عرب دنیا والے ہمیشہ ضعف واضمحلال کا شکار نہیں رہ سکتے!

خالد المعینا
خالد المعینا

یہ بہترین وقت تھا،یہ بدترین وقت تھا،یہ عقل ودانش کا دور تھا،یہ حماقت کا دور تھا۔ یہ عقیدے کا زمانہ تھا، یہ بے عقیدگی کا زمانہ تھا۔ یہ روشنی کا موسم تھا، یہ تاریکی کا زمانہ تھا۔یہ امید کی بہار تھی، یہ ڈوبنے کی خزاں تھی، ہر چیز ہمارے سامنے تھی، ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں تھا، ہم سب براہ راست جنت کی جانب جا رہے تھے، ہم سب براہ راست دوسری جانب جارہے تھے۔(چارلس ڈکنز :دو شہروں کی کہانی)
آج جب عرب دنیا کو تاریکی کے گہرے بادلوں نے گھیر رکھا ہے تو موجودہ صورت حال کی اس سے بہتر توضیح نہیں ہوسکتی ہے۔ عرب عوام خطے میں رونما ہونے والے ڈرامائی واقعات کو ملاحظہ کررہے ہیں لیکن ان پر مکمل ضعف واضمحلال طاری ہے۔ خانہ جنگیاں، بغاوتیں ،جبر وتشدد ،ڈکیتوں کے سرغنوں ایسے خود ساختہ لیڈر ان سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے آ اور جا رہے ہیں جو کبھی محفوظ تھیں اور جن کا تعیّن کیا گیا تھا۔
سب سے دردناک اور الم ناک اسرائیل کا غزہ پر جاری حملہ ہے۔یہ ایک ایسے ملک کی جانب سے سفاکانہ اور غیر انسانی جارحیت ہے جو انسانیت سے مشابہت کی تمام خوبیوں سے محروم ہو چکا ہے۔ایسی تصاویر سامنے آ رہی ہیں جن میں اسرائیلی ساحلی سمندر کے کنارے بیٹھے مکئی کے بھنے ہوئے دانے کھا رہے ہیں اور بوتلیں چڑھا رہے ہیں۔جونہی ایف 16 جنگی طیارے تباہ کن بم پھینکتے ہیں جن سے انسانی لاشوں کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی ہوتی ہے تو یہ اسرائیلی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
عرب عوام مرد وخواتین اور بچوں کی لاشوں کی تصاویر ملاحظہ کر رہے ہیں۔ وہ عبادت کی جگہوں اور اسپتالوں کی مکمل بے توقیری کو ملاحظہ کر رہے ہیں۔وہ یتیم خانوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ان سب سے ماورا وہ عرب حکومتوں کا مکمل ضعف واضمحلال اور بے یار و مدد گاری کو دیکھ رہے ہیں۔ عرب حکومتیں مغرب میں اپنے نام نہاد دوستوں پر دباؤ بھی نہیں ڈال سکتی ہیں کہ وہ اسرائیل کو اس جارحیت سے روکیں۔
انھیں ایک مرتبہ پھر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے مغربی میڈیا کے بیشتر ذرائع پر اثر و رسوخ کا ادراک ہوا ہے۔ بی بی سی ،سی این این جیسے چینلوں اور دوسرے میڈیا ذرائع پر اسرائیلی پروپیگنڈا ماسٹروں کے نقش قدم پر چلنے کا الزام عاید کیا جا رہا ہے۔ میڈیا ذرائع اسرائیلیوں کے چوتڑوں کے بل بیٹھنے کو دوسری عالمی جنگ کے دوران لندن کی بمباری کے وقت برطانویوں کے بیٹھنے کے طریقے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
میڈیا ذرائع حقیقت کی پردہ پوشی کے علاوہ رپورٹس کو بھی ایسے توڑ مروڑ کر اور مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں جن سے اسرائیل کی حمایت کا پہلو نکلتا ہو۔تاہم جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا مغرب کی منافقت کا عرب دنیا کی اپنی غیر فعالیت، بے یار و مدد گاری اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ عرب لیگ چھٹیوں پر ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کو ابھی اپنی سفارتی قوتوں کو متحرک کرنے کی نوبت نہیں آئی ہے۔
معاملہ جو بھی ہو ،اس وقت عرب عوام میں مکمل مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ وہ اپنی بے یار و مدد گاری کو محسوس کر سکتے ہیں۔جب چڑیاں کھیت چُگ چکی ہیں تو اس پر اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی نسل فلسطین کھو چکی۔ جعلی انقلابوں کے ذریعے جابروں کو اقتدار میں لائی، ان انقلابوں سے خود مقرر کردہ لیڈر آئے جنھوں نے بری حکمرانی کو رواج دیا۔ایک نوجوان نے مجھ سے کہا۔ “آپ کے پاس حل کیا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔ اس کا جواب تھا:مسائل ہمارے لیے اب عفریت بن چکے ہیں اور ان کا کوئی فوری حل ممکن نہیں۔ “ہاں۔یہ درست ہے۔ میں نے کہا۔

اسرائیلی دہشت گردوں نے بمباری کرکے فلسطینی نوجوان کا گھر تباہ کردیا اب وہ آہ و زاری کر رہا ہے
اسرائیلی دہشت گردوں نے بمباری کرکے فلسطینی نوجوان کا گھر تباہ کردیا اب وہ آہ و زاری کر رہا ہے

اوّل تو ہمیں شام، عراق اور لیبیا میں درپیش مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ ایک ایسا حل جن سے ان مقامات میں جاری تنازعات کا فوری خاتمہ کیا جا سکے۔ عرب دنیا کو انتہا پسندی کے خطرناک مسئلے سے نمٹنا ہو گا اور اس زہر کے مکمل خاتمے کے لیے باہم تعاون کرنا ہوگا۔
ہم سکیورٹی (سلامتی) کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ مناسب نظم ونسق اور معاشی ترقی کے بغیر نہیں آئے گی۔یہ تمام عوامل باہم جڑے ہوئے ہیں اور ان پر بہت ہی غیر جانبدارانہ انداز میں توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔سب سے اہم یہ ہے کہ اس وقت مدّبروں اور اعلیٰ صلاحیتوں اور خلاقی اصولوں کے مالک لیڈروں کی ضرورت ہے۔ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر معاملات کو دیکھ سکتے ہوں اور عرب تاریخ کے سنہ 1258ء میں منگولوں کے حملے میں سقوطِ بغداد کے بعد سے جاری تاریک دور کا خاتمہ کریں۔
ہم ہمیشہ کے لیے ضعف واضمحلال کا شکار نہیں رہ سکتے ہیں۔
بہ شکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *