9 مہینے کی حاملہ خاتون نے طغیانی کھاتی ہوئی ندی تیر کر پار کیا

ندی پار کرنے والی حاملہ خاتون اپنے لوگوں کے ساتھ ندی کنارے نظر آرہی ہے
ندی پار کرنے والی حاملہ خاتون اپنے لوگوں کے ساتھ ندی کنارے نظر آرہی ہے

بنگلورو، 3 اگست (یو این بی): زندہ دلی کسے کہتے ہیں اس کا نمونہ 9 مہینے کی ایک حاملہ خاتون نے پیش کیا ہے۔ اس خاتون نے اپنے بچے کی بہ حفاظت پیدائش کے لیے طغیانی کھاتی ہوئی ندی میں چھلانگ لگا دیا اور بہ حفاظت ندی کو پار بھی کر لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خاتون کو تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس کے باوجود 22 سالہ خاتون نے 90 منٹ تک تیر کر ندی پار کی۔

دراصل شمالی کرناٹک کے یادگیر ضلع میں بہنے والی کرشنا ندی میں پانی کا سطح بڑھتا ہی جا رہا تھا اور بچے کی پیدائش کبھی بھی ہو سکتی تھی۔ آس پاس کوئی مناسب اسپتال بھی نہیں تھا اس لیے خاتون کو چار کلو میٹر دور کے اسپتال لے جانے کے لیے کوئی ملاح تیار نہیں ہو رہا تھا۔ اس حیرت انگیز کارنامے کو انجام دینے والی ’یلّاوا‘ نام کی خاتون نے تنہا ہی ندی پار کر کے ایسی بہادری کی مثال پیش کی ہے کہ ہر مانسون میں سیلاب کا قہر برداشت کرنے والے کرناٹک کے اس حصے کے لوگ حیرت زدہ ہیں۔ یلّاوا نے بتایا کہ ’’یہ میرا پہلا بچہ ہے اور میں اسے بے حد پیار کرتی ہوں۔ گائوں میں بچے کی پیدائش کے لیے چھوٹی موٹی سہولیات تو تھی لیکن میں قریب کے اسپتال میں وقت سے پہنچنا چاہتی تھی۔ لیکن پانی کا سطح جیسے جیسے بڑھنے لگا، سبھی نے ندی پار کرنے سے منع کر دیا۔ میں پریشان ہونے لگی اور تیر کر ندی پار کرنے کا فیصلہ لیا کیونکہ بچہ کی پیدائش کسی بھی وقت ممکن تھی۔‘‘
مانسون کے دوران ندی کا پانی 12 سے 15 فٹ اوپر اٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں یادگیر ضلع کے گائوں سے کوئی بھی کرشنا ندی میں گھسنے کی ہمت نہیں کرتا۔ لیکن یلّاوا کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ مانسون کے دوران جو حالات ہر سال اس علاقے کے ہوتے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے وہ کافی وقت سے اپنے کنبہ سے دوسرے گائوں میں منتقل ہونے کے لیے کہہ رہی تھی لیکن غریب خاندان روزی روٹی حاصل کرنے میں مصروف رہا اور وقت پر اسے دوسرے گائوں نہیں لے جا سکا۔ بدھ کے روز بساوا ساگر کنڈ سے پانی چھوڑ دیا گیا اور کرشنا ندی میں طغیانی کافی بڑھ گئی۔ یلّاوا گائوں کے ایک مزدور کی دوسری بیوی ہے۔ شوہر اسے ناپسند کرتا ہے اور ایسی صورت میں یلّاوا کے حاملہ ہونے کے بعد اس کی ایسی حالت میں دیکھ بھال کرنے کے لیے اس کے خاندان کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ حالات بگڑنے پر یلّاوا کے والد نے اسے کہا کہ اسے ندی میں کودنا ہی ہوگا۔ اس نے بتایا ’’میں نہیں جانتی کہ تیرا کیسے جاتا ہے۔ ہم بس ندی پر کپڑے دھونے جاتے تھے۔ پھر بھی میں کود گئی۔ صبح کے 10 بج رہے تھے لیکن پانی بہت ہی ٹھنڈا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا تھا۔۔۔ پھر میرے بھائی نے سوکھے ہوئے سیتا پھل اور لوکی کو میرے جسم کے آس پاس سٹا دیا تاکہ کچھ ہلکاپن لگے۔۔۔۔‘‘ پوری طرح سے تھکنے کے بعد بھی ان دونوں شے کی وجہ سے یلّاوا سطح پر تیرتی رہی۔ بھائی یلّاوا کے سامنے اور والد پیچھے پیچھے تیرتے رہے۔ اس نے بتایا ’’پانی نے اس کے چہرے کو پیچھے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔۔۔ میں سانس بھی نہیں لے پا رہی تھی۔۔۔ شروع میں پانی کے تیز بہائو کے سبب میں پلٹ بھی گئی۔ لیکن پھر میرے والد نے کہا کہ میں پیٹ کی جانب سے تیروں۔۔۔۔‘‘ نصف گھنٹے کی تیراکی کے بعد وہ لوگ ندی کے درمیان آ چکے تھے اور پانی دھیرے دھیرے گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ یلّاوا نے بتایا کہ ’’تھکاوٹ کے مارے اس نے پانی منھ میں لینا شروع کر دیا جس سے حالت مزید خراب ہو گئی اور ڈوبنے لگی۔ وہ بتاتی ہے کہ یہ سب کچھ بہت خوفناک تھا لیکن بھائی اور والد نے اسے پورا پورا تعاون دیا۔ 45 منٹ مزید تیرنے کے بعد وہ لوگ ندی کی دوسری جانب پہنچ گئے۔ عام طور پر 20 سے 25 منٹ میں پار ہو جانے والی ندی کو اس وقت پار کرنے میں انھیں تقریباً دو گھنٹے کا وقت لگا۔ ندی کی دوسری جانب پہنچ کر لوگوں نے اسے والدین کو اتنا بڑا جوکھم لینے کے لیے ڈانٹ لگائی لیکن یلّاوا کا کہنا ہے کہ اس کی جو حالت تھی، اس کے لیے یہ جوکھم اٹھانا بہت ضروری تھی۔ اس دلیرانہ واقعہ کا پتہ چلنے کے بعد ڈپٹی کمشنر اور ڈاکٹروں کی ٹیم نے کنبہ کے لوگوں سے ملاقات بھی کی۔ خصوصی ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ابھی تک بچے کی ولادت نہیں ہوئی ہے لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ماں اور بچے دونوں ہی صحت مند ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *