ممبئی کے بوہرہ اور اسماعیلی

٭دانش ریاض

قائد جوہر بھائی ،عبد علی بھائی صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے ساتھ
قائد جوہر بھائی ،عبد علی بھائی صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے ساتھ

بہترین حکمت عملی خراب حالات میں بھی سود مند نتائج فراہم کرتی ہے جبکہ بسا اوقات سازگار ماحول میں بھی کوئی لائحہ عمل بہتر ثابت نہیں ہوتا ۔
اس وقت جب کہ اسلام کرائسس میں ہے اس کے ماننے والے ہی دو فرقے انتہائی برق رفتاری اور پورے اطمینان کے ساتھ اپنا سفر طے کررہے ہیں۔
مسلمانوں سے وابستہ داؤدی بوہرہ واسماعیلی فرقہ یوں تو پوری دنیا کے 20 سے 25 ملکوں میں بسا ہوا ہے لیکن مجموعی طورپر ہندوستان میں ان کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہے ۔ اس فرقے پر تحقیق کرنے والے اسکالر اصغر علی انجینئر کے مطابق ’’صرف ممبئی میں داؤدی بوہرے ایک لاکھ سے زیادہ ہیں جبکہ دنیا میں ان کی مجموعی آبادی دس لاکھ سے متجاوز ہے اسی طرح اسماعیلیوں کی بھی خاطر خواہ تعدادہے جو ممبئی میں بستی ہے ۔‘‘
ممبئی کی گنجان آبادی والے علاقے ڈونگری سے لیکر رے روڈ تک اگر اسماعیلی آباد ہیں تو محمد علی روڈ سے مولانا آزاد روڈ تک داؤدی بوہروں نے اپنا قبضہ جمائے رکھا ہے ۔ محمد علی روڈ پر ہی داؤدٰ بوہروں کی وہ مشہور درگاہ ہے جہاں ہر جمعرات کو لوگ زیارت کے لئے جمع ہوا کرتے ہیں ۔ جبکہ ڈونگری کے کھڑک علاقے میں اسماعیلیوں کا وہ قدیم جماعت خانہ ہے جہاں وہ اپنی عبادات بجالاتے ہیں ۔
ڈاکٹر نور الدین ہیرانی ٹی ایس آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’پرنس کریم آغا خان ہمارے 49 ویں امام ہیں جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو ہم اپنا پہلا امام تسلیم کرتے ہیں ،11جولائی 1957؁ کو کریم آغا خان کی تخت نشینی ہوئی جبکہ گذشتہ سال ان کی امامت کے 50سال مکمل ہونے پر کمیونیٹی نے گولڈن جبلی منایا۔ آج 13 دسمبر ہے اور آغا خان کی سال گرہ ہے لیکن ممبئی حادثات کی وجہ سے ہم نے پورا پروگرام ہی منسوخ کردیا ہے‘‘ ہیرانی نے تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’’ ممبئی میں ہماری آمد کی تاریخ 1801 سے 1810 کے قریب ہے جبکہ 19ویں صدی کے اوائل میں آغا حسن علی شاہ ہندوستان آئے اورممبئی میں سکونت اختیار کرلی ، امام کے آنے کے بعد پوری دنیا کے لوگ ممبئی تشریف لانے لگے اور ڈونگری سے رے روڈ تک کا علاقہ ان کی آبادی سے پُر ہوگیا ، لیکن جب 48 ویں امام سرسلطان محمد شاہ آغا خان نے یورپ ہجرت کی تویہاں کی آبادی بھی دوسرے ممالک میں منتقل ہونے لگی ، ہجرت کا عالم یہ ہے کہ ہر ماہ لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جاتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
ڈاکٹر ہیرانی کہتے ہیں ’’ مصر کا دوراسماعیلیوں کے لئے سنہری دور تھا لیکن انیسویں صدی آتے آتے کافی چیزوں میں تبدیلی رونما ہوگئی ، البتہ ممبئی ہمارے لئے فال نیک ثابت ہوا ، آغا حسن علی شاہ نے جب ممبئی میں قدم رکھا تو انھوںنے سماجی وفلاحی کاموں کو فوقیت دی ۔ گوکہ اسماعیلی تجارتی قوم ہے اور اس کا ہر فرد خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا تجارت کو ہی فوقیت دیتاہے البتہ اس معاملے میں بھی ہمارے آغا خان کا کردار کلیدی رہا ہے ۔ آغا خان نہ صرف دینی رہنماء ہیں بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی وہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں ‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ ممبئی کے اکثر تجارتی مراکز پر آپ کو اسماعیلیوں کی بڑی تعداد نظرآئے گی ۔ Development & Credet Bank کے آغاز میں اگر اسماعیلیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے تو اس کے ابتداء کی داستان بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔
ڈاکٹر ہیرانی کہتے ہیں ’’ جب لوگ دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تو انہیں پیسوں کی ضرورت پڑی لہٰذا آغاز میں چھوٹے موٹے فلاحی ادارے قائم کئے گئے جیسے مصالحہ والا سوسائٹی وغیرہ بنائی گئی اس کے بعد چھوٹے موٹے کوپریٹیو بینک کی بنیاد ڈالی گئی لیکن جب سوسائٹی نے مزید ترقی کی تو اسے باقاعدہ DCB کی شکل دے دی گئی جس کے فی الحال چیئر مین ناصر منجی ہیں ۔‘‘
آخر اسماعیلیوں کی ترقی کا راز کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ہیرانی نے ٹی ایس آئی سے کہا کہ ’’اسماعیلی تعلیم کو فوقیت دیتے ہیں ، ہر اسماعیلی آج Well Stablished اس لئے بھی ہے کہ اس نے تعلیمی تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ سرسلطان محمد آغا خان نے بچیوں کی تعلیم کے لئے جہاں گرلس اسکول کی بنیاد ڈالی وہیں ہمارے امام نے ادارہ جاتی کاموں کے ذریعہ سماج کی ترقی اور اسلام کی ترقی کا فرمان جاری کیا۔ آغا خان کا فرمان ہے ’’ہر ملک الگ ہے جبکہ مذاہب بھی جدا گانہ ہیں لہٰذا آپ جس ملک میں بستے ہیں اس ملک کے تقاضوں کا پاس ولحاظ رکھیں ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہم نے جہاں آغاخان اسکول، آغا خان ہاسپٹل ، ہاؤسنگ سوسائٹی، آغا خان پلاننگ وبلڈنگ اسکیم جیسے پروگراموں کا آغاز کیا وہیں دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات جیسے بیت الخلاء وغیرہ کا نظم کرنے میں بھی خاطر خواہ خدمات انجام دیا ہے ۔ سونامی اور زلزلہ کے وقت جب لوگ پریشان حال تھے ہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔ رولر سپورٹ پروگرام اور آغاخان فاؤنڈیشن نے اسماعیلی سماج کو آگے بڑھانے میں اہم کارنامہ انجام دیا ہے جبکہ سماج سے وابستہ لوگوں نے بلامعاوضہ کام کرکے ترقی کی راہیں استوار کی ہیں ۔ ‘‘
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عقیدہ وعبادت، کلچر وثقافت کے معاملے میں داؤدی بوہرے اسماعیلیوں سے زیادہ حساس ہیں ۔ شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے داؤدی بوہرے یوں تو گجراتی مسلمان ہیں البتہ ان کی تاریخ 11 ویں اور 12 ویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب 11 ویں فاطمی خلیفہ نے مصر میں اپنی حکومت قائم کی ، یہ وہی دور تھا جب لوگ اس فرقے کی طرف راغب ہوئے ۔ مصر اور یمن میں اپنی شاندار تاریخ رقم کرنے والا یہ گروہ جب ہندوستان آیا تو انہوں نے گجراتی ویشیہ اوربرہمن کو اپنے مذہب میں داخل کرلیا ، سرراجے سنگھ کا زمانہ گجرات میں تبدیلیٔ مذہب کے اعتبار سے کافی اہم سمجھا جاتا ہے ۔
دعوت ہدایہ بدری محل میں میڈیا انچارج راغب قریشی ٹی ایس آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’بنیادی طور پر ہماری خمیرمیں یہاں کی مٹی رچی بسی ہے ہمارے آباء واجداد نے اسلام قبول کیا اور ہمیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا ورنہ ہمارے بیشتر لوگ یا تو ویشیہ تھے یا برہمن‘‘
راغب داؤدی بوہروں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’’سیدنا محمدبرہان الدین طعش ہمارے 52 ویں امام ہیں جنہیں 1965؁ میں جب وہ محض 53 سال کی عمر کے تھے ’’داعی مطلق‘‘ کا لقب دیا گیا جبکہ ان کی پیدائش گجرات کے شہر سورت میں 6مارچ 1915؁ کو ہوئی ہے ۔ ‘‘
داؤدی بوہروں نے بھی سماج کی ترقی کے لئے تعلیم کو کافی اہمیت دی ہے ۔ سیدنا برہان الدین کا فرمان ہے ’’ علم ہماری میراث ہے لہٰذا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی پیڑھی کی بہتری کے لئے بھی اس کی حفاظت کریں ۔ ‘‘اپنے لباس ، طور طریقے اور چال ڈھال سے قدامت پرست نظر آنے والے داؤدی بوہرے ایسا نہیں ہے کہ محض دینی موشگافیوں میں ہی اپنا وقت ضائع کردیتے ہیں بلکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے بھی انھوں نے خاطر خواہ کام کیا ہے ۔ سیدنا برہان الدین کے مطابق ’’ دنیا ترقی پذیر ہے جب کہ علم میں بھی روز بروز تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں لہٰذا پرسکون اور قابل احترام زندگی کے لئے نہ صرف فکر وفلسفہ کا جاننا ضروری ہے بلکہ جدید سائنسی وصنعتی ترقی سے ہم آہنگ ہونا بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ ‘‘
غالباً ’’امام مطلق‘‘ کا یہی وہ فرمان ہے جس نے اس کمیونیٹی کو ہر جگہ نمایا ں وممتاز رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ چرنی روڈ پر واقع 100 کروڑ 50 لاکھ کی لاگت سے بنے ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے 4جون 2005 ؁ کو وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ جب میں صدیوں پر محیط ہندستانی تہذیب کا جائزہ لیتاہوں تو مجھے ڈاکٹر سر محمد اقبال کی یہ نظم یاد آتی ہے ۔ جو انہو ں نے ہندستانی تہذیب پر کہی تھی۔ انہوںنے کہا تھا کہ
مٹ گئے مصر، یونان و رو ما
لیکن اب تک ہے قائم نام ونشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورزماں ہمارا
غالباً ہماری تہذیب وثقافت کے زندہ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ صوفیوں اور سنتوں کی سرزمین رہی ہے یہاں ایسے فلاسفہ پیدا ہوئے ہیں جنھوںنے اسے محفوظ رکھا ہے، داؤدی بوہرہ کمیونیٹی بھی انہیں لوگوں میں ہے ۔ جنہوںنے یہاں کی مٹی کو امن وآشتی کا گہوارہ بنائے رکھا ہے ‘‘
وزیر اعظم کے اس خطاب میں ہی وہ بنیادی بات ہے جو اس کمیونٹی کی ترقی کے راز کو افشا کرتی ہے ۔
تجارت کے بل بوتے پوری دنیا میں اپنی علیحدہ شناخت قائم کرنے والے داؤدی بوہرے نہ صرف ممبئی کی اقتصادیات پر اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ سماجی و فلاحی کاموں کے ذریعہ بھی انہوں نے پیشتر لوگوں کو اپنا گرویدہ کر رکھا ہے ۔
راغب قریشی کہتے ہیں’’ سماج کے ہر طبقے کو آگے بڑھانے کے لئے ہم اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں ، جبکہ بوہرہ فرقے سے وابستہ لوگ آپس میں ہی اس قدر مربوط ہیں کہ انھیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ ممبئی کے علاوہ پورے ہندستان میں کسی بوہرہ بھکاری کو تلاش کرنا چاہیں تو آپ کو نامرادی ہاتھ لگے گی ۔ سیاسی ، سماجی، معاشی اور تعلیمی طورپر انتہائی منظم ومضبوط یہ فرقہ بہتر طورپر اپنی زندگی اس لئے بھی بسر کررہا ہے کہ یہ اپنے امام کی بلاچوں و چرا اطاعت کرتا ہے ، اپنے امام و داعی سے ان کا لگاؤ اس مقنا طیس کی طرح ہے جو ایک مرتبہ چپکا نے کے بعد جدا نہیں کرتی، جبکہ داعی وامام بھی کمیونیٹی کی ترقی کے لئے وہ تمام اقدامات کرتے ہیں جس کی فی الحال ضرورت ہوتی ہے ۔ ممبئی میں واقع بیشتر اسکول ،کالج ، ہاسپٹل،فلاحی ادارے ، شاپنگ مالس ، راہ چلتے لوگوں کونہ صرف داؤدی بوہروں کی ترقی کا مژدہ سناتے ہیں بلکہ اس بات کی دعوت بھی دیتے ہیں کہ کاش لوگ ان تعلیمات کو اختیار کریں جس کا سِرا پاکرآج یہ کمیونیٹی ترقی کی معراج پر فائز ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *