پانی مافیائوں سے نجات کیسے ممکن ہے

دانش ریاض

water mafia

اس سال مانسون کی کمی کو دیکھتے ہوئے ممبئی میں پانی کی 20 فیصد کٹوتی کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ یہ کٹوتی کرلا، چیمبور، بھیونڈی اور دیونار علاقوں میں ہوگی۔ حالانکہ ممبئی سمیت مہاراشٹر کے کئی اضلاع میں زبردست بارش ہو رہی ہے جس سے پانی کی قلت کم ہونے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔جبکہ ممبئی میں لگاتار ہونے والی بارش سے لوگوں کو گرمی سے بھی راحت ملی ہے۔ چونکہ مہاراشٹر میں مانسون ایک مہینے کی تاخیر سے آیا ہےلہذا مہاراشٹر حکومت نے پانی کی کمی کو دیکھتے ہوئے ممبئی میں 20 فیصد پانی کی کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے حکومت نے مہاراشٹر کے 22 اضلاع کوقحط زدہ قرار دیاہے۔ حکومت نے ان اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کو اگلے تین دن میں خشک سالی سے نمٹنے کے لئے ایک تجویز پیش کرنے کو کہا ہے۔ قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی مہیا کرانے کے لئے 1500 ٹینکر پانی فراہم کرائے جانے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔لیکن ان تمام کے بیچ جو اہم بات ہے وہ یہ کہ Rachel carsonرشیل کرسن نے کہا تھا کہ’’ جب انسانوں نے اپنی بنیاد کو بھلا دیا حتی کہ وہ ان چیزوں کا بھی خیال نہیں رکھنے لگے جو ضروریات زندگی میں شامل تھیںتو ان تمام میں سب سے زیادہ ستم رسیدہ پانی ٹھہرا‘‘ اس قول کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب آپ ممبئی کی بی ای ایس ٹی بسوں میں سفر کا آغاز کریں گے تو تھوڑی ہی دیر میں آپ کرکٹ کے بے تاج بادشاہ سچن تیندولکر کوLCDاسکرین پریہ کہتے ہوئے ضرور سنیں گے کہ ـ’’پانی قیمتی ہے اس کی رکچھا ممبئی کی سرکچھا ہے‘‘۔اداکارعامر خان بھی اپنے چاہنے والوں سے کہہ رہے ہیں کہ پانی کی حفاظت کے لئے تمام لوگ حکومت کا ساتھ دیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہستیوں کو چاہنے والے بھی پریشان ہیں کہ آخر کس طرح پانی کی حفاظت کی جائے اور کس طرح اس مسئلے سے نمٹا جائے۔ممبئی میںسب سے زیادہ جس علاقے کے لوگ پانی کی مار جھیل رہے ہیںوہ گوونڈی شیواجی نگر کا علاقہ ہے جہاں سے ابوعاصم اعظمی ممبر اسمبلی ہیں اپنے حلقہ انتخاب میں عام لوگوں تک پانی پہنچانے کے لئے جب انہوں نے وزیر داخلہ آر آر پاٹل سے پانی مافیائوں کے خلاف شکایت کی اور غیر قانونی کنکشن ختم کروا کر عام لوگوں کو راحت پہنچانے کاکام کیا تو پانی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے ناراض ہوگئے اور ان کے خلاف ہی محاذ کھول دیا۔مشرقی مضافات ملاڈ و مالونی کی بھی یہی حالت ہے جہاں عوام نے سڑکوں پر آکر حکومت وانتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کیا اور water Mafiaکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔البتہ lower Parelمیں عوام کا غصہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب انہوں نے پانی کی کالا بازاری کرنے والوں کو پکڑ کر اچھی خاصی مرمت کر دی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر دوسری پارٹیوں کے سربراہان بھی متحرک ہوگئے ہیں۔

water mafia1

ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے جہاں میونسپل کمشنر سے ملاقات کی وہیں دیگر لوگوں نے بھی میونسپل کمشنر سے ملاقات ضروری خیال کیااور اپنی پارٹی کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ بھی عوام کے ساتھ ہیں۔البتہ کربناک پہلو یہ ہے کہ اگر ممبئی اور اس کے مضافات میں قدرت کی مار پڑ رہی ہے اور جھیلوں کا پانی سوکھتا جا رہا ہے تو پورے مہاراشٹر میں بھی پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو پانی مافیائوں کے خلاف حکوت کوئی سخت کارروائی کر رہی ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی خاص پلان ہی ہے جس سے کہ وہ عام لوگوں تک بہتر انداز میں پانی پہنچا سکے۔ایک تفتیش کے مطابق روزانہ کم از کم 100ٹینکر غیر قانونی طور پر بلڈروں اور واٹر مافیائوں کو فروخت کیا جا رہا ہے یہ نہ صرف پولس کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے بلکہ بی ایم سی اہلکار بھی اس میں شامل ہیں۔ نتیجتاً ایک طرف جہاں پانی ضائع ہورہا ہے وہیں دوسری طرف Water Mafiaزور و شور سے سرگرم ہے اور اپنی جھولی بھرتا جارہا ہے۔اطلاعات کے مطابق Bhatsa lake ،Tansa lake،Vihar Lake, Tulsi Lake, Lower and Upper Vaitarna lake میں کل ملاکر 436636ایم ایل پانی کا ذخیرہ ہے جس سے صرف 15جولائی تک ہی اہل ممبئی استفادہ کر سکتے ہیں،میونسپل کمشنرکے مطابق’’ممبئی کو پانی سپلائی کرنے والی 6 جھیلوں میں مجموعی طور پر 2لاکھ 56ہزار 363ملین لیٹر پانی کا ذخیرہ ہے جسے ریاستی حکومت کے تعاون سے 15جولائی تک شہریوں کو سپلائی کیا جاسکتا ہے‘‘۔
یہ صورتحال تو اس وقت ہے جب شہریوں کو دئے جارہے پانی میں% 15 کی کٹوتی کی جا رہی ہے ۔ 15 جولائی کے بعد کیا ہوگا، اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔گوکہ بی ایم سی کے اہلکار اس مسئلے سے نمٹنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں اور حالیہ دنوں ہوئی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں شہر بھر میں کنویں کھودنے کا پلان زیر غور ہے لیکن شیو سینا کی مخالفت کے بعد ایسا ہی لگتا ہے کہ ہنوز دلّی دور است،چیف ہائیڈرولک انجینئر ونئے دیش پانڈے کہتے ہیں ’’مانسون سے قبل عوامی مقامات پر کنواں کھودنے کے لئے انتظامیہ نے 3ٹھیکیداروں کا تقرر کر دیاہے جس پر تقریباً 41کروڑ روپئے کا صرفہ ہے ہماری کوشش یہ ہے کہ یہ کام جلد سے جلد مکمل ہوجائے۔تاکہ شہریوں کو کسی طرح کی کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔جبکہ دوسری طرف دہلی کے طرز پر پینے اور استعمال کرنے کا پانی علحدہ علحدہ سپلائی کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے لیکن چونکہ ابھی شہرمیں دو پائپ لائن نہیں ہے اس لئے اس پر فوری کارروائی ممکن نہیں ہے‘‘البتہ جب آر ٹی آئی کے ذریعہ یہ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی کہ آخر رہائشی علاقوں،ٹاور ،چال،جھوپڑ پٹی وغیرہ میں پانی سپلائی کا کیا انتظام ہے نیز commercial water distributionکی کیا صورت ہے ساتھ ہی انڈسٹریز میں پانی فراہمی کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو پبلک انفارمیشن آفیسر ہائیڈرولک انجینئر وی پی دیش پانڈے کا بس مختصر جواب تھا کہ’’ ہر جگہ کے لئے ہمارے پاسdistribution common ہے کسی خاص خطے کے لئے ہمارا کوئی علحدہ نظام نہیں ہے‘‘۔اس پورے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ Water supply سے متعلق اب تک کوئی audit رپورٹ پیش نہیں ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ آخر عوام کو پانی فراہمی میں کتنا صرفہ آتا ہے۔شاید رپورٹ کے آڈٹ نہ ہونے کی وجہ ہی ہے کہ پانی مافیائوں نے پورے شہر کو یرغمال بنائے رکھا ہے اور مختلف بہانوں سے کبھی پائپ کاٹ کر یا اس میں سوراخ کر کے پانی حاصل کر رہے ہیں یا پھر چوری چھپے ان جگہوں سے پانی حاصل کر رہے ہیں جہاں ذخیرہ اندوزی کی گئی ہے اور پھر کالا بازاری کے ذریعہ لاکھوں کا منافع کما رہے ہیں۔لیکن حکومت پانی مافیائوں کے خلاف کارروئی کے بجائے صرف جھوٹے دلاسے دے رہی ہے۔یہ ضرور ہے کہ ریاستی وزیر برائے آب اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ واٹر مافیائوں کے خلاف قانون بنایا جائے گا لیکن کب یہ معلوم نہیں۔اب ان حالات میں ہم میونسپل کاپوریشن ممبئی عظمی کے اس دعوے پر کیسے یقین کریں کہ’’ ایم سی جی ایم ممبئی کے تمام شہریوں کو صد فیصد ،تسلسل کے ساتھ،قابل بھروسہ ،صاف و شفاف اور فضائی آلودگی سے دور ایسا پانی فراہم کرے گاجو ان کی اپنی حیثیت کے مطابق ہوگا‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *