
خواتین اور رمضان کی تیاریاں
گل افشاں
پھول کے آپ جتنے قریب جائیں گے، اس کی خوشبو آپ کے لیے اتنی ہی منموہک ثابت ہوگی اور جب آپ اسے حاصل کر لیں گی تو یقینا اس سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ استفادہ کرنے کو جی چاہے گا۔ رمضان اور شعبان کا تعلق بھی پھول اور خوشبو کے جیسا ہی ہے۔ جی ہاں! شعبان سے ہی رمضان کی خوشبو ملنی شروع ہو جاتی ہے اور پھر جب رمضان حاصل ہو جاتا ہے تو پورا عالم اسلام اس سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ استفادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے تو حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کی تیاری شعبان کے مہینے سے ہی شروع کر دینی چاہیے۔ ماہِ شعبان المعظم ختم ہونے کو ہے اور رمضان کی آمد آمد ہے۔ لیکن کیا ہماری بہنوں نے سب سے افضل مہینہ یعنی رمضان المبارک کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں؟ اگر نہیں تو فوراً کمر باندھ لیجیے اور عزم مصمم کر لیجیے کہ رمضان شروع ہونے سے قبل رمضان کی تیاریاں مکمل کر لیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر رمضان کی تیاری ہے کیا؟ روزے کا مقصد بتایا گیاہے ’’لعلکم تتقون‘‘ (تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو) کسی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’اے اللہ کے نبی تقویٰ کا مقام کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے ہاتھوں سے اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’ تقویٰ یہاں ہے۔‘‘ توپھر کیوں نہ ہم رمضان المبارک سے قبل سبھی دوسری تیاریاں چھوڑ کر سب سے پہلے اپنے دل کی صفائی ہی کر لیں۔ کیا اس سے ہماری بہنیں انکار کر سکتی ہیں کہ چھوٹے سے دل میں کتنا گرد و غبار بھرا ہوا ہے۔ سبھی خواتین کے اکثر عزیزوں سے مراسم شکستہ ہوتے رہتے ہیں اور نہ جانے دل پر بدگمانیوں، نفرتوں، حسد اور بغض کی کتنی گندگیاں جمی ہوئی رہتی ہیں۔ اس میں کبھی غلطی اپنی ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کی بھی ہوتی ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب کچھ بھول کر اپنے شیشۂ دل کو صاف کر دیں، تقویٰ اختیار کر لیں تاکہ رمضان مبارک میں اپنے رب کا جلوہ دیکھ سکیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم اس مہینے میں پاک پروردگار کی معرفت سے فیضیاب نہ ہو سکیں اور رمضان کی عظیم ساعتوں سے استفادہ نہ کر سکیں تو پھر یہ ہمارے لیے نقصان نہیں ’نقصانِ عظیم‘ ہے۔
ہماری بہنیں رمضان سے قبل رمضان کی تیاریوں کے مدنظر کچن سیٹ کر لیتی ہیں کیونکہ رمضان میں کھانا پکانا نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ افطار پارٹی پر بھی دوست احباب آتے ہیں اس لیے کچھ نئی کراکری، نئے ڈونگے اور دسترخوان کی ڈشیں وغیرہ بھی خریدنی ہوتی ہیں۔۔۔ اچھی خاصی فکر کرنی ہوتی ہے کیونکہ گھر کی ساری ذمہ داریاں تو ہم خواتین کی ہی ہوتی ہیں، لیکن کیا یہ رمضان کی حقیقی تیاری ہے؟ قطعی نہیں۔ عام طور پر معاشرے میں رمضان کی تیاریوں میں گھروں میں اضافی جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ اپنی جگہ کوئی معیوب بات نہیں لیکن یہ سوچنا غلط ہے کہ گھر صاف ستھرا ہو جائے، کچن کے لیے اضافی برتن اور اضافی راشن آ جائے تو کیا بحیثیت خاتون خانہ ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ ہم خواتین کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تو رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی رمضان کے لیے مکمل روٹین تیار کر لینی چاہیے اور سب سے پہلے ہمیں یہ غور و فکر کرنی چاہیے کہ روزہ کو ہم کس طرح اپنے لیے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کے لیے شفاء ہے۔ اور جو اسے قبول کرلے اس کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہوکہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی۔ اس پرلوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہترہے جولوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہاں اللہ قرآن کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ایک معجزہ ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہنے والا ہے۔ ہمیں اگر اپنے روزے کی شان بڑھانی ہے تو قرآن سے تعلق بڑھانا ہوگا۔ ایسا تعلق جو سطحی نہ ہو بلکہ اندرونی ہو اور انتہائی گہرائی کے ساتھ دلوں میں شعور کی بیداری کو جنم دینے والا ہو۔ آپ اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ نماز، روزہ اور ہر طرح کی چھوٹی بڑی عبادات کی قبولیت کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے اور روزوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں رمضان کا چاند دیکھ کر چاند دیکھنے کی دعا پڑھنی چاہیے اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر دل کی گہرائی کے ساتھ استغفار کرنا چاہیے اور خلوص نیت کے ساتھ رمضان کا آغاز کرنا چاہیے۔ پھر ہمیں عزم کرنا چاہیے کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ روزانہ کچھ آیتیں یاد کرنی ہیں اور پھر پابندیٔ وقت کے ساتھ نماز کی ادائیگی اور اذکار و تسبیحات پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہے کیونکہ رمضان کی ہر ساعت اور ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔
ہمیں ایک چیز اور دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ رمضان کے دوران ہماری حرکا ت و سکنات پر گھروں میں موجود بچوں کی نظر ہوتی ہے اور وہ اس سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ یعنی ہمیں رمضان میں غلطی سے بھی کوئی ایسا فعل کرنے سے باز رہنا ہوگا جس سے بچے رمضان کی اہمیتوں سے غافل ہو جائیں۔ اکثر گھروں میں عورتیں اپنے بچوں کو غلط اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے ڈانٹتی ہیں اور چیخ و پکار بھی عام بات ہے۔ ہمیں خود پر قابو پانا ہوگا۔ اس سے نہ صرف بچوں کی بہتر تربیت ہوگی بلکہ اس کا ہمارے نفس پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ جہاں ہم سحر و افطار میں بچوں کی غذا کی ضروریات کے لئے حساس ہو جاتے ہیں وہیں رمضان کو اپنے بچوں کی تربیت کا مہینہ بنائیں۔ آپ اپنے بچوں کے سامنے مسلمان روزہ دار ماں کا آئیڈیل نمونہ پیش کریں جو کسی کی غیبت نہیں کرتی، جو کسی سے چیخ کر بات نہیں کرتی، ٹی وی کے سامنے وقت ضائع نہیں کرتی اور بچوں پر عام دنوں سے زیادہ شفقت اور مہربانی کرتی ہے۔ ہمارا رویہ ہی بچوں کو رمضان کی عظمت کا احساس دلائے گا۔ اگر ہم ’ لغویات‘ سے دور رہیں گے تو بچے بھی لغویات اور غلط کاموں سے دوری اختیار کریں گے۔
اب آپ کے اوپر ہے کہ آنے والے رمضان المبارک کو آپ اپنے لیے کتنا مفید بناتی ہیں۔ تیار ہو جائیے رمضان کے لیے اور دل سے سبھی طرح کے بغض و کینہ کو نکال کر عبادت و ریاضت کے لیے۔ مطالعہ قرآن و حدیث نوافل کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ قیام اللیل‘ شب قدر اور اعتکاف کو اپنے لیے آخرت میں کامیابی کا سبب بنا لیجیے۔ رمضان المبارک ایک متبرک اور مبارک مہمان کی طرح ہے۔ لہٰذا جس طرح مہمان کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے یعنی گھرکو سنوارا اور صاف ستھرا کیاجاتاہے، کھانے کی تیاری بھی پہلے سے کرلی جاتی ہے تاکہ مہمان کے ساتھ گفتگوکا زیادہ موقع مل سکے اور مہمان کے سامنے بلاضرورت باورچی خانے میں جانا نہ پڑے، ٹھیک اسی طرح رمضان کے لیے بھی جس حدتک کام پہلے سے کیے جاسکتے ہوں کرکے رکھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لمحات رمضان کی برکتیں حاصل کرکے گزرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں اس کا جتنا چاہتا ہوں بدلہ دیتا ہوں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ’رمضان المبارک‘ کا مہینہ نصیب ہوا ہے۔ اگر اس مہینے میں ہم نے اللہ کو راضی نہ کیا تو پھر یہ ہمارے لیے نقصان، نقصان اور صرف نقصان ہوگا۔