Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اب بھی نہ جاگے تو

by | Jul 17, 2014

سید خرم رضا

urdu Media

جس میگزین میں کام کرتا تھا وہاں کے مالکان اس بات کو لیکر بہت محتاط رہتے تھے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے خلاف کوئی زیادہ سخت بات نہ لکھی جائے لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ عوام سے جڑے بہت اہم مسئلہ پرایک شاندار کور اسٹوری کی جس پر رپورٹر سے لیکر ڈیزائننگ ٹیم تک نے بہت محنت کی لیکن اس کور اسٹوری کی وجہ سے پریس میں اس شمارے کو روک دیا گیا اور صبح تمام اسٹاف کو دوبارہ آفس بلاکر کور اسٹوری چینج کی گئی اور نئی کوراسٹوری لکھی گئی ۔ ظاہر ہے کور اسٹوری میں کچھ چیزیں اقتدار میں بیٹھے کچھ لوگوں کے خلاف تھیں اور مالکان کو ایسا محسوس ہوا کہ اس اسٹوری کے شائع ہونے سے ادارہ کو اقتصادی نقصان ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایک دن جب میگزین ریلیز ہونے والی تھی تبھی ایک اسٹوری کو تبدیل کرنے کا میسج آیا۔ جب اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو پتہ لگا کہ پوری اسٹوری گوگل سے کٹ پیسٹ ہے اور جس صحافی نے وہ اسٹوری کی تھی اس کو نوکری سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ دو طرح کی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ بنیادی عوامی مسائل سے جڑی اسٹوری پر میگزین چلانے کی اقتصادیات حاوی ہیں اور دوسرا یہ کہ صحافی بھی اب اپنے کام میں ایماندار نہیں ہیں۔ یہ تصویر ہے ہماری موجودہ صحافت کی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوریت میں ذرائع ابلاغ کا انتہائی اہم کردار ہے۔ جمہوریت میں جو اہمیت ذرائع ابلاغ کو حاصل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔صحافت کے میدان میں ملک نے ایک سے ایک مایہ ناز ہستیاں دیکھی ہیں اور ملک پر ان کے عظیم احسانات ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے قومی ذرائع ابلاغ کی اعتباریت پر سوال بھی اٹھنے لگے ہیں ۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو جو اپنے بے باک تبصروں کے لئے جانے جاتے ہیں انہوں نے پریس کونسل کے چیئر مین کی حیثیت سے سال 2011 میں صحافیوں کو لیکر بہت تلخ تبصرے کئے تھے جس میں انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ آج ہمارے صحافیوں کی اکثریت جاہل ہے۔ کوئی تو وجہ رہی ہوگی جو جسٹس کاٹجو کو اتنے سخت الفاظ استعمال کرنے پڑے۔یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں اس پیشہ کی ساکھ پر زبردست اثر پڑا ہے جسکی وجہ سے آج صحافیوں کی وہ عزت نہیں ہے جو اس کو ملتی رہی ہے یا جس کے وہ مستحق ہیں۔اس کے لئے جہاں مارکیٹ کی قوتوں کی بڑھتی دخل اندازی ہے وہیںصحافتی قدریں بھی صحافیوں کے ہاتھوں پامال ہوئی ہیں۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب اخبار کے مالکان اپنے ایڈیٹر کے آگے اپنی مرضی نہیں چلایا کرتے تھے لیکن آج صورتحال بالکل برعکس ہے اور آج ایڈیٹر کی حیثیت ایک ملازم سے زیادہ کی نہیں ہے ۔اس کے لئے بہت سے عوامل ذمہ دار ہیں لیکن صحافتی اقدار میں زبردست گراوٹ ایک بڑی وجہ ہے۔ آج کسی کو یقین نہیں آئے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسے بھی ایڈیٹر تھے جو اپنے رپورٹر کو اس بات کے لئے شاباشی دیا کرتے تھے کہ اس کی اسٹوری پر دفتر کو لیگل نوٹس آیا کرتا تھالیکن آج کا ایڈیٹر اس بات کو لیکر اس کو نوکری سے ہٹانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے ۔ آج کے ایڈیٹر کی نظر میں وہ رپورٹر اچھا ہے جس کے اقتدار کے گلیاروں میں اچھے تعلقات ہوں اور ان تعلقات کی وجہ سے اخبار یا چینل کے ریونیو میں اضافہ ہو اور ضرورت پڑنے پر وزراء اور افسران کے ساتھ مالکان کی ملاقات طے کرا دے۔ ایسے ماحول میں کہاں اچھی اور تعمیری صحافت ہو سکتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب سیاسی رہنمائوںاور افسران کے ساتھ ساتھ عوام بھی صحافیوںکو سنجیدگی سے نہیں لیتی ۔ عوام میں صحافیوں کی ساکھ اب تقریبا نا کے برابر ہے، افسران صحافیوں سے کسی بھی قسم کی معلومات شئیر نہیں کرنا چاہتے اور سیاسی رہنمائوں میں صحافیوں کی مقبولیت کا تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی صحافیوں کو ایک معقول فاصلے پر رکھتے ہیں۔ اپنے بھوٹان اور برازیل کے دوروں میں وہ دوردرشن اور پی ٹی آئی کے صحافیوں کے علاوہ کسی صحافی کو نہیں لیکر جاتے۔ نریندر مودی تو سابقہ روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے دفتر میں بھی کوئی میڈیا ایڈوائزر نہیں رکھنا چاہتے۔نریندر مودی کسی حد تک صحیح ہیں کیونکہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر وں سے ان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ اس کی جیتی جاگتی مثال سنجے بارو ہیں جنہوں نے اپنے اس عہدے کو اپنے قد بڑھانے کے لئے ہی استعمال کیا اور منموہن سنگھ کو تو نقصان ہی پہنچایا۔ عین انتخابی مہم کے درمیان اپنی کتاب کا اجرا کرکے انہوں نے حکمران کانگریس کی انتخابی مہم کو زبردست نقصان پہنچایا۔آج یہ کام ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا ہے کل کو دیگر رہنما اور ادارے بھی ایسا کر سکتے ہیں جس کا سیدھا اثر ملک کی جمہوریت پر پڑے گا۔
بہت تیزی کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی شبیہ خراب ہو رہی ہے اور اگر جلدہی اس سمت سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تو یہ چوتھا ستون چرمرا جائے گا جس سے ہماری جمہوریت کو نقصان ہوگا۔ کسی نہ کسی سطح پر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کس طرح ذرائع ابلاغ پر سے مارکیٹ کی قوتوں کا اثر کم کیا جائے اور ساتھ میں نئی نسل کے صحافیوں کو بھی اچھی اور معیاری صحافت کرنی ہوگی۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...