فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی المناک داستان

Palestine akl

محمد عبد العزیز ، چیف ایڈیٹر انکشاف آن لائن

غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جو بحیرۂ روم (Mediterranean Sea)کے ساحل پر واقع ہے جسکی آبادی تقریبا1.816ملین ہے۔1993ء میں اوسلو معاہدہ کے تحت غزہ کے بعض علاقے فلسطینی قومی اٹھاریٹی کو دیدئے گئے۔فبروری 2005ء میں اسرائیلی وزیراعظم ایرول شارون کی درخواست پر اسرائیلی حکومت نے غزہ سے انخلاء کے حق میں ووٹ دیا، 12 ستمبر 2005 ء کو اسرائیل نے مکمل طور پر اپنی فوج کو واپس بلالیا۔25 جنوری 2006 ء کو منعقدہ ’’فلسطینی قانون ساز کونسل‘‘ کے انتخابات میں تحریک اسلامی مزاحمت حماس نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے 132میں سے 74 نشستیں حاصل کی۔ نتائج کے فوری بعد امریکا اور اسرائیل نے جو کہ ساری دنیا میں جمہوریت پسند ہونے کا دعوے کرتے ہیں حماس کی جمہوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ اس انتخابات میں اپنے جمہوری حق کا استعمال کرکے حماس کو جتانے والی غزہ کی عوام کو سزا کے طور پر اسرائیل نے 2007 ء سے اب تک محاصرہ میں رکھا ہے کبھی برقی سربراہی بند کی جاتی ہے توکبھی آبی سربراہی مسدودکی جاتی ہے جب اس سے بھی ان کا دل نہیں بھرتا تو کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر غزہ پر جنگ برپاء کی جاتی ہے۔
8؍ جولائی 2014 کو اسرائیل نے ایک بار پھر جنگ کا آغاز کردیا جسے ’’آپریشن پروٹیکٹف‘‘”operation protective” کا نام دیا گیا جو کہ 12 دن سے جاری ہے اور اب تک 337 فلسطینی شہید اور 2,300 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے جس میں معصوم بچوں کی خاصی تعداد ہے۔ 15 جولائی کومدرسہ ثانویہ کے نتائج میں اول مقام حاصل کرنے والے طالب علم اور دیگر 35 طلباء بھی شہداء میں شامل ہیں۔اس آپریشن میں اب تک 1200 سے زائد گھروں کو منہدم کردیا گیااور تقریبا 14,000 گھروں کو نقصان پہنچا۔
’’اِف امریکین نیو‘‘ “if American knew”نامی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق 29 ستمبر 2000 سے 17 جولائی 2014 تک 7,112 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں 1,523 معصوم بچے ہیںجبکہ زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 59,025 ہے ۔فلسطینیوں کی قید میں کوئی اسرائیلی قیدی نہیں ہے جبکہ اسرائیل کی قید میں 5,271 فلسطینی ہیں جس میں 17 خواتین، 16 سے 27 سال کی درمیان کے 196 عمر قید کی سزا کاٹنے والے 476 قیدی شامل ہے۔1967 سے لیکر اب تک اسرائیل نے 28,000 سے زائد فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کیا ہے۔ اور فلسطین میں بیروزگار ی کا تناسب مغربی کنارے میں 22.6 اور غزہ میں 27.9 فیصد ہے۔امریکا کی جانب سے اسرائیل کو روزانہ 8.5 ملیون ڈالر کی فوجی امداد دی جاتی ہے جبکہ فلسطینیوں کو کوئی فوجی امداد نہیں دی جاتی۔
2008 میں بھی غزہ پراسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ بناکر پر اپنے حملوں کا آغاز کردیا تھا۔ یہ حملے 27 دسمبر 2008 کو شروع ہوئے تھے ،جس کو اسرائیل نے ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ حملے تین ہفتوں تک جاری رہے اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ کے نتیجے میں  صہیونی حکومت کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد بند ہوئے ۔ فلسطین کی وزرات صحت کے اعدادو شمار کے مطابق 1300 سے 1400 تک فلسطینی شہید ہوئے ۔
اسرائیلی حکومت نے اس حملے میں غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف غیر روایتی اور غیر قانونی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا ۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ریچرڈ گولڈ اسٹون کی رپورٹ میں بھی اس مسئلہ کی تائید کی گئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ کے عوام کے خلاف سفید فاسفورس کے بموں کا استعمال کیا تھا۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فاسفورس بموں سے پناہ گزینوں کو امداد پہنچانے والی ایجنسیوں اور القدس و الوفا ہسپتالوں پر حملے کئے ہیں ۔  اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی ان جارحانہ اقدامات کی تائید کرتے ہوئے غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ غزہ کا بحران ایک انسانی المیہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے کی بنیادی تنصیبات کے تباہ ہونے اور بچوں اور عورتوں کے قتل عام سے یہ بحران ایک دردناک ٹریجڈی میں تبدیل ہوگیا ہے ۔
فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس علاقے کو آج کل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے ، شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے ،جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحرمتوسط کا طویل ساحل ہے ، فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت ۷۲ ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔فلسطین کے طبعی جغرافیائی علاقوں میں فلسطین کا طویل ساحل جوناقورہ سے لے کر رفح تک جنوب میں پھیلا ہوا ہے سرفہرست ہے ۔ جس کا عرض ۶۱ سے ۸۱ کلومیٹر تک ہے ، اس ساحل کے مشہور شہروں میں طولکرم،خان یونس،رملہ، عکا، یفاء، یافا اور غزہ ہیں۔ اسرائیل نے اپنا دارالحکومت بھی یافا کے شمال میں بنایا ہے ، جبکہ پہاڑی سلسلوں میں نابلس، کرمل، خلیل اور القدس کے پہاڑی علاقے مشہور ہیں، واضح رہے کہ خلیل پہاڑ کے دامن میں خلیل شہر آباد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں مدفون ہیں۔ علاوہ ازیں قدس کے پہاڑوں میں سب سے اونچا پہاڑ جبل طور ہے ، جس میں بیت المقدس کا علاقہ واقع ہے ، مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ بھی اسی شہر کی زینت ورونق ہیں۔ میدانی علاقوں میں نقب اوراغوار کے علاقے شامل ہیں، اغوار فلسطین کا مشرقی علاقہ ہے ، جسے دریا اردن کاٹتا ہے اور بحر میت بھی اس کے کنارے واقع ہے ، اس علاقے میں اریحانامی شہر ہے ،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے ۔
1848عیسوی میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886 عیسوی سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897 عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔1903 عیسوی تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25,000 کے لگ بھگ ہو گئی ۔ 1914ء تک مزید 40,000 کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔یہودیوں کا یہ نظریہ تھا کہ جب اس طرح کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں کو اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کرنے پرمجبور کیا گیا مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا ۔
مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916 عیسوی میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا ۔برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917 عیسوی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی یہودی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی، چنانچہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918 ء میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا ۔یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918 عیسوی میں فلسطین میں ان کی تعداد 67,000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق 1922 عیسوی میں یہودیوں کی تعداد11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 6,67,500 مسلمان تھے اور 82,500 یہودی تھے ۔ 1930 عیسوی تک برطانوی سرپرستی میں مزید 3,00,000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929 ء میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں سوا سو کے قریب فلسطینی اور تقریبا اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتدا ء یہودیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے یہودیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا ۔ برطانیہ کے رائل کمیشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937 عیسوی میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے جبکہ کہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کچل دیا گیا ۔ 1939 عیسوی میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگریہودیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی ۔
چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947 عیسوی میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اِسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947 کو یو این جنرل اسمبلی اس کی منظوری دے دی ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اوریہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اسرائیل تین ٹکروں میں تھا۔
اسرائیل نے 1955 عیسوی میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956 عیسوی میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔
اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔
جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973 عیسوی میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیااگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی ملٹری ٹریننگ لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پرش استعمال کیا ۔ پھر امریکہ ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *