رمضان کے مہینے میں خود کو بدلنے کے لیے کچھ اہم فیصلے کریں

پڑھا لکھا نوجوان دوسروں کو ماہر اور تعلیم یافتہ بنائے

نیلوفر حبیب
نیلوفر حبیب

ڈاکٹر نیلوفر حبیب

رمضان کے مہینے میں پوری دنیا مسلمانوں کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ غیر مسلم دنیا کو حیرانی ہوتی ہے کہ اس شدت کی گرمی میں بغیر کچھ کھائے پیے اور بغیر کسی طرح کی تفریح کے خدا کی عبادت کرتے ہوئے مسلمان روزے رکھ رہا ہے۔ مسجدوں کے دروازوں کے باہر بہت سے غیر مسلم بیمار بچے، عورتیں اور مرد نماز کے بعد نمازیوں سے دعا پھونکوانے کے لیے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ سب ہر مسلمان کو سکون دیتا ہے۔ سب دیکھتے ہیں کہ کسی سے نہ لڑائی نہ جھگڑا بلکہ محبت اور پاکیزگی کے ساتھ مسلمان رمضان کا پورا مہینہ گزارتا ہے۔ ہر وقت اسلام کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ سبھی لوگ آخرت کے لیے بہتر کرنے اور اپنی روح کو سکون دینے کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کی جستجو میں ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے رمضان کا یہ مہینہ عہد اور ترغیب کی مثال بن جائے تو کیا ہی بہتر ہو؟ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان اور پیشے اور مال و اسباب کے حساب سے مضبوط مسلمان کچھ خاص فیصلے کر لیں تو اس سماج کی بے بسی اور مفلسی کے بادل چھنٹنے لگیں گے۔ ہمارے ملک میں سکھوں کی چھوٹی سی آبادی ہے۔ اس قوم کے لوگ عام طور پر بھیک مانگتے نہیں ملتے۔ اگر کوئی ملتا ہے تو اسے بافیض سکھ اپنے ساتھ لے جا کر کام پر لگوا دیتا ہے۔ مسلمان بھی چند چھوٹے چھوٹے فیصلے لے کر اپنی قوم کے لیے بڑے کام کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہر پڑھا لکھا نوجوان یہ نیت کرے کہ وہ کم از کم ایک بچے کو اس کی پڑھائی لکھائی میں اتنی مدد کرے گا کہ وہ پڑھے لکھے لوگوں کی گنتی میں آ جائے۔ سماج کا تکنیکی طور سے مضبوط نوجوان اس بچے کو تکنیکی تعلیم میں بھی مضبوط بنائے اور اسے سماج میں بہتر مقام حاصل کرنے کے لیے رہنمائی کرے۔ اسی طرح مالی طور پر مضبوط اور باروزگار مسلمان پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں مدد کرے اور اسے صحیح راستہ بتائے۔ تعلیم و تربیت کے لیے نئے نئے ادارے قائم کرے اور اپنے موجودہ اداروں کو بہتر بنانے کی مہم چلائے۔ ان اداروں سے ہنرمند اور باصلاحیت نوجوانوں کو جوڑے۔ ہنر اپنے پاس نہ ہو تو دوسروں کے ہنر سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
سبھی جانتے ہیں کہ پسماندہ اور نچلے طبقہ کے لوگوں کے لیے حکومت نے سماجی فلاح کے جو منصوبے بنائے ہیں، ان منصوبوں کی جانکاری انھیں نہیں ہے۔ اس سماج کا بڑا حصہ ابھی اپنے کاموں کے لیے دفتروں کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ اسے پتہ نہیں کہ کس کام کے لیے کہاں جانا ہے۔ کارپوریشن کونسل اور ممبر اسمبلی اپنے مفاد کے نظریے سے ہی اس کی محدود مدد کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے اور سرکاری کاموں کے طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ بہت کچھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مبنی ہو چکا ہے۔ 80-90 فیصد کام اب انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ہو جاتے ہیں۔ پسماند ہ طبقات کو ابھی اس کی مکمل جانکاری نہیں ہے اور نہ ہی اس کا استعمال کرنا انھیں آتا ہے۔ نوجوان مدد کے لیے اپنے سماج میں ایک سماجی گروپ بنا سکتے ہیں جس کے ذریعہ اطلاعات مہیا کرائے جائیں اور اس طرح کے ہیلپ سنٹرس کا کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ہیلپ سنٹرس اپنے اپنے علاقوں میں سماجی فلاح کے منصوبوں کو نافذ کرانے کے لیے کیمپوں کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ ان کیمپوں میں روزگار کے مواقع کی جانکاریاں، روزگار کے لیے قرض دینے کا انتظام اور مختلف طرح کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ ایسے ہیلپ سنٹرس اپنی خاص نوعیت کے ہیلپ سنٹرس کا ایک علیحدہ نیٹورک بھی قائم کر سکتے ہیں۔
اچھے انسان بنانے کا کام کرنے والی تبلیغی جماعتوں کو مذہبی نشر و اشاعت کے ساتھ اس رمضان میں کم از کم ایک اور کام کرنا چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی پیغامات کے ساتھ یہ بھی پیغام دیں کہ مسلم سماج صرف نجی صاف صفائی تک محدود نہ رہے بلکہ ہر شخص طے کرے کہ وہ اپنے گھر کے آس پاس کوڑا کچرا پھیلنے نہیں دے گا۔ بہت سی بستیوں میں حالت یہ ہے کہ صبح صبح یا دیر رات گلیوں و سڑکوں سے گزرا نہیں جا سکتا۔ گلیاں اور سڑکیں کوڑے کچرے کی تھیلوں و تھیلیوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ حالات ایسے بھی ہیں کہ کوئی اس بات کی گارنٹی نہیں لے سکتا کہ راستے میں گزرتے وقت کسی کھڑکی اور دروازے سے کوڑے کی تھیلی کہاں گرے گی۔ صفائی اگر نصف ایمان ہے تو ہمیں نہ صرف اپنی خود کی صاف صفائی پر دھیان دینا ہوگا بلکہ اپنے آس پاس کی صفائی بھی کرنی ہوگی۔ یہ صاف صفائی ملازمین پر ہی منحصر نہ ہو بلکہ ہم بھی اپنے آس پاس صاف صفائی رکھ کر صاف ہوا کے لیے راہ ہموار کریں۔ ایسا کر کے ہم طرح طرح کی بیماریوں سے بھی بچیں گے۔
مذہب کی تشہیر کرنے والوں کو اس بات پر بھی دھیان دینی ہوگی کہ گلی اور سڑکوں پر چلنے یا گاڑی چلانے کا صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ دوسروں کا بھی برابر کا حق ہے۔ اس لیے راہ گیروں کو گزرنے کے لیے راستہ دیں۔ دوسری گاڑیوں کو رکنے اور چلنے دینے کے لیے مناسب راستہ چھوڑیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسرے مذہب کے لوگ بھی ہمیں محبت کی نظر سے دیکھیں۔ آج کل سبھی مسجدیں اور درگاہیں نمازیوں سے بھری بھری نظر آ رہی ہیں۔ پورے سال سنسان سی رہنے والی مسجدیں بھی خاصی آباد ہیں۔ ہماری بھیڑ کو دیکھ کر لوگ گھبرائیں نہیں، یہ بات بھی ہمیں دھیان میں رکھنی چاہیے۔ ریڈیو ٹیلی ویژن کے اس دور میں بہت سے لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ مسلم علاقوں میں ریڈیو اور ٹی وی پوری طرح سے بند ہیں۔ سیٹ ٹاپ باکس کا کنکشن کیبل آپریٹر کے سرے سے بند ہیں۔ کئی لوگوں نے ذاتی طور پر اپنے ٹی وی کنکشن اور ریڈیو بند کر دیے ہیں۔ ہم اس قدر پابندہیں اپنے مذہب پر اور خود پر قابو کی ہر حالت کے لیے تیار ہیں۔ یہ ملک کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا پیغام سبھی تک جانا چاہیے۔ ہمیں اپنی تنگ بستیوں کے تنگ نظریے سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا۔ اپنے بقیہ سماج کو بتانا ہوگا کہ تنگ حالی میں بھی صاف ستھری اور باوقار زندگی گزارنے کو تیار ہیں۔ ہمیں اس پاک مہینے میں اپنے سماجی طرز زندگی کو بدلنے کا فیصلہ تو لینا ہی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *