کیا واقعتا ًحماس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے؟

ایف اے مجیب

امریکہ و اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے خلاف بھی بچے سعودی یہودی کا پوسٹر اٹھائے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں
امریکہ و اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے خلاف بھی بچے سعودی یہودی کا پوسٹر اٹھائے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں

امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے اپیل کے بعد ایک بار پھر اسرائیل اور حماس کے درمیان 72 گھنٹے کی جنگ بندی ہو گئی ہے ۔ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ان حملوں کے درمیان جتنی بھی جنگ بندیاں ہوئی ہیںان کا حشر اچھا نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل جنگ بندی تسلیم بھی کر لیتا ہے اور ساتھ میں حماس کے راکٹوں یا سرنگوں کا حوالہ دیتے ہوئے حملے جاری رکھنے کا اعلان بھی کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ اسرائیل کی اس جنگ بندی کے جواب میں حماس کے سامنے غیرمشروط جنگ بندی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ حماس اپنا دیرینہ مطالبہ چھوڑدے یعنی اسرائیل کے سامنے جنگ بندی کے لئے یہ شرط نہ رکھے کہ اسے غزہ کا محاصرہ ختم کر دینا چاہئے تبھی جنگ بندی کی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ اگر آٹھ جولائی سے جاری اسرائیلی حملوں کے ظاہری اسباب پر غور کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے اپنے تین نوجوانوں کے اغوا اور قتل کے واقعے کے بعد حماس کو اس کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے بدترین نتائج کی دھمکی دی اور ثبوت پیش کئے بغیر فلسطینیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ کم عمر فلسطینی بچوں کو مات کے گھاٹ اتارا اور جب اسرائیلی کارروائی کے جواب میں حماس نے راکٹ فائر کئے جن سے ابتدا کوئی کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا، اسرائیلی نے غزہ پر جس جارحیت اور سفاکی کا مظاہرہ کیااس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی ہلاک، ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ سب سے زیادہ ہلاکت بچوں اور خواتین سمیت عام شہریوں کی ہوئی۔ اس کی تصدیق خود اقوام متحدہ اور دیگر حقوق انسانی کے اداروں کی کردی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پاس ہوئی قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا اور دنیا بھر میں انسانی حقوق اور حق آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا انسانیت کو شرمسار کرتا ہوا صہیونی طاقت کے پشتیبان کی شکل میں سامنے آیا۔ خود اقوام متحدہ کی حالت یہ ہے کہ عالمی ادارہ ہونے کے باوجود اس نے اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔اس سے زیادہ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ جس ادارے کا ایک ترجمان میڈیا کے سامنے اسرائیلی جارحیت پر رو پڑتا ہے اور خود ادارے کے اہلکار ہلاک ہوتے ہیں، ادارہ اسرائیل پر حملوں کو روکنے کے لئے دباؤ بنانے یا اس پر کارروائی کرنے کی سمت میں کوئی اقدام نہیں کرتا ہے۔ محض زبانی جمع خرچ سے کام چلاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اوپر سے دنیا کو یہ باور بھی کراتا ہے کہ اسرائیل کسی کی نہیں سنتا۔
اس سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر اسرائیل حلیف ممالک اسرائیل اور حماس کو یکساں طاقتور سمجھتے ہیں۔ انہیں حماس کے راکٹ اتنے خطرناک نظر آتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں اسرائیلی بمباری اور فوجی سفاکی بہت کم تر نظر آتی ہے اور کہہ بیٹھتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا پورا حق ہے۔ ذرا سوچئے حماس جب جمہوری انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آتا ہے تو اسے اقتدار سے بے دخل کر دیا جاتا۔ غزہ پر بار بار حملہ کرکے اس کی زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین جنگوں کے نتیجہ میں اسرائیل نے جنگی بفر زون بنا کر غزہ کی 44 فیصد اراضی پرقبضہ کر لیا ہے۔ حماس کی فتح کے ساتھ سمجھوتے کو دیکھتے ہوئے اور فلسطینیوں کی طاقت کو متحد ہوتا دیکھ ایک بار پھر اسرائیل کو برداشت نہیں ہوا۔اب اس کی خواہش ہے کہ جلد سے جلد پورے غزہ پر قبضہ کرکے اپنی سرحد کو ساحل سمندر اور مصر کی سرحد تک لے جائے تاکہ اپنی سرحدود میں اضافہ کرنے کے ساتھ غزہ کے ساحل سمندر پر گیس کے ممکنہ ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لے سکے۔
کچھ حقیقت حال سے بے خبر لوگ جنگ بندی نہ ہونے دینے کے لئے حماس کو ذہ دار قرار دیتے ہیں اسرائیل کو مظلوم ٹھہراتے ہوئے اس کی بمباری کو دفاعی اقدام تصور کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل تو امن چاہتا ہے لیکن حماس ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں،جب کہ دیکھا جائے کتنے ہی معاہدے ایسے ہوئے ہیں جن کی اسرائیل نے کبھی بھی پاسداری نہیں کی۔اسرائیل اوسلو معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی کنارے، غزہ اور یروشلم کے علاقوں پر اب بھی قابض ہے۔ نومبر 2012 میں حماس سے کئے گئے جنگ بندی کے معاہدے کی رو سے ابھی تک غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں کی ہے۔
اگر مذکورہ بالاحقائق کو نہ بھی تسلیم کیا جائے تو بھی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پناہ گزیں بے گھر افراد، خواتین، بچوں اور بزرگ شہریوں پر بمباری کی جائے۔ عام رہائشی علاقوں پر بموں اور میزائیلوں سے حملہ کیا جائے، اسکوں اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ابھی ڈھونگ رچا کرجنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ایک بار پھر عام شہریوں کو نشانے بناتے ہوئے اسرائیل نے کئی معصوموں کی جان لے لی۔ ذرا سوچیں کہ اسرائیل ایک دن میں جتنے عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے پورے ڈیڑھ مہینے کی لڑائی میں حماس نے اتنے اسرائیلی فوجیوں کو بھی نہیں مارا ہے۔ دوسری بات یہ کہ حماس کے ذریعہ کسی اسرائیلی بچے اور خاتون کو ہلاک کرنے کا اس دوران کوئی ایک واقعہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ بھلا بتائیں ظلم اسرائیل کر رہا ہے یا حماس؟
ایک اور اہم بات یہ حماس اسرائیل سے غزہ کا محاصہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ذرا سوچیئے برسہا برس سے اسرائیل نے فلسطینیوں کو جیل کی چہار دیواری کی اپنے محاصرے میں قید کر رکھا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے، نہ انہیں کسی طرح کی کوئی مدد اسرائیل کی مرضی کے خلاف باہر سے مل سکتی ہے۔ ان کے کھانے پینے کے لالے پڑے ہیں۔ اسرائیل نہ تو ان کے محصول کا فنڈ انہیں دیتا ہے نہ انہیں مناسب بجلی سپلائی کرتا ہے۔ اب ذرا سوچئے اس طرف اقوام متحدہ اور امریکہ کی نظر کیوں نہیں جاتی؟
اسرائیل کی ان ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود امریکہ اور عالمی ادارے کی ہر طرح کی حمایت اسے حاصل ہے، بالخصوص امریکہ اسے ہر طرح کی دفاعی اور مالی امداد فراہم کرتا ہے۔اگر حقیقت بیانی سے کام لیا جائے اور ماضی کے واقعات اور کرونولوجی پر دھیان دیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اسرائیل کی مجرمانہ کارروائیوں میں امریکہ اس کے پشتیبان کی طرح اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ بعض لوگ تو اسے اس جرم میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک مانتے ہیں۔امریکہ نے کبھی جان کیری تو کبھی کسی اور کو علاقے میں بھیج کر جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کی کوشش بھی کی لیکن یکطرفہ اور جانبدارانہ تجویزوں کے سبب یہ کوششیں ناکم رہی ہیں۔
بالآخر جب بڑی طاقتیں اسرائیل کے ساتھ ہوں تو حماس کو مورد الزام ٹھہرانا یا الٹا اس پر پابندیاں عاید کرنا کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی۔اب تو حالت یہ ہے کہ اگر دنیا اسرائیل کو غلط سمجھتی ہے تو بھی سمجھتی رہے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی، نہ تو اس پر کسی طرح کی پابندی عاید ہوگی اور نہ ہی اسے جرائم کی عالمی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *