غزہ کے ساتھ عالمی سطح پر نا انصافی اور عربوں کی نا سمجھی

غزہ میں ایک مسلم خاتوں اپنے تباہ حال مکانات دیکھنے کے بعد غمزدہ دکھائی دے رہی ہے
غزہ میں ایک مسلم خاتوں اپنے تباہ حال مکانات دیکھنے کے بعد غمزدہ دکھائی دے رہی ہے

ایف اے مجیب
بحیرہ روم کے مشرقی کنارے کی وہ باریک پٹی جس نے 1967 کے پہلے سے ہی صہیونی بربریت کا ننگا ناچ دیکھا ہے آج بھی تھکی نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ عربوں کے شکست کی ذمہ داری اس نے خود اپنے سر لے لی ہے اور اب اپنے لہو سے عالم اسلام کی آزادی کے دفن بیج کو نمی عطا کر رہی ہے۔ خبروں کے ذرا بھی واقف کاروں نے سمجھ لیا ہوگا کہ میری مراد فلسطین کا محصورعلاقہ غزہ پٹی ہے۔365 مربع کلومیٹر میں بسی بیشتر پناہ گزینوں کی 18 لاکھ کی آبادی اس وقت جن مشکلات کا شکار ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
تین عشروں کی لڑائی میں اسرائیلی حملوں کے دوران تقریبا ڈیڑھ ہزار فلسطینی جن میں بیشتر بچے اور خواتین شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی حالت دیگر گوں ہے۔ہر روز درجنوں فلسطینی زخمی اورجاں بحق ہو رہے ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو دنیا بھر میں عجیب و غریب انداز میں لیا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ،ایوروپ اور اقوام متحدہ جیسے ادارے فوری جنگ بندی کی اپیل کر رہے ہیں دوسری جانب اسرائیلی حملوں کا کھلے یا دبے الفاظ میں دفاع بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح زبان پر کچھ ہے اور عمل کسی اور چیز پر کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل نے غزہ میں غیر مشروط اور انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے ۔ امریکہ نے بھی اسی مطالبے کو ایک بار پھر دوہرایا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے ایک طرف جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف غیر مشروط جنگ بندی پر زور دیتے ہیں، آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ دراصل شرط حماس نے رکھی ہے حماس نے کہا ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کئے بغیر کسی طرح کی جنگ بندی نہیں ہو سکتی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیلیبمباری اسکول، مساجد اور عام رہائشی علاقوںپر ہو رہی ہے، جس میں بیشتر عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔اسرائیلی حملوں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ عجیب سی بات ہے کہ دنیا فلسطین کے حقیقی تنازعے سے کس طرح پہلو تہی برت رہی ہے اور صرف ظاہری امور پر توجہ دے رہی ہے۔
ایک طرف لاکھوں لوگوں کو پوری طرح محصور کر دیا گیا ہے، ان کی زندگی قیدیوں سے بھی بدتر بنا دی گئی ہے، وہ اگر اپنے طور پر کچھ کرنا چاہیں تو نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، حماس جب 2006 میں حکومت میں آئی تو اسے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔فلسطینی علاقوں میں ہر روز یہودی آبادیاں قائم کی جا رہی ہیں، فلسطینیوں کو قدس کے علاقے میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ میدان میں کھیلتے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اسکولوں اور مساجد میں پناہ لینے والوں پر بم برسائے جاتے ہیں۔ اسپتالوں پر بمباری کی جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ہو رہی ہیں۔ اس کے برخلاف فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھ میں اب پتھر کی جگہ راکٹ آ جانے سے مغربی ممالک کو کس قدر پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ انہوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اب فلسطینی مظلوم نہیں رہے اب ان کا شمار ظالموں میں کیا جانے لگا ہے۔ دوسری جانب اب اسرائیل کی کارروائیاں دفاعی ہو گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام فلسطین میں چلنے والے اسکولوں پر بھی اسرائیلی بمباری کے خلاف عالمی سطح پر کوئی کارروائی نہیں جاتی۔ حد تو یہ ہے کہ سوڈان میں چند مبینہ معاملوں پر وہاں کے صدعر عمر البشیر کو جرائم کی عالمی عدالت میں گھسیٹنے والوں کو اسرائیلی بربریت ، محض دفاعی اقدام نظر آتی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو پری طرح غیر مسلح کر دیا جائے تاکہ کہیں سے بھی طاقت کا کوئی توازن قائم نہ ہو اور فلسطینی ہمیشہ نہتھے رہیں تاکہ اسرائیل جب ، جہاں ور جیسے چاہے ان کا استحصال کر سکے۔
ایک طرف حالت یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی جارحیت جاری رکھی ہے اور آئندہ دنوں میں اس میں مزید اضافہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک نے عملا اسرائیل کے اس منصوبے کو منظوری دینے کے ساتھ ہی اس کی مدد بھی شروع کر دی ہے تو دوسری طرف عربوں کی حالت زار افسوسناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ 1967 میں ایک طاقت ہونے کے باوجود ملی شکست سے انہوں نے کچھ نہیں سیکھا اور کبھی بھی اس معاملے میں خود احتسابی نہیں کی، بلکہ انہوں نے اپنی رہی سہی قوت کو آپسی ،سرحدی، مسلکی اور داخلی جنگ میں جھونک دی۔ تقریبا تمام ہی ممالک آپسی رسہ کشی یا پھر داخلی بحران کا شکار ہیں اور اب ان کے پاس اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر کوئی لائحہ عمل تیار کر سکیں اوراس پاک سرزمین کی بازیابی کے لئے کوئی کارروائی کر سکیں۔حد تو یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ دشمن نے ان کی صفوں کو کس قدر منتشر کر دیا ہے اور اب وہ آپس میں برسرپیکار ہیں۔ سعودی عرب جیسے ممالک سوائے چند ٹکوں کی مددکے اور وہ بھی عموم کے ساتھ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ عربوں کی اس نادانی کا فائدہ بالآخر اسرائیل کو تو ہونا ہی تھا۔
عربوں کے اس زوال کا بوجھ بھی اب فلسطین بالخصوص غزہ پٹی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کو عربوں کی پہلوپہلو تہی تو برداشت کرنی ہی پڑی ساتھ میں ریاست کی تقسیم اور بڑے سیاسی دھڑے کی جانب سے علیحدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب تو بس یہی پٹی ہے جو کسی صورت میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کوشاں ہے لیکن اس قدر الگ تھلگ اوریکا و تنہا پڑ گئی ہے کہ اب اسے جو بھی کہہ دیا جائے ، اس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھ جائے ، وہ اپنے دفاع میں کچھ کہہ نہیں سکتی ۔
الغرض اگر عربوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ رو بہ زوال ہیں۔ ان کی صفوں میں انتشار آگیا ہے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے اقتدار کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جب انہیں بھی اسی طرح سے بے دخل ہونا پڑے گا جس طرح حالیہ دنوں بعض حکمرانوں کو الگ ہونا پڑا ہے یا بعض ممالک کو محکوم بننا پڑا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *