
پتھر اپنی جگہ ہی بھاری ہوتا ہے
سید خرم رضا

حال ہی میں جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ ’ان سے کچھ مسلمان کہتے ہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں پر جو مظالم ہو رہے ہیںمیں ان کی مذمت کیوں نہیں کرتا جس پر میرا جواب تھا کہ میں نے مذمت کی ہے اور کرتا رہا ہوں لیکن کیا مسلمان اس مسلم پرسنل لا کی مذمت کریں گے جو مسلم خواتین کے تعلق سے غیر منصفانہ ہے ‘۔ اس بلاگ میں آگے انہوں نے مسلم پرسنل لا پر تفصیل سے گفتگو کی ہے لیکن جس طرح انہوں نے اپنے بلاگ کی شروعات کی اور اس میں فلسطینیوں پر ہو رہے مظالم کو مسلم پرسنل لا سے جوڑکر پیش کیا مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان کی سخت تنقید کی اور کمینٹ کے کالم میںلکھا کہ وہ کیونکر ا س بات کو سمجھانے کے لئے بیتاب ہیںکہ وہ مسلم نواز، کانگریس نواز یا مودی مخالف نہیں ہیں۔دراصل مجھے اس میں کاٹجو صاحب کا کوئی قصور نظر نہیں آتا کیونکہ ان کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے وہ جس وقت جو بات کہتے ہیں وہ اس کے آگے پیچھے کا نہیں سوچتے اور جب حالات میں تبدیلی آتی ہے تو پھر ان کو بدلے ہوئے حالات کی مناسبت سے خودکو پوزیشن کرنا ہوتا ہے اور آجکل جو بھی چیزیں وہ لکھ رہے ہیں وہ ان بدلے ہوئے سیاسی حالات کی مناسبت سے لکھ رہے ہیں جہاں اقتدار کی باگ ڈور اس نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے جس کی مخالفت میں جسٹس کاٹجو تمام حدیں تجاوز کر گئے تھے اور انہوں نے 15 فروری 2013 کے اپنے بلاگ میں لکھا تھا ’2002میں گجرا ت میں جو ہزاروںمسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ان پر جو زیادتیاں ہوئیں اس کو نہ کبھی فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی معاف کیا جا سکتا ہے۔ پورے عرب کے عطر سے بھی مودی پر لگے اس داغ کو دھویا نہیں جا سکتا‘۔جو شخص مودی مخالفت میں اس قدر آگے جا چکا ہو اس کے لئے مودی کا وزیر اعظم بننا پریشانی اور بے چینی کا سبب تو یقینا ہوگا ۔ اسی پریشانی اور بے چینی کی وجہ سے آجکل کاٹجو صاحب اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح وہ یہ دکھائیں کہ وہ نہ تو مسلم نواز ہیں اور نہ ہی کانگریس نواز ۔ یہ دکھانے کے لئے کہ وہ مسلم نواز نہیں ہیں انہوں نے نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد ہی مسلم پرسنل لا کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے اس بیان کے بعد مسلم سماج میں پرسنل لا کو لیکر بے چینی کم پیدا ہوئی لیکن جسٹس کاٹجو کو لیکر زیادہ تشویش ہوئی اور ان کے ذہن میں یہ سوال خودبہ خود اٹھنے لگے کہ کیا یہ وہ ہی کاٹجو صاحب ہیں جو مودی سے مسلمانوں سے زیادہ نفرت کرتے تھے۔ لیکن ان بے چارے مسلمانوں کو اپنی بے چینی اور تشویش کا جواب اس وقت ملا جب جسٹس کاٹجو نے دس سال پرانا مدراس کے ایک جج کا معاملہ اٹھایا اور سابق وزیر اعظم منمون سنگھ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ۔جن دو معاملوں کا میں ذکر کر رہا ہوں ان پر لوگوںکا کاٹجو صاحب کی رائے سے تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہ ایسے مدعے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اصل مدعا ہے کہ کس وقت ان مدعوں کو اٹھایا جا رہا ہے ۔ ہم سب کو معلوم ہے جسٹس کاٹجو نے عام انتخابات سے تقریبا چھہ ماہ قبل بالکل خاموشی اختیا ر کر لی تھی اور اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان جیسے ذہین شخص کو اس بات کا اندازہ ہورہا ہو کہ ملک میں سیاسی حالات کس سمت گامزن ہیںیا سیاسی ہوا کس رخ چل رہی ہے ۔ دراصل ان کے خاندان نے اقتدار کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ ان کے دادا ڈاکٹر کیلاش ناتھ کاٹجو اپنے زمانے کے معروف وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی، گورنر اور مرکزی وزیر بھی رہے تھے اوران کے والد ایس این کاٹجو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج رہے اس لئے ان کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ اقتدار کے گلیاروں سے دور رہیں۔ اسی لئے کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یہ سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں تاکہ مودی حکومت کے قریب ہو سکیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا کے چئیرمین کی ان کی مدت کار اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایکسٹینشن مل جائے یا کسی اور ادارہ کی ذمہ داری مل جائے ۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی بات صحیح ہے تو پھر ہندوستانی عوام کے پاس سیاست دانوں کو برا کہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتاکیونکہ وہ جسٹس کاٹجو کوتو کسی بھی حال میں خود غرض اور موقع پرست سیاستدانوں کی صف میں کھڑا نہیں دیکھنا چاہتے۔
تنازعات اور جسٹس کاٹجو کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور س کے پیچھے ان کے بے باک تبصرے رہے ہیں۔ اس میں جہاں انہوں نے 90فیصد ہندوستانیوں کو بے وقوف قرار دیا تو ذرائع ابلاغ کو بھی نہیں بخشا اور انہوں نے کہا میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے ۔ بے باک تبصرے کرنا ظاہر ہے بڑی ہمت کا کام ہے لیکن اپنے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوے اپنے بے لاگ تبصروں کے لئے وقت کا انتخاب کرنا نہ صرف موقع پرستی ہے بلکہ عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے اور اس سب کے لئے عوام دن رات سیاست دانوں کو پہلے ہی کوستے رہتے ہیں۔
سابقہ کچھ سالوں میں جسٹس کاٹجو نے ملک میں جو عزت اور شہرت کمائی تھی آ ج اس پر چاروںطرف سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ جسٹس کاٹجو ہی نہیں کسی کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ آج اقتدار میں آئے ہیں وہ کسی دوسرے سیارے سے آئے ہیں وہ اسی ملک کے سیاسی رہنما ہیں اور وہ نہ صرف اقتدار کے گلیاروں کے آس پاس رہنے والے اشخاص کے بارے میں جانتے بلکہ ان کے تعلق سے ایک رائے بھی رکھتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد اب کس کس طرح کے لوگوں سے ان کا واسطہ پڑے گا۔ آج لوگوں کی جو رائے جسٹس کاٹجو کے متعلق بن رہی ہے اس کے تعلق سے تو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگرکوئی شخص اپنے ضمیرکی آواز بھی نہیں سن سکتا تو بھی دانشمندی اسی میںہے کہ وہ کم از کم اپنے موقف پر ہی قائم رہے کیونکہ پتھر اپنی جگہ ہی بھاری ہوتا ہے۔