Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ہندوستانی زبانوں کی بنیاد پر کب کھڑی ہوگی ملک کی حکومت

by | Jul 20, 2014

یو پی ایس سی پر انگریزی کا قبضہ رکھ کر ملک کی صلاحیتوں کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے

نیلوفر حبیب

نیلوفر حبیب

ڈاکٹر نیلوفر حبیب

ملک کو آزاد ہوئے 67 سال ہونے کے باوجود ہندوستان انگریزی زبان کی غلامی کے لیے مجبور ہے۔ ملک میں مختلف نظریات رکھنے والی پارٹیوں اور تنظیموں کی قیادت ہونے کے باوجود ملک میں انتظامی خدمات میں ہندوستانی زبانوں کو صحیح مقام آج تک نہیں ملا ہے۔ اس کی تازہ مثال یو پی ایس سی (یونین پبلک سروس کمیشن) کا امتحان دینے والے امیدواروں کی تحریک ہے۔ یہ تحریک اپنی تازہ شکل میں بھلے ہی نئی نظر آتی ہے لیکن یہ ہندوستانی زبان کے ساتھ کیے جا رہے لگاتار سوتیلے سلوک کے تئیں کھلا احتجاج ہے۔ یو پی ایس سی کے امتحانات میں انگریزی کے لزوم کو ختم کرنے اور ہندوستانی زبانوں کو قائم کرنے کے لیے جنگ نئی نہیں ہے۔ اس جنگ کے سبب ہی 18 جنوری 1968 کو ہندوستانی پارلیمنٹ نے ایک صوتی ووٹ سے ایک پارلیمانی عزم پاس کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ جو بھی اسٹوڈنٹ جس زبان سے پڑھ رہا ہے یا پڑھے گا، اس کی صلاحیت کا اندازہ اسی کی زبان میں کیا جائے گا۔ اس عزم کے باوجود انتخابات ہوتے رہے، کتنی پارلیمنٹ بنی اور ختم ہوئی لیکن ایسا آج تک نہیں ہوا ور نہ ہی ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں 1976-77 کے آس پاس جے پرکاش نارائن تحریک اور سماجوادی کارکنوں اور لیڈروں نے ’چھاتر یوا آندولن‘ کے دوران اس معاملے کو بھی اٹھایا تھا لیکن اس تحریک کے بعد جب ان لیڈروں کی حکومت قائم ہوئی تو یہ مطالبہ کہیں گم سا ہو گیا۔ اتنی بڑی تحریک کو ملک کے کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ اسی مطالبہ کے پیش نظر 16 اگست 1988 سے پشپیندر چوہان نے آل انڈیا لینگویج پریزرویشن ایسو سی ایشن کے بینر تلے یو پی ایس سی کے صدر دروازے پر دھرنا دیا۔ پارلیمنٹ کے اس عزم کو نافذ کرانے کے لیے دنیا کا سب سے طویل ترین دھرنا 1988-2002 تک چلا۔ اس دھرنے میں ملک کے دیگر بڑے بڑے لیڈروں کے علاوہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی خود شامل ہوئے۔ یہ وہی اٹل جی ہیں جنھوں نے اقوام متحدہ میں ہندی میں خطاب کرکے ہندوستانیوں کا دل خوش کر دیا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب وہ وزیر اعظم بنے تب ان کی حکومت نے ہی یو پی ایس سی کے صدر دفتر پر چل رہے دھرنے کو ختم کرا دیا اور مطالبہ بھی پورا نہیں کیا۔
اب پھر سے مرکزی حکومت کے وزیر مملکت برائے پرسونل اینڈ ٹریننگ جتندر سنگھ نے لوک سبھا میں کہا ہے کہ حکومت، ایوان کے معزز اراکین اور سول سروس امتحان کے مظاہرہ کرنے والے امیدواروں کو یہ مطلع کرنا چاہتی ہے کہ حکومت کو اس مدعے کی مکمل جانکاری ہے اور اس سلسلے میں حکومت ہمدردانہ رویہ اختیار کر رہی ہے۔ ہم طلبا سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ خود کو غیر ضروری جسمانی اور ذہنی تکلیف نہ پہنچائیں کیونکہ حکومت پہلے ہی ان کے مدعے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ حکومت نے ان کی شکایتوں کی تحقیق کرنے اور اس پر اپنی تجویز دینے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دیا ہے۔ ہم اس معاملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کمیٹی کے اراکین کو اس کارروائی میں تیزی لانے اور جلد از جلد رپورٹ کے لیے لکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم معزز اراکین اور طلبا کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ زبان کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تفریق نہیں ہوگی۔ ہم ان نوجوانوں سے اپنا احتجاجی مظاہرہ ختم کرنے اور روز مرہ کے معمولات پھر سے شروع کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔
سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ یو پی ایس سی کے امتحانات میں انگریزی لازم ہے۔ اس کے خاتمہ کے لیے لڑائی قومی سطح پر جاری رہنا ضروری ہے کیونکہ اب تک کا تجربہ رہا ہے کہ اس مطالبہ کی حمایت کرنے والے لوگوں کو اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی زبان کے وقار سے کوئی مطلب نہیں رہتا اور نہ ہی وہ پورے دل سے چاہتے ہیں کہ حکومت اور انتظامیہ میں اپنی زبان اور مادری زبان کی بنیاد پر آئیں اور ملک کا اقتدار سنبھالیں۔ یاد دلا دیں کہ اس مطالبہ کی حمایت میں دہلی میں ہی 137 مرتبہ گرفتاریاں دی جا چکی ہیں۔ ملک کا نوجوان اپنی زبان کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ گیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ اپنا نظریہ اپنی مادری زبان میں بہتر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہندی-اردو سمیت سبھی زبان میں انجینئرنگ، سائنس، قانون اور تعلیم کے مختلف میدان میں آگے بڑھا جا سکتا ہے، اور ایسا کیا بھی جا رہا ہے۔ چین سمیت کئی بڑے اور خوددار ملک نے اپنی زبان میں ہی اپنے اور اپنے ملک کے عوام کی ترقی کا راستہ ہموار کیا ہے۔ غیر ملکی زبان میں امتحان اور شخصیت کا اندازہ سرمایہ دارانہ نظریہ ہے۔ اس سے ہر ملک کو دستبردار ہونا ہوگا۔ تحریک کی تاریخ خاصہ طویل اور جدوجہد بھری رہی ہے۔ اپنی جوانی کے دور میں انھوں نے یو پی ایس سی کے صدر دفتر پرتحریک شروع کی، اب وہ سب ادھیڑ عمر کے ہو گئے ہیں اورجو ادھیڑ تھے وہ ضعیف ہو گئے ہیں۔ اب پھر سے یو پی ایس سی کے امتحان دہندگان نے تحریک شروع کیا ہے۔ یہ تحریک امید کی شمع ہے۔ ان نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان باغیوں نے 28 اپریل 1989 کو تامرگ بھوک ہڑتال شروع کی جسے26 مئی 1989 کو پروفیسر ستیش چندرا کمیٹی کی تشکیل کر کے ختم کرایا گیا۔ لیکن حالات اب بھی ویسے ہی بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پروفیسر وائی کے الگھ کمیٹی بنی، اور اس کمیٹی نے تو آئی اے ایس کی ٹریننگ میں مینجمنٹ کو بیرون ملکی یونیورسٹی سے پڑھوانے کی سفارش کر دی۔ اس کے بعد پروفیسر نیویلیکر کمیٹی بنی جس نے ایک نیا مشورہ دیا اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس مرتبہ سول سروسز امتحان میں ہندوستانی زبان استعمال کرنے والے 2.3 فیصد تک محدود ہو گئے ہیں اور دیہی علاقوں سے جڑے باصلاحیت بچے نہ آ سکے۔ گویا اپنی مٹی کے لال اپنی حکومت چلانے کے لیے ہی نہ آ سکے۔

languages

سازش لگاتار جاری ہے۔ ابھی یو پی ایس سی امتحان کا ایک سوالنامہ پرائمری امتحان میں ہندوستانی زبان کے طلبا کو 22 نمبر کا ایک سوالنامہ حل کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے اور ساتھ ہی سوالنامہ کا ترجمہ جو ہندی میں دستیاب کرایا جا رہا ہے وہ ’گوگل‘ کے ذریعہ کیے جانے والے مشینی ترجمہ کے جیسا ہے۔ علاوہ ازیں اصل امتحان میں انگریزی کا ایک لازمی سوالنامہ بھی پہلے سے ہی لازمی ہے۔ انٹرویو میں بھی ہندوستانی زبان کے طلبا کو ان کے موضوع اور ان کی ہی زبان کے ماہرین کے ذریعہ جانچا نہیں جا رہا ہے۔ ہر قدم پر انگریزی کا بوجھ ہندوستانی زبان کے طلبا کو انتظامی خدمات سے دور کر رہا ہے۔ آل انڈیا لینگویج پریونشن ایسو سی ایشن کے کنوینر پشپیندر چوہان اور ان کے ساتھیوں نے اس کے خلاف مئی 2013 سے جنتر منتر پر دھرنا شروع کیا جو وہاں ابھی بھی جاری ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بھوک ہڑتال اور کئی مرتبہ تامرگ بھوک ہڑتال کر کے ہندوستانی زبانوں کو نافذ کروانے اور انگریزی کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کیا۔ پشپیندر چوہان نے 10 جنوری 1991 کو پارلیمنٹ میں اس مطالبہ کے مدنظر نعرے لگاتے ہوئے ناظرین کی بھیڑ میں سے چھلانگ لگائی اور اپنی پانچ پسلیاں تڑوا لیں۔ کئی مہینوں تک وہ اسپتال میں رہے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے اپنی طرف سے اس عزم کو دوبارہ صرف پاس کر دیا جو 18 جنوری 1968 کو پاس ہوا تھا۔ اسے قانون نہیں بنایا گیا۔ یعنی معاملہ وہیں کا وہیں رہا جہاں 1968 میں تھا۔
سنٹرل پرسونل اینڈ ٹریننگ کے وزیر مملکت کی یقین دہانی پر یو پی ایس سی امتحان دہندگان نے فی الحال اپنی تحریک ملتوی کر دی ہے۔ اس پر بھروسہ کرنے کا دل کرتا ہے لیکن جدوجہد کی تاریخ میں اب تک جو کچھ ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ اپنا ملک اور اپنی زبان کے قیام کے لیے جنگ جاری رکھنی ہوگی۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...