
معصوم فلسطینیوں کا قتل عام اور امت مسلمہ کی خاموشی
ڈاکٹر اے ایچ خان، نئی دہلی
اسرائیل نے غزہ پر شدید فوجی کارروائی کرتے ہوئے متعدد معصوم بچوں و خواتین سمیت 30 سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔اس بمباری میں 100 سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حملے لگاتار جاری ہیں۔کچھ دنوںقبل تین یہودی نوجوانوں کے اغوا کا جھوٹا الزام لگا کر اسرائیلی فوجوں نے ایک فلسطینی نوجوان ابو خضیر کو گرفتار کر کے زندہ جلادیا اور اس کے بعد سے اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے خلاف آگ کا دہانہ کھول دیا ہے اور ابھی تک سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اس طرح کی فوجی کارروائی کو کسی بھی قیمت پر جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے آگے نہ امریکہ زبان ہلاتا ہے اور نہ ہی مصر جیسے مسلم ملک کو یہ توفیق ہے کہ وہ اپنا منہ کھولے ۔مصر میں تختہ پلٹنے کے بعد وہاں کے موجودہ فرمانروا اسرائیل نواز ہیں۔سال 2009 کے آغاز میں بھی اسی طرح کی کارروائی میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے تھے اور پوری دنیا نے اس قتل و غارت گری کا تماشا دیکھا تھا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ پورا عالم اسلام اسرائیل کی اس درندگی پر خاموش ہے۔ اسرائیل کی درندگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ معصوم بچوں کو بھی نہیں بخش رہا ہے۔ابھی دو روز قبل ہی ایک تصویر سوشل میڈیا میں گردش کر رہی تھی جس میں ایک زخمی بچہ دیکھایا گیا تھا جو مرنے سے پہلے یہ کہتا ہے کہ میں خدا کے پاس جاکر سب بتائوں گا۔ یہ تصویر دیکھ کر کون پتھر دل انسان ہوگا جس کی آنکھیں نہ چھلک جائیں۔اسرائیلی کارروائی میں شہید ہونے والے بچوں میں کچھ کی عمریں سات سے دس برس کی بھی ہیں ۔
1993 میں جب فلسطین کی طرف سے یاسر عرفات اور اسرائیل کی طرف سے اسحاق رابن کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا تھا تو ایسا لگا تھا کہ اب یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا اور فلسطینیوں کو اپنی زمین واپس مل جائے گی لیکن ایسا ہو ا نہیں۔اسحاق رابن کے مرنے کے بعد ایہود براک اور یاسر عرفات اس معاملے کے حل کے لئے کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ جاری رہا۔سن 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود براک اور فلسطینی صدر یاسر عرفات کے درمیان کیمپ ڈیوڈ امن اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کے بعد معاہدے کے لئے جو باتیں سامنے رکھی گئیں ان میں فلسطینی خطے کا زیادہ تر حصہ اسرائیل کو دینے کی بات کہی گئی تھی اس لئے یاسر عرفات نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ امن عمل بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا۔
فلسطین پر حملوں کا اندیشہ کافی دنوں سے کیا جارہا تھا لیکن تازہ حملوں کے تعلق سے اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے اس لئے کئے جا رہے ہیں تاکہ فلسطین کی جانب سے حماس کے زریعہ کئے جانے والے راکٹ حملوں کو روکا جا سکے اور حماس کو تباہ کیا جاسکے۔حالانکہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کے کئی معاہدے ہوچکے ہیںلیکن کچھ ماہ تک دونوں اس معاہدے پر قائم رہتے ہیں اور پھر سے قتل وغارت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ اسرائیلی حملوںکے جواب میں حماس نے بھی حملے شروع کر دیے اور راکٹ سے کئی اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنایا جسے دیکھ کر اسرائیلی فوج کو جھٹکا تو لگا لیکن ظاہر ہے کہ ان کے حملوں کے سامنے حماس کے حملے کہاں ٹھہرنے والے۔ اسرائیل کے فضائی حملوں کا حماس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور آج سچائی یہ ہے کہ اسرائیلی حملوں میں نہتے فلسطینی شہید ہورہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو اور وزیر داخلہ اسحاق اہرنووچ نے حماس کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے لیڈروں کے گھروں کو نشانہ بنا کر حملے کر رہا ہے لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ حملوں میں زیادہ تر معصوم اور بے گناہ عام شہری ہلاک ہورہے ہیں۔اس دہشت گردی پر پوری دنیا خصوصاً امت مسلمہ کی خاموشی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ۔امریکہ ایک طرف تو دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینیوں پر حملوں کو جائز قرار دیتا ہے ۔کیا یہ دہشت گردی کو بڑھاوا دینا نہیں ہے۔اس طرح کے حملوں کو کھلی کھلی دہشت گردی نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔غزہ پٹی کی آبادی اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی انسانی بحران سے دوچار تھی ان حملوں کے بعد وہاں کے حالات مزید بدتر ہوگئے ہیں۔اگر کچھ دنوں تک یہی حالات رہے تو وہاں کی آبادی بھوکوں مرنے پر مجبور ہوجائے گی۔
ان حملوں کے خلاف تمام ممالک کو یک آواز ہوکر بولنے کی ضرورت ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عراق میں ہورہی حالیہ خانہ جنگی پر پوری دنیا سراپا احتجاج ہے اور امریکہ و برطانیہ سمیت سبھی بڑے ملکوں نے مذمت کی ہے۔لیکن آج جب بے گناہ فلسطینی مارے جارہے ہیں تو امریکہ اور برطانیہ چپ کیوں ہیں۔کیا انہیں ظلم و بربریت کا یہ ننگا ناچ نہیں دکھائی دے رہا ہے؟کیا انہیں یہ قتل عام نظر نہیں آرہا ہے۔امت مسلمہ کے بڑے ممالک کیوں خاموش ہیں؟کیا یہ دوہرا معیار نہیں ہے۔اقوام متحدہ کو چاہئے کہ اسرائیل پر پابندی عائد کرے اور جلد سے جلد ان حملوں کو روکے۔حماس کو بھی چاہئے کہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر اس معاملے کا کوئی حل تلاش کرے ۔ایسے وقت میں جب کہ پورے فلسطین کو نیست ونابود کرنے کی صیہونی سازش رچ رہے ہیں اور اس کوشش میں بر سرپیکارہیں ،فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو چاہئے کہ وہ اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کریں اور حماس کے ساتھ مل کر ایک ایک ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں جو فلسطینی عوام اور اُس خطے کی بقا کے لئے ہو۔دنیا کے سبھی امن پسندملکوں کو چاہئے کہ ایسے وقت میں معصوم اور نہتے فلسطینیوںکی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں اوراسرائیل کے خلاف آواز بلند کریں۔اگر اسرائیل کو نہیں روکا گیا تو پورا مشرق وسطیٰ جنگ کی آگ میں جھونک دیا جائے گا اور اسمیں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوگا۔