جنون کی حد تک نئی چیز کی معلومات حاصل کرنا میری فطرت ہے

تقسیم ملک سے محض 26روز قبل کرناٹک کے سلی گرام گائوں میں آنکھیں کھولنے والے ولی اللہ رحمن شریف نے جب 16سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا تھا تو انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان کے یہاں قابل انجینئرس ملازمت کیا کریں گے ،نو عمری میں گائوں کے ہی ایک شادی شدہ جوڑے کاہاتھ بٹانے آئے نائٹن والو انڈسٹریز کے مالک نے دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں
ماضی کے ان گوشوں کو کھنگالنے کی کوشش کی جو آج بھی انہیں متحرک رکھتی ہیں۔پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال:آپ نے اپنی کمپنی کی بنیاد کس طرح ڈالی؟
جواب:میری زندگی کی داستان دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی،جب میںنے درجہ پانچ میں کامیابی حاصل کی تھی تو میرے ہی گائوں کے رشتے کے بھائی جن کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی مجھے لے کر ممبئی آگئے تاکہ میںان کے گھر پررہ کر اہل خانہ کا تعاون کرسکوں ۔میں 16کمروں والے چال کی چھوٹی سی کھولی میں رہا کرتا تھا اور بازار،ہاٹ کے ساتھ پا نی وغیرہ بھرنے کا کام کردیا کرتا تھا۔ایک روز پانی بھرنے کے دوران ہی نسیم خان نامی ایک لڑکے سے میں نے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے ۔اس نے بتایا کہ وہ ٹرنل(ٹرنر)اور لیٹ مشین(لیتھو مشین)کا کام کیاکرتا ہے میں نے بھی کام پر لے جانے کی گذارش کی، بالآخر دوسرے ہی دن میں بھی اس کے ساتھ اس جگہ گیا جہاں وہ کام کیا کرتا تھا۔اس کے سیٹھ نے میری عمر دیکھتے ہوئے کام پر رکھنے سے منع کردیا،میں محض 17سال کا تھا،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ میں’’درما‘‘(پیسہ) نہیں لوں گا،آپ مجھے کام پر رکھ لیں۔یہ سن کر وہ ہنسنے لگا اور مجھے ملازمت مل گئی ۔ مہینے کے اختتام پرانہوں نے میری محنت و مشقت کی ستائش کی اور35روپئے Salaryعطا کی ۔اس رقم کو پاکر مجھے جس قدرمسرت حاصل ہوئی تھی اس کا اندازہ کسی طور پر بھی نہیں لگایا جاسکتا۔شاید آج 25لاکھ بھی مل جائے تو وہ خوشی نہیں مل سکتی جو اس وقت حاصل ہوئی تھی۔میں نے تین چار ماہ وہاں ملازمت کی اور پھر 60روپئے کی تنخواہ پر دوسری جگہ چلا گیا۔ اس کے بعد میں نے Fouress Business Corporation میں ملازمت اختیار کر لی ۔جو بعد میں Fores Engineering India Pvt Ltdمیں تبدیل ہوگیا۔وہیں میں نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ آخر ہمارے ہندوستان میں Valveکیوں نہیں بنتا،کیوں اسے باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔میں نے Valveسے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے درجہ ہفتم میں داخلہ لے لیا اور گیارہویں جماعت تک نائٹ اسکول میںپڑھتارہا۔مجھے یاد ہے کہ1971میں ایک دن 4:30بجے جب پہلی مرتبہ میں نے 4″ 6Gate 1Classکا Gas Valveبنایا تھاتو میرے سیٹھ نے اپنی گاڑی پر بیٹھا کر مجھے حاجی علی کی سیر کرائی تھی،اور میری لگن کو سراہتے ہوئے مجھے بخشش دی تھی۔حالانکہ اس وقت کمپنی میں بہت سارے پڑھے لکھے افراد ملازمت کر رہے تھے لیکن جنون کی حد تک نئی چیز کی معلومات حاصل کرنا میری ہی فطرت میں شامل تھا،جس کاکہ مجھے بعد میں فائدہ ملا۔عموماً کمپنیوں میں ہوتا یہ ہے کہ Bossحضرات مالکان کے سامنے اپنے ماتحتوں کا کریڈٹ بھی خود ہی لے لیتے ہیں،لہذا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل کام کرتا رہا۔ یہ 1973کا زمانہ تھا جب مجھے 1200روپئے ملا کرتے تھے۔آخر دو تین سال بعد ہی مجھے Global Engineering Corporationکی طرف سے سام جی بھائی شیام کا آفر آیا جنہوں نے 25ہزار ایڈوانس دے کر 3ہزار کی Salaryپر میری خدمات طلب کیں،بالآخر ہوٹل تاج میں میٹنگ منعقد ہوئی جہاں زندگی میںپہلی مرتبہ جانے کا اتفاق ہواتھا،دریں اثناء دسمبر 1975کو ہمارے درمیان پانچ سال کا معاہدہ قرار پایا کہ میں ان کی کمپنی چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا ،لیکن دو سال بعد ہی مجھے دو لاکھ روپئے ایڈوانس اور 10ہزار روپئے Salaryکا آفر آیا، اسی وقت مجھے احسا س ہوا کہ شاید میرے اندر کوئی ایسی بات ضرورہے جس کی وجہ سے میری خدمات کی لوگ منھ مانگی قیمت عطا کر رہے ہیں تو کیوں نہ میں اپنا بزنس شروع کروں ۔لہذا فوری طور پر میں نے کمپنی چھوڑ دی اور 12ہزارکی مشین قسط پر خرید کر 1978 میں Niton Valve Ind. Pvt Ltdکی بنیاد رکھی۔

سوال:تجارت کو فروغ دینے میں تعلیم کا رول کس قدر کام میں آتا ہے؟
جواب:زندگی کے ہر موڑ پر تعلیم کی حقیقت مسلّم ہے،لیکن صرف درسی کتابوں کے ذریعہ تمام محاذ کو سر نہیں کیا جا سکتا۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بزنس میں جو لوگ آگے بڑھتے ہیں وہ عموماً بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ،بلکہ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ آدمی پڑھتا کچھ ہے اور کام کچھ اور کرتا ہے۔حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ جس فیلڈ کی اس نے پڑھائی کی ہو اسی فیلڈ میں قسمت آزمائی کرے تو یقینا آگے چل کر فائدہ حاصل ہوگا۔
سوال:ہندوستان کا جمہوری نظام مسلم تاجروں کے لئے کیسا ہے؟کیا آپ کو کبھی مذہب کے نام پر پریشانی محسوس ہوئی؟
جواب:میں مذہب کی دو تقسیم کرتا ہوں اچھا مذہب اور خراب مذہب،دراصل خراب آدمیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر سماج میں ہوتے ہیں۔اگر آپ اچھے ہیں تو ہر نظام آپ کے لئے درست ہے لیکن اگر آپ خراب ہیں تو ہر نظام میں آپ کو خرابی محسوس ہوگی۔میری کمپنی کے 35%شیئر ہولڈرس گجراتی ہیں حالانکہ گجرات مسلمانوں کے درمیان ناپسندیدہ صوبہ قرار پاتا ہے ۔میں جس انڈسٹریل اسٹیٹ میں بیٹھا ہوں یہاں 350فیکٹریاں ہیں جہاں دوچار ہی مسلمان تاجر ہیںلیکن 20/25برسوں سے یہاں کی ایسو سی ایشن نے مجھے ہی سکریٹری بنا رکھا ہے ،میری ایمانداری پر لوگوں کو اس قدر بھروسہ ہے کہ اپنالاکھوں روپیہ بطور امانت سونپ جاتے ہیں اور برسوں پوچھنے تک نہیں آتے کہ میرے پیسے کا کیا ہوا۔الحمد للہ میں نے بغیر نقصان کئے ہوئے اپنی تجارت کو فروغ دیا ہے۔دراصل جو لوگ واویلا مچاتے ہیں حقیقت میں وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے اور تمام الزامات دوسروں کے سر منڈھ دیتے ہیں۔
سوال:کمپنی مزید کیا پیش رفت کرنا چاہتی ہے؟
جواب:دو تین ماہ کے اندر ہی انشاء اللہ اسی Capacity کی دوسری کمپنی شروع کرنے کا ارادہ ہے جس کی تمام تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں۔
سوال:کمپنی کا سالانہ ٹرن اوور نیز وسعت کیا ہے؟
جواب:ہمارے یہاں 650ملازمین کام کرتے ہیں جن میں 130گریجویٹس ہیں،ہماری برانچ کھپولی،اورنگ آباد، نئی ممبئی اورگھاٹ کوپر میں واقع ہے۔جبکہ سالانہ ٹرن اوور 125کروڑ ہے۔
سوال:آپ نے ابتداء میں کن مسائل کا سامنا کیا؟
جواب:میرے پاس تو مسائل ہی مسائل تھے ،نہ پیسہ تھا ،نہ انفرااسٹرکچر تھا لیکن جنون تھا۔میں بینک آف بڑودہ سے قرض کے لئے رجوع ہوا، وہاں کے منیجر نے مجھے اس بنیاد پرتعاون کیا کہ وہ سابقہ کمپنی میں کام کرتے ہوئے مجھے دیکھ چکا تھا لہذا ایک لاکھ 25ہزار بطور قرض ملا۔
سوال:سماجی و فلاحی کاموں میں آپ کا تعاون کس قدر ہے؟
جواب:میں مہاراشٹر اور کرناٹک کے تعلیمی ادروں سے جڑا ہوا ہوں اور غریب و نادار طلبہ کی اعانت کرنا اپنی اولین ضرورت محسوس کرتا ہوں۔میں ہر سال سیکڑوں طلبہ کو اسکالرشپ دیتا ہوں تاکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کر کے قوم سماج کی بھلائی کا کام کر سکیں۔