طبعِ آزاد پر قید رمضاں

فیصل نذیر قاسمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ

Ramadaan

رمضان المبارک: رمضان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں جلانے، یعنی ہمارے گناہوں کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: شعبان شہری رمضان شہراللہ۔ یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ جس مہینے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کی گئی ہو اس کی عظمت و فضیلت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: الصوم لی و أنا أجزی بہ۔ کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ یعنی دوسری عبادتوں کی جزا ہو سکتا ہے خدا فرشتوں کے ذریعے سے دلوا دے لیکن روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدلہ خدا خود اپنے ہاتھوں سے دے گا۔ ایک دوسری حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لخلوفُ فم الصائم أطیب عنداللہ من ریح المسک۔ یعنی روزے دار کے منھ کی بو اللہ کے نزدیک مشک عنبر سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو معدہ کے خالی رہنے کی وجہ سے مجھ میں ایک طرح کی بو پیدا ہو جاتی ہے، وہ اللہ کے یہاں مشک عنبر سے زیادہ خوشبو دار ہے۔
قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا ہر شخص اپنے نامہ اعمال اور حساب و کتاب کو لے کر فکر میں ڈوبا ہوگا۔ اس ماحول میں خدا عرش پر ایک دسترخوان لگوائے گا۔ جب لوگ اس دسترخوان اور مکرم مہمانوں کو اس پر سے کھاتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ حیرانی کے عالم میں سوال کریں گے کہ یہ لوگ کون ہیں جنھیں اپنے نامہ اعمال کی فکر نہیں اور خدا ان کا اتنا اکرام کر رہا ہے۔ تو انھیں جواب دیا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں خدا کے خوف سے کھانا پینا ترک کر دیتے تھے اور روزے رکھا کرتے تھے۔
حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن روزہ خدا کے سامنے روزہ دار کے لیے سفارش کرے گا کہ اے للہ میں نے اسے کھانے پینے سے روکا، جنسی خواہشات پورا کرنے سے روکا۔ تراویح آ کر بندے اور جہنم کے درمیان حائل ہو جائے گی کہ اے اللہ میں نے اسے راتوں میں کھڑا رکھا، تو اسے بخش دے۔ آخر میں اللہ دونوں کی سفارش قبول کریں گے۔ غرضیکہ رمضان کی فضیلت و عظمت ناقابل بیان ہیں۔ یہ مسلمانوں کو خدا کی طرف سے دیا گیا ایک حسین تحفہ ہے۔ ہم اس میں جس قدر اپنی قسمت سنواریں کم ہے۔
رمضان میں تین عشرہ: اس مہینے کو خدا نے تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان رحمت و برکت کا مہینہ ہے جس کا اول عشرہ یعنی پہلا دس دن رحمت ہے، دوسرا مغفرت کا ہے اور تیسرا دوزخ سے چھٹکارا پانے کا عشرہ ہے۔ پہلے عشرے میں خدا کی رحمت و برکت خوب لٹائی جاتی ہے۔ ایک حدیث ہے اذا دخل رمضان فتحت ابواب الجنۃ و غُلِغت ابواب الجہنم و سلسلت الشیاطین۔ کہ رمضان کا مہینہ آتے ہی جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو بیڑیوں میں قید کر دیا جاتا ہے۔ گویا رمضان کے اول عشرہ میں ہی گناہگاروں کو جہنم سے خلاصی مل جاتی ہے اور جنت میں داخلہ مل جاتا ہے۔ یہ خدا کی رحمت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
روزے کا فلسفہ: قرآن کریم میں ارشادِ خدا وندی ہے، اے ایمان والو! ہم نے تم پر روزہ فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا تھا تاکہ تم متقی بن جائو۔ قرآن کریم کے مطابق روزہ کا اصل مقصد انسان کو متقی یعنی خدا سے ڈرنے والا بنانا ہے۔ اور یہ کیسے ہوتا ہے کہ خدا نے بندے کو سال بھر کھانے پینے کی آزادی دی، اب خدا اسے رکنے کا حکم دے کر آزما رہا ہے کہ میرا بندہ میرا حکم مانتا ہے یا نہیں۔ اور جب انسان روزہ رکھتا ہے اسے بھوک کا احساس ہوتا ہے، تشنگی کی تڑپ پتہ چلتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ فاقہ و غربت کیا چیز ہے۔ ان غریبوں کے دل پر کیا گزرتی ہے جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ پھر وہ صدقہ فطرت کی صورت میں، زکوٰۃ کی صورت میں، خیرات و امداد کی صورت میں غریبوں سے قریب ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر خوفِ خدا اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ:
جب حضر ت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا، پھر وہ قافلہ والوں کے ساتھ مصر پہنچے اور عزیز مصر نے انھیں خرید کر اپنا بیٹا بنایا۔ پھر ایک دن وہ مصر کے بادشاہ بنے تو مصر میں سات سال تک زبردست قحط سالی رہی۔ شیخ سعدیؒ نے اپنی مشہور کتاب گلستاں میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اس قحط سالی کے دور میں حضرت یوسف علیہ السلام نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ ان سے ان کے خادم نے پوچھا کہ آپ تو مصر کے بادشاہ ہیں اور سرکاری خزانے میں غلے کی کمی نہیں ہے پھر آپ اتنا کم کیوں کھاتے ہیں اور شکم سیری سے قبل ہی اٹھ جاتے ہیں۔ تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں اس لیے کم کھاتا ہوں کہ فاقہ کر رہی اور آدھے پیٹ پر جی رہی اپنی عوام کو فراموش نہ کر دوں، ان کا غم برابر محسوس کروں۔
خلاصہ یہ کہ کسی کے درد اور تڑپ کی اصل شدت وہی محسوس کر سکتا ہے جو خود کبھی اس درد سے دو چار ہوا ہو، ورنہ اس مطلب پرست دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب مفلوج الحال عوام نے روٹی نہ ملنے کی شکایت کی اور بادشاہ کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا تو انھیں کیک کھا کر گزارا کرنے کا احمقانہ مشورہ دیا گیا۔ روزہ ہر سال ہمیں بھوک میں تڑپ رہی اور جنگوں کا عذاب جھیل رہی معصوم انسانیت کی یاد دلانے آتا ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ نان شبینہ سے محتاج ہیں۔ ہم ان کا درد محسوس کریں۔ حتی الوسع ان کی خدمت کریں۔ یہی روزے کا عالمگیر پیغام ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مالک اپنے زیر دستوں سے اس مہینے میں نرمی برتتا ہے تو خدا اس پر قیامت کے دن نرمی برتے گا۔ خدا اس مہینے میں رزق میں کشادگی عطا فرماتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ رمضان المبارک کے لیے سال بھر جنت کو سجاتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی لوگ اس حسین و خوبصورت اور لازمی عبادت سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ جب خدا نے ایک چیز فرض کر دی تو اب عذر کے سارے دروازے بند (سوائے مرض و سفر کے) پھر بھی لوگ اپنی منشیات کی عادت کے عذر میں روزہ نہیں رکھتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے ’جواب شکوہ‘ میں کہا تھا:
کس قدر تجھ پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمھیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تم بتائو کیا یہی آئین وفاداری ہے
خدا نے روزہ داروں کے لیے کتنی آسانیاں رکھی ہیں۔ دین نام ہے آسانی کا۔ اسی لیے سحری کو سنت قرار دیا گیا۔ پھر اولِ وقت میں افطار کو بہتر قرار دیا گیا۔ دونوں جہان کی کامیابی کا وعدہ کیا گیا۔ پھر اگر ہم روزہ نہ رکھیں، تراویح نہ پڑھیں، سحری ترک کر دیں، صدقہ فطر ادا نہ کریں، زکوٰۃ کا حساب صاف ستھرا نہ رکھیں، غریبوں اور رشتہ داروں کی داد رسی نہ کریں، بھائی چارے کے سبق کو فراموش کر دیں، اپنے بلند و بانگ لائوڈ اسپیکر سے رات رات بھر نعت و تقریر جاری رکھیں تو یقینا یہ ہمارے لیے بڑی محرومی کی بات ہے۔ اقبال نے اسی کا رونا رویا ہے:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز، روزہ، قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *