محمد ارشد بن محمد عابد
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے۔ ہرسو اس کا اثر پوری طرح عیاں ہے۔ مومنوں کے چہرے کی رونقیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ اللہ کے خاص فضل و کرم کے سایہ میں وہ اس ماہ مبارک کے لیل و نہار بسر کررہے ہیں۔ ہرشخص اس ماہ مبارک کے ہر آن اور ہرلمحے سے مستفید ہوتے ہوئے اللہ کی خوشنودی ، اپنی مغفرت ، اور اصلاح نفس کا خواہاں ہے۔ سابقہ تمام تر کوتاہیوں سے تائب ہوکر اپنی بقیہ بچی زندگی کو احکام الہی اور نبی رحمت کے بتائے ہوئے طریقے پر گزارنے کا عہد کرچکا ہے۔
رمضان کے اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی اپنے بندوں پر رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اس مہینہ کے آتے ہی رزق کی فراوانی ہرسو دیکھائی دیتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم اپنے قرب وجوار میں پھیلی دکانوں اور مارکیٹ میں کرسکتے ہیں۔ مارکیٹ کی ہردکان مختلف قسم کے سامانوں اور مہنگے سے مہنگے ملبوسات سے سجی ہوئی دیکھائی دیتی ہیں۔ آج جبکہ مہنگائی آسمان چھورہی ہے۔ ہرچیز کی قیمت دوگنی ہوگئی ہے اور خوردنی اشیاء کی قیمتیں لوگوں کے پسینے نکالنے کے لئے کافی ہیں۔ ایسے میں رمضان کے اس مبارک مہینے میں ہرکس وناکس کو بآسانی رزق مہیا ہوجانا اور عام دنوں کے بنسبت بہتراور فراوانی کے ساتھ گزر اوقات کے لئے سامان مہیا ہوجانا یہ رمضان کی سعادت ہی ہے ۔
اس طرح سے اگر ہم رمضان کے اندر اقتصادی پہلو کا جائزہ لیں۔ تو ہمیں یہ بات نظر آئے گی کہ جس طرح معاشرے کا ادنی سے ادنی فرد اس مبارک مہینے کی فیوض و برکات سے پوری طرح مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ہرشخص اپنے پڑوس اور خاندان کے نادار افراد کا خیال رکھتا ہے اور ایسا کرنا ضروری بھی ہے۔ کیوں کہ اللہ رب العزت اور نبی رحمت نے ہمیں اسی کا ہی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اخوت و بھائی چارگی کا درس دیتے ہوئے ایک دوسرے کے تعاون کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی نے اصراف سے بچنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بے جااصراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی پوری زندگی انسانیت کا درس دیا اور لوگوں کو اسی بات کی تعلیم دی کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا واجب ہے۔ آپ اور آپ کے اصحاب کی پوری زندگی اسی کی آئینہ دار ہے۔جب تک ہمارے اسلاف نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ دنیاوی زندگی کو عارضی سمجھتے ہوئے اسے حقیر سمجھا اور اپنی ابدی زندگی کی کامیابی کے لئے سرگرداں رہے اس وقت تک ہم دنیا کے افق پر تابناک ستارہ بن کر چمکتے رہے۔ لیکن جب ہم دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت برتنے لگے۔ دنیا کو اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنالیا۔ اللہ اور اس کے احکامات سے پہلو تہی کرنے لگے تو خدا نے ہمیں ہر محاذ پر ذلیل کردیا۔ دنیا جن پر ہماراتکیہ تھا کے ہاتھوں ہم پر ذلت و رسوائی کی تمام حدیں پار کردیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں رسول اللہ کی وہ نصیحت یاد نہ آئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا تمہارے اوپر ایسے ٹوٹ پڑے گی جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، لوگوں کے استفسار کے بعد آپ نے وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اس وقت ہوگا جب تمہارے دلوں میں دنیا کی محبت جانگزیں ہوجائے گی اور آخرت سے تم بیزار ہوجاؤ گے۔ کیا اب بھی ہمیں اپنے نبی کی اس پیشن گوئی کی صداقت کا انتظار ہے۔
آج جبکہ پوری دنیا کو مختلف قسم کے مسائل درپیش ہیں ، کہیں کساد بازاری کا شکو ہ ہے تو کوئی مالی بحران کا شکار ہے۔ دنیا کی آبادی کا 20 فیصد حصہ بھوک مری کا شکار ہے۔کیا ان سب کے پیچھے یہ بات نہیں کہ ہم نے اپنے نبی کی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا اور بنی اسرائیل کی روش اختیار کرتے ہوئے بے جا ذخیرہ اندوزی کا کام شروع کردیا ہے۔ ہمارے لاکھوں ، کروڑوں اور عربوں روپئے بینک بیلنس ہے لیکن ہمیں اسے بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے معصوموں اور دربدر بھٹکتے مفلسوں کے لئے ہمارے پاس سوائے افسوس کے اورکچھ نہیں۔ ہمارے پاس دنیا کی عیش و عشرت کی تمام چیزیں موجود ہیں جسے ہم اپنے اوپر فراوانی سے خرچ کرتے ہیں۔ ہم اپنے لباس اور کھانے پینے پر نہ جانے کتنے روپئے خرچ کردیتے ہیں۔اس کے علاوہ ہم موبائل ، انٹرنیٹ اور دیگر فضولیات میں نہ جانے کتنا اصراف سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ، کیوں کہ اسے ہم اپنی ضروریات زندگی کے لئے ضروری تصور کرچکے ہیں۔اور دوسروں کی بھلائی کی یاتو ہمیں تربیت نہیں د ی گئی یا پھر ہم جان بوجھ کر دوسروں کی مدد نہیں کرتے ، کیوں اس سے ہمیں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ خواہ ہمارا پڑوسی کئی دنوں سے فاقہ کشی میں مبتلا ہو لیکن ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ہمیں ہاتھ پھیلائے ہوئے مسلم خواتین کی بے بسی پر شرم کے بجائے ہنسی آتی ہے۔ اس کے باوجود کیا ہم یہ کہنے کے حقدار ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان تو دور ہم ایسی صورت میں انسانیت کی حدود سے خارج ہوجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہماری غیرت مرچکی ، ہم ایک مردہ قوم کی صورت زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہم اس جانور سے بھی گئے گزر ہوگئے ہیں جس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ، جو صرف اور صرف اپنی پرواہ کرتا ہے غیروں سے اسے کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔ یقینا ایسے لوگوں کے لئے اللہ رب العزت نے تیسویں پارہ کی سورہ ہمزہ کے اندر اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا کہ مال کو جمع کرنے والوں اور گنتی کی صورت میں تہہ بتہہ رکھنے والوں کے لئے ہلاکت ہے۔اور کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کا یہ مال ہمیشہ ہمیش باقی رہے گا ہرگز نہیں ، بلکہ ان کا یہ جمع شدہ مال جہنم میں پھینک دیا جائے گا اورانہیں کے ذریعہ ان کو تکلیف دی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مال جمع کرتے ہیں اور اس میں سے غریبوں کا حق ادا نہیں کرتے تو ان کایہ مال ایک گنجے سانپ کی صورت میں قیامت کے روز اس کے پاس آئے گا اور اس کے گلے میں لپٹ جائے (جس سے وہ بھاگنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا )لیکن وہ کہے گا میں تمہارا وہی مال ہوں جسے تم جمع کیا کرتے تھے سو آج تم مجھ سے کیوں کر بھاگ سکتے ہو، اور وہ اسے برابر ڈنستا رہے گا۔اتنی سخت وعید کے باوجود ہم دنیا اور دنیاوی جاہ وجلا کے غرور میں اس قد ر مست ہیں کہ ہمیں نہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات یاد ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے مال میں دوسروں کا حق ہے جسے ادا کرنا ہمار فرض ہے ، ورنہ اس کے متعلق ہم سے سوال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ مال اور اولاد یہ اگر دنیاوی زندگی کی زیب و زینت کی حیثیت رکھتے ہیں تو یقین جانو ہم اس کے ذریعہ تمہیں آزمائش میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں۔
ایسی صورت میں وہ لوگ جن پر اللہ کا فضل ہے جنہیں سکون سے دو وقت کی روٹی میسر ہورہی ہے۔ ان کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ ان سے صرف نظر کئے بغیر انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پاس پڑوس ، خاندان اور محلے میں پائے جانے والے نادار افراد کا خیال رکھیں اور اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی مدد کریں کہ ہمارے مال میں ان غریبوں کا حق ہے نہ کہ ہم ان پر احسان کر رہے ہیں۔ یقین جانئے ہماری تھوڑی سی توجہ اور معمولی سی مدد سے ان بے شمار چہروں پر مسکراہٹیں لوٹ سکتی ہیں جورز ق کی کم مائیگی کے شکارہیں۔ہم اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے مارکیٹنگ کرتے وقت انہیں ہرگز نہ بھولیں۔ یقین جانئے دنیا کی ساری دولت مرنے کے بعد دھری کی دھری رہ جائیں گی اور ہمار ے وارثین اس کا من چاہا استعمال کریں گے۔جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔پھریہ کہ دوسروں کی مدد کے ذریعہ جو روحانی سکون کی آپ کو محسوس ہوگی اس کا لطف ناقابل بیان ہے اور اسے وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اسے محسو س کیا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی دولت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے دنیاوی زندگی کے حقیقی سکون کے ساتھ ساتھ آخرت کے لئے توشہ آخرت جمع کرنا چاہئے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔