جہادی سیاست کہیں مغرب اور اسرائیل کی حکمت عملی تو نہیں ہے!

ظفر آغا

سب سے پہلے ایران کا اسلامی انقلاب، پھر جلد ہی سنہ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں مجاہدین کا عروج، اس کے بعد القاعدہ کا قیام اور ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت۔ پھر القاعدہ کا امریکہ پر حملہ اور اب عراق میں البغدادی کے زیر سایہ ’اسلامی خلافت‘ کا قیام۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پچھلے تقریباً چالیس برسوں سے لگاتار اسلام کے نام پر مختلف دہشت گرد گروہوں کا عروج! الغرض پچھلے تیس چالیس برسوں میں عالم اسلام اسلامی حکومت اور خلافت قائم کرنے کو کوشاں ہے لیکن اس اسلامی حکومت کی آڑ میں کم و بیش تمام عالم اسلام میں ایک وحشیانہ دہشت گرد سیاست کا ننگا ناچ ہو رہا ہے۔ گو تمام خود ساختہ جہادی اور اسلامی گروہ نظریاتی سطح پر مغرب اور بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور ان کو نیست و نابود کر دینے کا دم بھرتے ہیں لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ ان تمام دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ وہ افغانستان ہو یا پاکستان، عراق و شام ہو یا سوڈان، تمام اسلامی ممالک میں جہاں یہ جہادی اور خلافت کا دم بھرنے والی عادتیں اپنے عروج پر ہیں، ہر جگہ مسلمان خود مسلمان کا قتل کر رہا ہے۔
آخر یہ کون سا جہاد ہے جو مسلمان کو مسلمان کا خون بہانے کی اجازت دیتا ہے! یہ کیسے جہادی ہیں جو فلسطین میں سینکڑوں معصوم فلسطینیوں کی قتل وغارت گری کے باوجود افغانستان، پاکستان اور عراق میں مسلمانوں کا قتل کرتے پھر رہے ہیں، لیکن غزہ جا کر فلسطینیوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہیں! آخر کیوں؟ ان کو اب اسرائیل کے خلاف غصہ کیوں نہیں آتا ہے! ان کی اسلامی غیرت کو اب کیا ہو گیا ہے! آخر اب یہ جہادی قبلہ اول کے فلسطینی محافظوں کی مدد کے لیے آگے کیوں نہیں آتے ہیں! راقم کی رائے موجودہ صورت حال میں یہ سب سے اہم سوال بن گیا ہے کہ خود کو جہادی کہنے والے دہشت گرد گروہ آیا مسلم مفاد کی سیاست کر رہے ہیں یا پھر جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی سیاست سے خود مغرب اور اسرائیل کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ذرا عراق کا منظرنامہ غور فرمائیے۔ ادھر عراق میں البغدادی ایک خلافت کے قیام کا اعلان کرتے ہیں اور سینکڑوں مسلمان ان کی جہادی فوج کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ابھی عراق میں خون خرابہ جاری ہے کہ اس موقع کو غنیمت جان کر اسرائیلی فوجیں غزہ پر شدید حملہ کر دیتی ہیں۔ اس حملے کا بنیادی مقصد حماس کی کمر توڑنا ہے۔ فلسطینیوں کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ حماس کا نام لینا بھول جائیں۔ آخر اسرائیل کی حماس سے یہ دشمنی کیوں؟ حماس خود کو ایک اسلامی تنظیم کہتی ہے، اس کے علاوہ حماس نے آج تک اسرائیل کے قیام کو تسلیم نہیں کیا ہے، پھر ابھی پچھلے ماہ حماس اور فلسطین کے صدر محمود عباس اور پی ایل او کے سربراہ کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا تھا جس میں دونوں فلسطینی تنظیموں کا ایک ساتھ مل کر فلسطین کے حق میں کام کرنے کی بات طے ہو گئی تھی۔ بس ادھر فلسطینی ایک ہوئے اور ادھر اسرائیلی غزہ میں در آئے اور حماس کی تباہی شروع کر دی۔ اگر عراق خود ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو رہا تھا اور عالم اسلام متحد ہوتا تو اسرائیل کے لیے اس طرح غزہ پٹی میں معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کوئی آسان بات نہ ہوتی۔ اب یہ عالم ہے کہ عراق تین ٹکڑوں میں تقسیم کی کگار پر ہے۔ ایک جانب البغدادی کی خلافت ہے تو دوسری جانب عراق میں المالکی کی حکومت ہے اور تیسری جانب کرد عراق سے الگ ہونے کو تیار ہیں اور کردستان میں اسرائیل اپنا فوجی اڈہ بنانے کو تیار بیٹھا ہے کیونکہ اسرائیل نے کردستان کے قیام کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور دونوں جگہوں کے سیاستدانوں کے آپس میں بہترین تعلقات ہیں۔ الغرض اس بات کے امکان اب واضح ہیں کہ جلد ہی اسرائیلی فوج عراق میں اپنا فوجی اڈہ قائم کرے گی۔ اب ذرا غور کیجیے کہ البغدادی کے جہاد سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا۔۔۔ مسلمانوں کو یا پھر اسرائیل کو!
اسی طرح افغانستان پر ایک نگاہ ڈالیے۔ سنہ 1980 میں افغانستان میں سوویت یونین کے حملے کے بعد سے اب تک لامتناہی جہاد جاری ہے۔ کوئی تیس برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ پہلے مجاہدین نے امریکہ کی مدد اور پاکستان کی فوجی ٹریننگ سے سوویت یونین کے خاتمے کے لیے دنیا بھر سے مجاہدین اکٹھا کیے۔ مجاہدین نے سوویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر ہی نہیں کیا بلکہ سوویت یونین کو ختم کرنے میں بھی اہم ترین رول ادا کیا۔ مجاہدین کے اس جہاد کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا! عالمی سیاست میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سوویت یونین امریکہ کا دشمن تھا۔ دنیا میں دو برابر کی عالمی طاقتیں موجود تھیں جس کے سبب امریکہ دنیا میں کہیں بھی افغانستان اور عراق جیسے حملے کرنے سے معذور تھا۔ مجاہدین کے جہاد نے پہلے سوویت یونین کی کمر توڑ دی اور پھر اس کے بعد سوویت یونین بکھر گیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا! افغانستان میں تب سے آج تک لاکھوں معصوم مسلمان افغانی جان گنوا چکے ہیں۔ پھر پاکستان میں روز مسلمان بم دھماکوں میں مارے جا رہے ہیں۔ وہ افغانستان ہو یا پاکستان یا عراق، ان تمام جگہوں پر امریکی فوجی اڈے بن چکے ہیں۔ اگر آج سوویت یونین ہوتا تو کیا امریکہ افغانستان اور عراق پر حملہ کر سکتا تھا۔ محض عراق پر امریکی حملے میں لاکھوں مسلمان عراق میں مارے گئے اور آج تک عراق میں محض قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ حد یہ ہے کہ عراق تین حصوں میں بٹ کر مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا جس کا فائدہ محض امریکہ اور اسرائیل کو ہوگا۔ لب لباب یہ کہ مجاہدین اور طالبان کی سیاست سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اوراسرائیل کو ہوا۔ آج صدام حسین زندہ ہوتے تو اسرائیل کی مجال تھی کہ فلسطین پر ایسا حملہ ہوتا جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے؟ کیا عراق اس طرح ٹکڑوں میں بٹ کر بکھر جاتا جیسا کہ اس وقت عراق میں ٹکڑوں میں بٹ رہا ہے! آخر مجاہدین، طالبان اور البغدادی کی سیاست سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا یا پھر امریکہ اور اسرائیل کو فائدہ ہوا؟ اس کا فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہوگا۔
اب ایک نگاہ ’مجاہد اعظم‘ القاعدہ کے بانی اوسامہ بن لادن کی جہادی سیاست پر ڈالیے۔ اوسامہ بن لادن کا سب سے بڑا کارنامہ 9/11 یعنی امریکہ پر جہادی حملہ کہا جاتا ہے۔ راقم اس مضمون میں عرض کر چکا ہے کہ 9/11 کے حملے کے بعد امریکہ نے جس طرح افغانستان اور عراق پر حملہ کیا اس سے افغانستان اور عراق میں جو تباہی و بربادی ہوئی اس کا اندازہ تو تمام مسلمانوں کو اب ہو چکا ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 9/11 کے حملے کے بعد ساری مغربی دنیا نے اپنے میڈیا کی بھرپور طاقت کا استعمال کر پورے اسلام کو نعوذباللہ ایک دہشت گرد مذہب کا رنگ دے دیا۔ آج ساری دنیا میں مسلمان وحشی اور دہشت گرد قوم بن کر رہ گئی ہے اور یہ سب کچھ 9/11 کے حملے کے بعد ہوا۔ اس سے سب سے زیادہ فائدہ اسلام دشمن قوتوں کو ہوا۔
یہ ہے جہادی سیاست کا لب و لباب۔ آج فلسطین پر بمباری ہو رہی ہے اور دنیا میں کوئی ملک فلسطینیوں کی حمایت کو تیار نہیں ہے۔ جہادی سیاست نے پچھلے تیس برسوں میں پوری مسلم قوم کو دہشت گرد کی امیج دے دی اور ساتھ ہی اسلام کو بدنام کیا۔ ساتھ ہی سارے عالم اسلام میں دہشت پھیل گئی اور مسلمان خود کے ہاتھوں مارا جانے لگا۔ صرف اتنا ہی نہیں کم و بیش تمام عالم اسلام میں امریکی فوجی اڈے بن گئے اور اب مسلم ممالک عراق کی طرح کتنے ٹکڑوں میں بٹ جائے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ لیکن جلد ہی مسلم ممالک ہند و پاک کی طرح تقسیم بھی ہوں گے اور پھر امید اس بات کی بھی ہے کہ چھوٹے چھوٹے کردستان جیسے ممالک میں اسرائیل اپنے فوجی اڈے قائم کرے گا۔ جہادی اور دہشت گرد سیاست کہیں مغرب اور اسرائیل کی حکمت عملی تو نہیں ہے! اس سوال کا جواب عالم اسلام کو تلاش کرنا ہوگا ورنہ عراق کی طرح نہ جانے کتنے اسلامی ممالک بکھر جائیں گے اور مسلمان کف افسوس ملتا رہ جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *