Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

غزہ کے ساتھ عالمی سطح پر نا انصافی اور عربوں کی نا سمجھی

by | Jul 31, 2014

غزہ میں ایک مسلم خاتوں اپنے تباہ حال مکانات دیکھنے کے بعد غمزدہ دکھائی دے رہی ہے

غزہ میں ایک مسلم خاتوں اپنے تباہ حال مکانات دیکھنے کے بعد غمزدہ دکھائی دے رہی ہے

ایف اے مجیب
بحیرہ روم کے مشرقی کنارے کی وہ باریک پٹی جس نے 1967 کے پہلے سے ہی صہیونی بربریت کا ننگا ناچ دیکھا ہے آج بھی تھکی نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ عربوں کے شکست کی ذمہ داری اس نے خود اپنے سر لے لی ہے اور اب اپنے لہو سے عالم اسلام کی آزادی کے دفن بیج کو نمی عطا کر رہی ہے۔ خبروں کے ذرا بھی واقف کاروں نے سمجھ لیا ہوگا کہ میری مراد فلسطین کا محصورعلاقہ غزہ پٹی ہے۔365 مربع کلومیٹر میں بسی بیشتر پناہ گزینوں کی 18 لاکھ کی آبادی اس وقت جن مشکلات کا شکار ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
تین عشروں کی لڑائی میں اسرائیلی حملوں کے دوران تقریبا ڈیڑھ ہزار فلسطینی جن میں بیشتر بچے اور خواتین شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی حالت دیگر گوں ہے۔ہر روز درجنوں فلسطینی زخمی اورجاں بحق ہو رہے ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو دنیا بھر میں عجیب و غریب انداز میں لیا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ،ایوروپ اور اقوام متحدہ جیسے ادارے فوری جنگ بندی کی اپیل کر رہے ہیں دوسری جانب اسرائیلی حملوں کا کھلے یا دبے الفاظ میں دفاع بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح زبان پر کچھ ہے اور عمل کسی اور چیز پر کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل نے غزہ میں غیر مشروط اور انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے ۔ امریکہ نے بھی اسی مطالبے کو ایک بار پھر دوہرایا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے ایک طرف جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف غیر مشروط جنگ بندی پر زور دیتے ہیں، آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ دراصل شرط حماس نے رکھی ہے حماس نے کہا ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کئے بغیر کسی طرح کی جنگ بندی نہیں ہو سکتی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیلیبمباری اسکول، مساجد اور عام رہائشی علاقوںپر ہو رہی ہے، جس میں بیشتر عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔اسرائیلی حملوں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ عجیب سی بات ہے کہ دنیا فلسطین کے حقیقی تنازعے سے کس طرح پہلو تہی برت رہی ہے اور صرف ظاہری امور پر توجہ دے رہی ہے۔
ایک طرف لاکھوں لوگوں کو پوری طرح محصور کر دیا گیا ہے، ان کی زندگی قیدیوں سے بھی بدتر بنا دی گئی ہے، وہ اگر اپنے طور پر کچھ کرنا چاہیں تو نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، حماس جب 2006 میں حکومت میں آئی تو اسے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔فلسطینی علاقوں میں ہر روز یہودی آبادیاں قائم کی جا رہی ہیں، فلسطینیوں کو قدس کے علاقے میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ میدان میں کھیلتے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اسکولوں اور مساجد میں پناہ لینے والوں پر بم برسائے جاتے ہیں۔ اسپتالوں پر بمباری کی جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ہو رہی ہیں۔ اس کے برخلاف فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھ میں اب پتھر کی جگہ راکٹ آ جانے سے مغربی ممالک کو کس قدر پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ انہوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اب فلسطینی مظلوم نہیں رہے اب ان کا شمار ظالموں میں کیا جانے لگا ہے۔ دوسری جانب اب اسرائیل کی کارروائیاں دفاعی ہو گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام فلسطین میں چلنے والے اسکولوں پر بھی اسرائیلی بمباری کے خلاف عالمی سطح پر کوئی کارروائی نہیں جاتی۔ حد تو یہ ہے کہ سوڈان میں چند مبینہ معاملوں پر وہاں کے صدعر عمر البشیر کو جرائم کی عالمی عدالت میں گھسیٹنے والوں کو اسرائیلی بربریت ، محض دفاعی اقدام نظر آتی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو پری طرح غیر مسلح کر دیا جائے تاکہ کہیں سے بھی طاقت کا کوئی توازن قائم نہ ہو اور فلسطینی ہمیشہ نہتھے رہیں تاکہ اسرائیل جب ، جہاں ور جیسے چاہے ان کا استحصال کر سکے۔
ایک طرف حالت یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی جارحیت جاری رکھی ہے اور آئندہ دنوں میں اس میں مزید اضافہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک نے عملا اسرائیل کے اس منصوبے کو منظوری دینے کے ساتھ ہی اس کی مدد بھی شروع کر دی ہے تو دوسری طرف عربوں کی حالت زار افسوسناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ 1967 میں ایک طاقت ہونے کے باوجود ملی شکست سے انہوں نے کچھ نہیں سیکھا اور کبھی بھی اس معاملے میں خود احتسابی نہیں کی، بلکہ انہوں نے اپنی رہی سہی قوت کو آپسی ،سرحدی، مسلکی اور داخلی جنگ میں جھونک دی۔ تقریبا تمام ہی ممالک آپسی رسہ کشی یا پھر داخلی بحران کا شکار ہیں اور اب ان کے پاس اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر کوئی لائحہ عمل تیار کر سکیں اوراس پاک سرزمین کی بازیابی کے لئے کوئی کارروائی کر سکیں۔حد تو یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ دشمن نے ان کی صفوں کو کس قدر منتشر کر دیا ہے اور اب وہ آپس میں برسرپیکار ہیں۔ سعودی عرب جیسے ممالک سوائے چند ٹکوں کی مددکے اور وہ بھی عموم کے ساتھ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ عربوں کی اس نادانی کا فائدہ بالآخر اسرائیل کو تو ہونا ہی تھا۔
عربوں کے اس زوال کا بوجھ بھی اب فلسطین بالخصوص غزہ پٹی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کو عربوں کی پہلوپہلو تہی تو برداشت کرنی ہی پڑی ساتھ میں ریاست کی تقسیم اور بڑے سیاسی دھڑے کی جانب سے علیحدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب تو بس یہی پٹی ہے جو کسی صورت میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کوشاں ہے لیکن اس قدر الگ تھلگ اوریکا و تنہا پڑ گئی ہے کہ اب اسے جو بھی کہہ دیا جائے ، اس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھ جائے ، وہ اپنے دفاع میں کچھ کہہ نہیں سکتی ۔
الغرض اگر عربوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ رو بہ زوال ہیں۔ ان کی صفوں میں انتشار آگیا ہے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے اقتدار کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جب انہیں بھی اسی طرح سے بے دخل ہونا پڑے گا جس طرح حالیہ دنوں بعض حکمرانوں کو الگ ہونا پڑا ہے یا بعض ممالک کو محکوم بننا پڑا ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...