متیٰ نصر اللہ ۔۔۔۔ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے

عالم نقوی
سابق ایڈیٹر روزنامہ اردوٹائمز ممبئی

save Gaza

’’پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، وہ ہلامارے گئے، حتی کہ وقت کار سول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اْٹھے کہ مَتٰی نصراللّٰہ۔ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے الا ان نصراللّٰہ قریب۔ (بقرہ۔214) گزشتہ سات برسوں کے دوران دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں رہنے والے اہل غزہ اور حماس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر سخت سے سخت تر امتحان میں پورے اترے ہیں، مومنین خالص اور اہل حق کے لیے اللہ کی سنت یہی ہے کہ جب دل حلق تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کی مدد ضرور نازل ہوتی ہے۔ اور یہ صرف اہل غزہ (وفلسطین) ہی کا امتحان نہیں، یہ پوری امت کا امتحان ہے اور امت کے تمام صاحبان قوت واقتدار کا امتحان ہے، اور امت کے تمام علماء واہل ہمم کا امتحان ہے۔ اب القدس کا مرحلہ آزادی محض ’’یوم منانے لینے‘ کی رسم سے بہت آگے جاچکا ہے ا ب کچھ کر کے دکھانے کا وقت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جب حالات ایسے ہوں مسلم صاحبان قوت کی اکثریت کے لیے فلسطینیوں کی حمایت میںلب کشائی بھی بار ہو اس وقت کچھ ملکوں کا اسرائیل کے خلاف آوازبلند کرنا بھی غنیمت معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب صرف آواز بلند کرنے سے کام نہیں چلنے والا۔ اب عملی اقدام کا وقت ہے۔ اب صرف’مرگ براسرائیل‘ اور ’مرگ بر امریکا‘ کے نعرے کافی نہیں مرگ امریکہ واسرائیل کے منصوبوں کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہنری کسنجر نے کئی سال پہلے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ 2022تک اسرائیل کا حتمی زوال یقینی ہے۔ ہنری کسنجر اور دیگر امریکی اسکالروں نے تلمودی حوالوں سے لکھا ہے کہ 2022کے بعد اسرائیل کے وجود کے آثار مفقود ہیں، انہوں نے تو یہ انتباہ صہیونی عباقرہ کو اس لیے دیا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کا ساماں کریں، لیکن، ماہرین کے نزدیک تمام ا?ثاروقرائن ایک بڑے معرکے کا پتہ دے رہے ہیں، حق وباطل کا معرکہ۔ آدم وابلیس ، ابراہیم ونمرود،موسی وفرعون، حسین ویزید کا معرکہ حق وباطل آخری مرحلے میں پہنچنے والا ہے۔ قرآن نے تلبیس حق وباطل سے منع فرمایا ہے۔ اب وہ وقت قریب ہے جب حق وباطل کی راہیں پورے طور پر الگ ہوجائیں گی اور اہل حق کو فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ وہ کدھر ہیں؟ حزب اللہ کے ساتھ یا حزب الطاغوت کے ساتھ؟ اور تاریخ سے ثابت ہے کہ حق وباطل کے ٹکرائو کے بغیر غلبہ حق ممکن نہیں۔ شام وعراق اور مصر کے محاذ القدس ہی کے لیے کھولے گئے ہیں۔ وہ مسجد اقصیٰ کو ڈھاناچاہتے ہیں اوراہل غزہ وحماس اْن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ محصور اہل غزہ قرآن کی زبان میں پورے عالم اسلام بلکہ پورے عالم انسانیت سے پوچھ رہے ہیں کہ آخر تمہیں ہوکیاگیا ہے؟ کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر لڑتے نہیں؟ جنہیں کمزور پاکر دبالیاگیا ہے اور جو فریاد کررہے ہیں کہ بار الٰہا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومدد گار پیدا کردے‘‘(النساء75) گزشتہ سات سال میں دوسری مرتبہ غزہ کے اہل حق سیکڑوں کی تعداد میں قربان ہوگئے ہیں، انہوں نے اللہ سے کیا ہوا اپنا وعدہ وفا کردیا ہے اور ان کا خون راہ حق کو روشن کرنے والے نور میں تبدیل ہوچکا ہے وہ زندہ رہ جانے والوں کو یاد دلارہے ہیں کہ القدس غزہ سے تو صرف 79.36کلو میٹر دور ہے۔ ہم تو محصور ہیں، نہتے ہیں، پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں تم سے القدس کتنا دور ہے؟ کیا تم بھی ہماری طرح محصور ہو؟ کیا تمہارے پاس افرادی قوت اور حربی طاقت ہم سے بھی کم ہے؟ ہاں بتائو کیا تم بھی ہماری طرح مجبور ہو؟ آخر تمہیں مظلوموں کی مدد کرنے اور القدس کو صہیونی قبضے سے آزاد کرانے سے کون روکے ہوئے ہے؟ اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اوراللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے(بقرہ249) دراصل ہمارے ایمان ہی میں کمزوری ہے اس لیے ہم اللہ کے بجائے اللہ کے دشمنوں سے ڈرتے ہیں، ان یہودیوں صہیونیوں اور اہل ایمان کے سب سے بڑے دشمنوں کے بارے میں تو یہ کھلی الہی ضمانت موجود ہے کہ ’’یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتے ہیں، اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلے میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے ان کو مدد نہ ملے گی یہ جہاں بھی پائے گئے، ان پر ذلت کی مار ہی پڑی ، کہیں اللہ کے ذمہ یاانسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں… (آل عمران112-111) یہ آنیوالے ماہ وسال بہت ہی CRITICALاور CRUCIALہیں۔ تاریخ کے پہیے کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔ اور اللہ غنی ہے۔ محتاج تو ہم ہیں۔ اْسے ہماری ضرورت نہیں۔ اس کی سنت یہ ہے کہ جو شے بھی ا نسانیت کے لیے مفید نہیں وہ سمندر کے جھاگ کی طرح مٹ جایاکرتی ہے۔ ہم اگر اسی طرف صرف لفظوں کے طوطے مینا اْڑاتے رہیں گے تو وہ ہماری جگہ کسی اور کواْٹھا کر اس سے اپنے کام لے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *