی کام چلا کر کہیں نہ کہیں اس کے دل کو چوٹ پہنچائی ہے لیکن تھوڑی دور چلنے کے بعد جب میں نے پلٹ کر دیکھا تو گاڑی کے اندر بیٹھی نسیمہ شیشے کے باہر سے انتہائی پرجوش نظر آرہی تھی۔یقیناً اسے اس بات کا احساس تھا کہ جس سماج سے اس کا تعلق ہے وہاں کے لوگوں کو مہذب سماج صرف اس لئے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انہیں عرف عام میں طوائف کہا جاتا ہے ۔نسیمہ کہتی ہے ’’جو لوگ ہمارے پاس آکر منھ کالا کرتے ہیں سماج انہیں کچھ نہیں کہتا لیکن اپنا پیٹ پالنے اور مجبوری کا شکار ہوکر غلط کاروں کے شکنجہ میں پھنسنے والوں کو سماج کسی طور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟ ‘‘ سیتامڑھی (بہار)کے بوہا ٹولہ میں آنکھیں کھولنے والی 28سالہ نسیمہ کے مطابق’’میری پرورش و پرداخت مظفر پور کے چتر بھج استھان میں ہوئی ہے(جو بہار کا سب سے مشہور ریڈ لائٹ علاقہ ہے) ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میںحاصل کرنے کے دوران ہی مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ میں کھل کر نہیں جی پارہی ہوں ،جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ ان کے گھر جاتی تو وہ بھی ہمارے گھر آنے کی خواہش کا اظہار کرتے لیکن ہمارے بڑے ہمیں یہ سمجھاتے کہ اگر تم اپنے دوستوں کو اپنے بارے میں سچ سچ بتا دو گی تو پھر کوئی تم سے دوستی نہیں کرے گا ،جھوٹ پر جھوٹ بول کر جینے کی وجہ سے میں احساس جرم میں مبتلاہونے لگی اسی دوران مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ کیوں نہ میں اپنے سماج کے لوگوں کے لئے کچھ ایسا کام کروں جو انہیں اس لعنت سے نجات دے اور وہ بھی سر اٹھا کر جی سکیں ،شاید میرے اندر کا یہ احساس ہی تھا جس نے مجھے ’’پرچم ـ‘‘نامی تنظیم قائم کرنے پر مجبور کیا ۔پرچم کے بینر تلے سب سے پہلے ہم نے تعلیمی مہم کا آغاز کیا اور ان لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کیا جو جسم فروشی کو لعنت سمجھتے ہوئے اس پیشہ سے نکلنا چاہتی تھیں۔آج چتر بھج استھان میں ’’اگنو ‘‘کا سینٹر ہے اور 25سے زائد لڑکیاں وہاںزیر تعلیم ہیں۔اعلی تعلیم کے لئے بھی ہماری کوششیں جاری ہیں اور کئی ایک لڑکیاں مختلف پروفیشنل کورسوں میں داخلہ لے کر بہتر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں۔اسی طرح وہ عورتیں جو جسم فروشی کے کاروبار سے علحدگی اختیار کرنے کے بعد اب بڑی عمر کو پہنچ گئی ہیں ان کی دیکھ بھال کے لئے ہماری تنظیم نے میڈیکل سینٹر کی بنیاد ڈالی ہے جہاں ایسی عورتوں کا مکمل علاج کیا جاتا ہے اور تمام طرح کی طبّی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ‘‘۔نسیمہ کے مطابق ’’سرکار کے پاس جسم فروش عورتوں کے لئے کوئی پلان نہیں ہے ،طبّی خدمات کے نام پر زیادہ سے زیادہ وہ کنڈوم تقسیم کرتے ہیں یا پھر’’
ایڈژبیداری مہم‘‘ مناتے ہیں ،میں نے جب اس سلسلے میں بہار کے سابق وزیر اعلی نتیش کمار سے بات کی تو انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت ان لوگوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب تک اس سماج کے لوگوں کے اندر بیداری نہیں آئے گی اس وقت تک ان کے مسائل بھی حل نہیں ہوں گے ،آج بہار میں اس سماج کے دو لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں لیکن بہت کم لوگ ہی اس سے آگاہ ہیں ،دراصل پہلے یہاں سے وابستہ لوگ مہذب سماج کے پاس جاکر اپنی شناخت چھپالیا کرتے تھے لہذا اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا تھا کہ ان کی اصل تعداد کیا ہے چونکہ ممبئی ،دہلی اور کولکاتہ کے برخلاف بہار میں جسم فروش عورتیں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہی رہتی ہیں لہذا ان کی شناخت چھپانا مشکل ہوجاتا ہے لہذا جب میں نے کھل کر اپنی تنظیم کا کام شروع کیا تو ہمارے لوگوںنے اس کی پذیرائی کی اور ہر ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔ان کی اس محبت کو دیکھتے ہوئے ہی کبھی میں نے اپنی شناخت نہیں چھپائی اور لوگوں کو بتایا کہ میری دادی یا ماں تو جسم فروش تھیںلیکن میں اس لعنت سے دور ہو کر اس پورے سماج کو اس منڈی سے دور کرنا چاہتی ہوں۔‘‘اس سوال کے جواب میں کہ آخر مسلم خاتون کی تعداد یہاں زیادہ کیوں ہے ؟نسیمہ کہتی ہے’’میرے دادا ضلع شیوہر کے راٹھور خاندان سے تھے جن کا نام سلامت خان تھا انہوں نے (میری دادی) شانتی سے شادی کی جنہوں نے بعد میں اپنا نام مسلم نام پہ رکھ لیا ،میری ماں مدینہ بی بی ہیں جب کہ والد کا نام حبیب خان ہے دراصل ہمارے یہاں ایک برادری ’’نٹ ‘‘ ہے جس میں مسلم اور ہندو دونوں شامل ہیں،مثلاً گنگا ندی کے شمال میں بسنے والے نٹ مسلم ہیں تو جنوب میں بسنے والے ہندو ،لیکن جب ان کی شادیاں ہوتی ہیں تو جو جہاں جاتا ہے وہاں کے اعتبار سے اس کا نام تبدیل کر دیا جاتا ہے جیسے میرے دادا نے اپنا نام تبدیل کیا اور پھر ہمارا سلسلہ چلا۔‘‘دو بھائی اور تین بہنوں میں تیسرے نمبر پر رہنے والی نسیمہ اپنے شوہر کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’’جب راجستھان کے ہنس راج نے مجھے دیکھا تو اپنی زوجیت میں رکھنے کا فیصلہ کیا میں نے اس سے کہا کہ تمہیں سماج میں بتانا ہوگا کہ میں کہاں سے آئی ہوں تاکہ میری شناخت قائم رہے انہوں نے ہامی بھر لی اور آج میں راجستھاں جا کر بھی فلاحی کام کرتی ہوں اور لوگوں کو اس بھنور سے نجات دلانے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘ نسیمہ اپنی بھر پور جد و جہد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہے’’اگر آپ سڑک پر جا رہے ہوں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ شمال ،جنوب،مشرق و مغرب جس رخ پر جانا چاہے جائیں لیکن ریڈ لائٹ علاقے میں رہنے والوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا البتہ اب یہ معاملہ دلچسپ ہوگیا ہے کہ پہلے ہمارا فیصلہ ہمارے کسٹمر کیا کرتے تھے لیکن اب ہم اپنے بارے میں ذاتی طور پر فیصلہ کرتے ہیں‘‘طوائف خاندان سے وابستگی پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے پرچم کی سکریٹری کہتی ہے’’جب سماج ہمیں کچھ دے نہیں سکتا تونفرت کیوں کرتا ہے اور پھر ہم ہی کیوں نفرت کی مار جھیلیں؟ہم دھندہ کو گندہ نہیں کہتے کیوں کہ ہمیں مجبوریاں معلوم ہیں لیکن اس کی ترویج میں معاون و مددگار بھی نہیں بننا چاہتے ،میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ اس فیلڈ میں صرف بہار ہی ایک ریاست ہے جہاں سوشل کام چل رہا ہے ۔میرا ماننا ہے کہ اگر آپ ان کے لئے کام کریں گے تو کبوتر بازی کابھی خاتمہ ہو جائے گا اور لوگ HIVجیسی
خطرناک بیماریوں میں بھی مبتلا نہیں ہوں گے۔‘‘عیسائی مشنریوں کے کام سے متاثر نظر آنے والی نسیمہ کے مطابق’’ہماری تنظیم کی بنیاد تو 2002میں رکھی گئی تھی لیکن 2008 میں جب ہماری بستی کو نذر آتش کرکے اس میں چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا گیا تو پھر ہم Aggressiveہوکرکام کرنے لگے ہم نے بہارکے وزیر اعلی کے جنتا دربار میں جاکر ہنگامہ کیا اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی ،شاید آج اسی Aggressiveہونے کا نتیجہ ہے کہ سرکار بھی ہماری اہمیت تسلیم کرنے لگی ہے ،ہم نے ’’جگنو‘‘کے نام سے اپنا پرچہ بھی جاری کیا ہے جو ہمارے اپنے پرنٹنگ پریس میں چھپتا ہے جب کہ بہت ساری لڑکیاں جرنلزم کا کورس بھی کر رہی ہیں۔‘‘سچن تیندولکر کے ہاتھوں Real Hero کا ایوارڈ حاصل کرنے والی نسیمہ کہتی ہے’’یہ پہلا موقع ہے جب ملکی پیمانے پر ہماری پذیرائی کی گئی ہے اور اس لائق سمجھا گیا ہے کہ ایوارڈ دیا جائے ،اس ایوارڈ نے میرے حوصلے کو مزید جلا بخشی ہے اور اب میری خواہش ہے کہ میں مزید اپنے سماج کے لئے کیا کر سکتی ہوں اس کا پلان تیار کروں۔ ‘‘نسیمہ کے مطابق ’’اخبارات میں میری تصویر دیکھ کر جیلوں میں بند میرے گائوں کے لوگوں نے مجھے فون کیا میری حوصلہ افزائی کی ،اب ان لوگوں کی محبت مجھ سے کتنے نیک کام کروائے گی یہ تو خدا کو ہی معلوم ہے‘‘۔