فاسد روزہ اور اس کے مسائل

رمضان کیسے گزاریں ؟ (۹)
مولانا ندیم الواجدی
روزہ کن چیزوں سے فاسد ہوگا:
(۱۱) مجبوری کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جائے یا یہ کہا جائے کہ تمہارے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے جائیں گے، یا کوئی بہت بڑا نقصان پہنچادیا جائے گا ایسی صورت میں روزہ توڑا جاسکتا ہے اس کی بھی صرف قضا واجب ہوگی اور روزہ توڑنے کا کوئی گناہ نہ ہوگا (فتاوی عالمگیری: ۱/۲۰۲)
(۱۲) اگر کوئی شخص رمضان کے مہینے میں بے ہوش رہا تو جس دن بے ہوشی طاری ہوئی اس دن کے علاوہ تمام دنوں کے روزوں کی قضا ضروری ہے، پہلے دن کا روزہ صحیح مانا جائے گا، پورے رمضان بے ہوش رہا تب بھی یہی حکم ہے ہوش میں آنے کے بعد تمام مہینے کے روزوں کی قضا ضروری ہے، البتہ پاگل کا حکم دوسرا ہے اگر کوئی شخص رمضان کے پورے مہینے جنون میں مبتلا رہا تو اس پر قضا واجب نہیں ہے، لیکن اگر کچھ دن صحیح رہا اور کچھ دن جنون میں گزرے تو تمام فوت شدہ روزوں کی قضا رکھنی ہوگی، جتنے روزے جنون کی وجہ سے گئے ہیں ان کی بھی قضا رکھی جائے گی۔ (علم الفقہ:۴۳۷)
(۱۳) دل کا مریض اگر درد کی گولی زبان کے نیچے رکھ لے اور اس کا اثر تھوک میں شامل ہوکر حلق کے اندر چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اگر حلق کے اندر نہیں گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ وہ دوا زبان کے مسامات میں جذب ہوکر درد کو زائل کردے ۔
(۱۴) آج کل رحم وغیرہ کی صفائی کے لیے عورت کی شرمگاہ میں آلات وغیرہ ڈالے جاتے ہیں، اگر وہ آلات خشک ہوں تو ان کے داخل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر وہ تر ہوں یا ان پر دوا وغیرہ لگی ہوئی ہو تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا (فتاوی عالمگیری: ۱/۲۰۴) البتہ شرمگاہ میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا تاہم قضا واجب ہوگی (البحر الرائق: ۲/۲۸۸)
(۱۵) کسی شخص کوخود بہ خود قئے ہوئی غلطی سے وہ یہ سمجھا کہ اس قئے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے، حالاں کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، یہ سوچ کر اس نے کھانا پینا شروع کردیا تو اس روزے کی قضا واجب ہوگی۔ (فتاوی ہندیہ: ۱/۲۰۶)
ایک قابل توجہ مسئلہ:
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی شخص کا روزہ چھوٹ جائے یا فاسد ہوجائے تو قضا خود ہی کرے گا، کسی دوسرے شخص کے ذریعے قضا کرانا جائز نہیں ہے اس سلسلے میں شریعت کا یہ اصول ہے کہ عبادات بدنیہ مثلا نماز ، روزہ اگر فوت ہوجائیں تو اس میں نیابت کی گنجائش نہیں ہے، خود ہی قضا کرنی ضروری ہوگی، البتہ مالی عبادتوں میں جیسے زکوۃ اور صدقۂ فطر وغیرہ دوسرا بھی ادا کرسکتا ہے(فتاوی شامی: ۴/۱۳)
قضاء کے کچھ مسائل:
اگر کوئی مسافر دن ڈھلے مقیم ہوجائے، کسی عورت کا حیض ونفاس دن کے کسی بھی حصے میں بند ہوجائے ، کوئی بیمار دن ڈھلے صحت یاب ہوجائے، کسی نے مجبوری کی وجہ سے روزہ توڑ ڈالا ہو اور دن ڈھلنے کے بعد اس کی مجبوری دور ہوگئی ہو تو ان سب کو چاہئے کہ وہ روزہ داروں کی طرح باقی دن گزاریں اور رمضان کے بعد اس دن کے روزے کی قضا کریں، البتہ اگر کوئی نابالغ بچہ دن میں بالغ ہوگیا ہو یا کوئی کافر دن میں اسلام لے آیا ہو تو ان دونوں پر قضا واجب نہیں ہوگی کیوں کہ ان پریہ روزہ فرض ہی نہیں ہوا تھا ۔
جن صورتوں میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں:
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ رمضان کا روزہ ایک لازمی فرض ہے، اگر کسی شخص نے جس پر رمضان کے روزے فرض تھے جان بوجھ کر روزے کی حالت میں کوئی غذا کھالی یا پانی پی لیا، یا جماع کرلیا تو اس سے روزہ بھی فاسد ہوجائے گا، قضا بھی ضروری ہوگی اور کفارہ بھی دینا ہوگا، اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ بلا عذر رمضان کا روزہ چھوڑنے والا شدید وعید کا مستحق ہے، ایک حدیث میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دے تو پھر وہ پوری عمر بھی روزے رکھے تب بھی اس ایک روزے کا بدل نہیں ہوسکتا (بخاری:۲/۶۸۲، ابوداؤد: ۱/۷۲۹، رقم الحدیث: ۲۳۹۶، ) اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رمضان کے روزے کی کتنی اہمیت اور فضیلت ہے، ظاہر ہے جس کام کے کرنے پر ثواب زیادہ ہوگا اس کے نہ کرنے پر عذاب بھی اتنا ہی ہوگا، اور اگر رکھ کر توڑ دیا تو یہ انتہائی قابل مذمت ہے اس کی قیامت کے دن کتنی سزا ہوگی اور کیا ہوگی یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، لیکن دنیا میں بھی اس کی سزا اتنی ہونی چاہئے کہ وہ خود بھی روزہ توڑنے کی جرأت نہ کرسکے اور دوسروں کو بھی جسارت نہ ہو، اسی لیے جان بوجھ کر روزہ توڑنے والوں کے لیے قضا بھی ہے اور کفارے کی سزا بھی ہے۔
کفارہ کیا ہے؟
روزے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں ایک غلام آزاد کرے اگر کسی شخص کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ غلام خرید کر آزاد کرسکے یا کسی ایسی جگہ رہتا ہو جہاں غلاموں کی خرید وفروخت نہ ہوتی ہو تو ایسے شخص کے لیے ساٹھ روزے رکھنا واجب ہے، اگر کسی وجہ سے ساٹھ روزے بھی نہ رکھ سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے، ساٹھ روزوں میں شرط یہ ہے کہ ان میں تسلسل ہو، بیچ میں کوئی انقطاع نہ ہو، یعنی کوئی روزہ ناغہ نہ ہو، اگر ناغہ ہوگیا تو تمام ساٹھ کے ساٹھ روزے دوبارہ رکھنے ہوں گے، ہاں اگر کسی عورت کو حیض آجائے تو یہ ناغہ معاف ہوگا حیض کے ایام پورے ہونے کے بعد باقی روزے پورے کئے جائیں، اگر کوئی شخص کفارے کی تینوں صورتوں پر قادر ہو یعنی غلام بھی آزاد کرسکتا ہو، ساٹھ روزے بھی رکھ سکتا ہو اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلا سکتا ہو تو جو صورت اس کے لیے زیادہ سخت ہو وہ اختیار کی جائے اس لیے کہ کفارے کا مقصد سزا اور تنبیہ ہے، صاحب ’’البحر الرائق‘ـ‘ نے لکھا ہے کہ اگر بادشاہ پرکفارہ واجب ہوجائے تو اسے ساٹھ روزے رکھنے چاہئیں کیوں کہ اس کے لیے یہ عمل دشوار ہوگا، وہ غلام بھی آسانی کے ساتھ آزاد کرسکتا ہے اور ساٹھ مسکینوں کو بھی سہولت سے کھانا کھلا سکتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں یہ شرط ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے، چاہے ایک ہی دن دونوں وقت کھلادیں، چاہے دو دن دو وقت کھلا کر ایک دن پورا کردیں، ایک وقت میں جن محتاجوں کو کھانا کھلایا ہے دوسرے وقت بھی ان ہی کو کھلانا ہوگا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک وقت میںساٹھ مسکینوں کو کھلایا اور دوسرے وقت میں دوسرے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیا ہاں یہ ممکن ہے کہ ساٹھ روز تک ایک ہی مسکین کو کھا نا کھلائے، یا ساٹھ دن نئے مسکین کو کھانا کھلائے، جن محتاجوں کو کھانا کھلائے ان کا بھوکا ہونا بھی ضروری ہے، پیٹ بھروں کو کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا، کھانے کے بجائے دو وقت کے کھانے کے بہ قدر ساٹھ مسکینوں کو صدقہ بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ایک ہی شخص کو ایک ہی روز ساٹھ مسکینوں کے دو وقت کے کھانے کے بہ قدر صدقہ دے دیا تو یہ صورت بھی صحیح نہیں ہے، جماع کی سزا اور بھی سخت ہے ،اگر جماع کے علاوہ کسی اور سبب سے کفارہ واجب ہوااور ابھی وہ ادا نہیں کر پایاتھا کہ دوسرا واجب ہوگیا تو ان دونوں کے لیے ایک ہی کفارہ کافی ہے، خواہ دونوں کفارے دو رمضان کے ہوں، لیکن اگر جماع سبب بنا ہے تو ہر روزے کاکفارہ الگ ہوگا (علم الفقہ:۴۴۲)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *