ریل بجٹ سے مغربی اترپردیش کے عوام مایوس

دیوبند 10 جولائی (یو این بی): مودی حکومت کے پہلے ریل بجٹ سے عوام میں مایوسی چھاگئی ہے باالخصوص مغربی اترپردیش کی عوام میںپیش کئے جان والے بجٹ سے زبردست مایوسی ہے ،خاص طورپر میرٹھ سے اتراکھنڈ تک کے ریل مسافرین اور تاجروں نے سوال کیا ہے کہ آخر ک ب تک محکمہ ریل مغربی اترپردیش کے عوام کو دھوکہ دیتا رہیگا اور کب تک اس پورے علاقہ کے بڑے مطالبات کو نظر ا نداز کیا جاتا رہیگا ۔سہارنپور سے میرٹھ تک ڈبل ریلوے لائن کو بجٹ میں منظوری نہ دیئے جانے اور سہارنپور وایا دیوبند میرٹھ سے دہلی کیلئے نئی ریل گاڑیوں کے مطالبے، کچھ مخصوص ٹرینوں کے روٹ کو بڑھانے اور بعض ٹرینوں کے اسٹاپیج بڑھانے جیسے مطالبات کو نظرا نداز کئے جانے پر دیوبند کی سیاسی ،سماجی اور مذہبی شخصیات نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے عام انتخابات کے ہوائی اور پرفریب وعدوں کی طرح وزیر ا عظم کے ریل بجٹ پر اس تبصرہ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے جس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس ریل بجٹ میں پورے ملک کا خیال رکھا گیا ہے۔ریل بجٹ پر دارالعلوم وقف کے نائب مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرصہ سے اس علاقہ کے جائز اور ضروری مطالبات کو پھر سے نظر انداز کردیا گیا ہے اور مغربی اترپردیش کے لئے یہ بجٹ خانہ پری کے علاوہ کچھ نہیں ہے مولانا سفیان قاسمی نے کہا کہ ضلع سہارنپور کے لوگوں کی امیدوں پر ایک مرتبہ پھر ریل بجٹ نے پانی پھیر دیا ہے انہوںنے کہا کہ تقریباً پچھلے 40سالوں سے میرٹھ دیوبند ٹپری لائن کو ڈبل کئے جانیکا مطالبہ کیا جارہا ہے اس مرتبہ اس مطالبہ کے پورا ہونیکی کافی امید تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا ریل بجٹ میں سہارنپور دیوبند کا نام تک نہیں ہے جسکی وجہ سے عوام میں مایوسی ہے۔آل انڈیا اقتصادی کونسل کے چئیر مین مولانا حسیب صدیقی نے موجودہ ریل بجٹ پر حیرت اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ آنے سے پہلے نو منتخب ایم ،پی کی جانب سے ریلوے ٹریک کو ڈبل کئے جانے اور ریلوے کی جانب سے مزید مراعات ملنے اور کسی نئی ٹرین کا تحفہ ملنے نیز کچھ مخصوص گاڑیوں کے اسٹاپیج بنائے جانے کے بلندوبانگ دعوئوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس مرتبہ ضرورمغربی اتر پردیش کو ریلوے کی جانب سے نئی سوغات ملیں گی لیکن بجٹ کے اعلان کے ساتھ ساری غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ میرٹھ اور سہارنپور کے درمیان واقع بین الاقوامی سطح پر شہرت کا حامل دیوبند جہاں ایشیا کا سب سے بڑا دینی ادارہ دارالعلوم واقع ہے اور جہاں ملک اور بیرون ملک سے 12مہینے مہمان اور بلاتفریق مذہب وملت سیاسی ومذہبی بڑی شخصیات کی آمد ورفت رہتی ہے اس لئے اس علاقہ کی شہرت اور عظمت کے مدنظر ڈبل ٹریک کے ساتھ اس روٹ پر مخصوص سپر فاسٹ اور اے سی ریل گاڑیاں ہونی چاہیے تھیں لیکن چونکہ یہ پوری پٹی مسلم اکثریت والی ہے اس لئے اس علاقہ کے ساتھ گذشتہ 40سالوں سے سوتیلا اور متعصبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے گذشتہ حکومتوں کی طرح موجود حکومت نے بھی اس علاقہ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ جب تک سہارنپور سے لیکر میرٹھ تک کی سیاسی ،سماجی اور مذہبی تنظیمین ایک پلیٹ فارم پر آکر شدت اور مستعدی کے ساتھ ان مطالبات کے لئے آواز نہیں اٹھا ئیں گی جب تک حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مراعات ملنے کی آس لگانا بے سود ہے ۔یوپی رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریڑی ڈاکر عبید اقبل عاصم نے موجودہ ریل بجٹ میں مغربی اترپردیش کو قطعی طورپر نظر انداز کرنے پر اپنی مایوسی اور غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریلوے کے مرکزی وزیر نے تیز رفتار اور بلٹ ٹرینوں کے خواب دکھا نے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تاثر دیا ہے کہ یہ بجٹ ان علاقوں کے لئے ہے جہاں بی جے پی بر سرا قتدا ہے جبکہ بہار،بنگال،ہما چل پردیش آسام اور یوپی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا گیا انہوںنے کہا کہ مغربی اترپردیش باالخصوص میرٹھ سے اتراکھنڈ تک کے علاقہ کو نظر انداز کیا جانا علاقاعیت اور تعصب کا بھی مظہر ہے جسکی وجہ سے موجود بجٹ میں ریلوے لائن کو ڈبل کرنے کے علاوہ الیکٹر یفکیشن اور نئی ریلوے لائن سمیت تمام مطالبات کو سرے سے خارج کردیا انہوںنے کہا کہ بجٹ سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عوامی نمائندہ کے منہ سے اب جواب تک نہیں نکل رہا ہے اس علاقہ کے تاجروں ،یومیہ مسافروں نے جو مطالبات کئے تھے انکا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔جامعہ طبیہ دیوبندکے سیکریڑی اور اترپردیش یونانی چکتسا پدتی لکھنؤ کے صدر ڈاکٹر انور سعید نے ریل بجٹ میں ضلع سہارنپور کو یکسر نظر انداز کئے جانے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقہ کے لیڈران گذشتہ 40سالوں سے عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے چلے آرہے ہیں اور ہر مرتبہ انکے دعوے اور وعدہ جھوٹے ثابت ہوتے آئے ہیں اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے بلکہ پہلے کے مقابلہ اس مربتہ مرکزی محکمہ ریل نے علاقائی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2009سے منطور دیوبند رڑکی ریلوے پروجیکٹ کو نامنظورکرکے علاقہ کو کچھ دینے کے بجائے چھین لینے کی کارروائی کی ہے ۔جو شرمناک اور قابل مذمت ہے ڈاکٹر انور سعید نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ساتھ ہمارے علاقہ کے لیڈران بھی اس صورتحال کے لئے برابر کے ذمہ دار ہیں ،کیونکہ تمام سماجی ،سیاسی اور مذہبی شخصیات پر مرتبہ ریل بجٹ کے آنے کے بعد مذمتی بیان دیکر ذمہ داری سے سکبدوشی اختیار کرلیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میرٹھ سے سہارنپور تک کی تمام ملی ،سیاسی ،سماجی تنظیموں کو اس سمت میں مشترکہ طورپر ایک مشفقہ لائحہ عمل تیار کرکے اپنے مطالبات کیلئے مرکزی حکومت پر اگلا ریل بجٹ آنے سے پہلے دبائو بنایا جاہیے۔اسی صورت میں کامیابی ممکن ہے انہوںنے مرکزی حکومت اور یلوے مسنٹر سے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں پیش کی گئی تجاویز پر ازسرنوغور کیا جائے اور محض بڑے شہروں کی جانب ہی ساری توجہ مرکوزنہ کرکے ان مقامات کا بھی خیال رکھا جائے جہاں چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشن ہیں اور وہاں آج بھی تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *