
کیا محض مذمت سے کام چلے گا یا صورتحال کا تقاضا کچھ اور ہے؟
ایف اے مجیب

ایک بار پھر اسرائیل کے ذریعہ غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول پر حملہ کیا گیا۔ حملے میں کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہیں۔اسرائیل کی اس حرکت پر اقوام متحدہ نے پہلے کی طرح اس بار بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نے اسرائیلی فضائیہ کی اسکول پر بمباری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی شدید خلاف ورزی اور ایک غیر اخلاقی و مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔ بانکی مون نے کہا کہ اس کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی اس فعل کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس طرح کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے اور دنیا کے سپر پاور ملک اور سپر پاور ادارے کی جانب سے سوائے زبانی جمع خرچ کے اور کوئی کام نہیں ہوا۔ ان طاقتوں کے اس عمل سے ہر کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ ایک ملک جسے دنیا میں قیام امن کی اس قدر فکر لاحق ہوتی ہے کہ وہ امن و امان کے نفاذ کے لئے کسی بھی ملک پر چڑھائی اور فوج کشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور امن کے قیام کے نام پر ہزاروں لاکھوں زندگیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں نہیں جھجھکتا اور وہ ادارہ جو امریکہ کے تقریبا تمام ہی فیصلوں میں اس طوعا یا کرہا ساتھ دیتا چلا آیاہے، آخر یہ اسرائیل کی اس طرح کی غیر انسانی حرکت پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتے؟
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کے بھی خلاف کارروائی کے لئے انہیں کچھ سوچنا نہیں پڑتا ہے ۔ امریکہ تو اپنے شہریوں یا اہلکاروں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو برداشت نہیں کرتا تو پھروہ بھی اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی کے حق میں کیوں نہیں ہے الٹا اسرائیل کے خلاف چھوٹی موٹی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیتا ہے۔خیر یہاں کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ دونوں ہی اسرائیل کے خلاف بیان بازی سے آگے جانے کو تیار نہیں جس کا مطلب صاف ہے کہ ان کے نزدیک اسرائیل کے ناجائز مفادات بھی حق بجانب ہیںاور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کوئی بھی کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔
اسرائیل کے ذریعہ فلسطین بالخصوص غزہ میں کی جارہی جارحیت کے نہ صرف دفاع بلکہ اس کے دفاع میں عملی اقدام کے ذریعہ ان طاقتوں نے اس کے غلط ارادوں کو اور بھی تقویت فراہم کر دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل کوئی بھی کرروائی کرنے سے پہلے کسی اخلاقی یا قانونی ذمہ داری کا خیال نہیں کرتا اور نہ ہی ان طاقتوں کو خاطر میں لاتا ہے۔ اب تو حد ہی ہو گئی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے اسکولوں پر بمباری شروع کر دی ہے، جہاں بڑی تعداد میں عام فلسطینی شہری پناہ لئے ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ جیسے ممالک اور ادارے اسرائیلی کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو اسرائیلی حق سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ فلسطینی اسرائیل پر ظلم ڈھاتے ہیں جس پر اسرائیل کو دفاعی اقدام کرنے کا حق ہے۔ شاید انسانی تاریخ میں اس طرح کی دلیل پہلے نہ سنی گئی ہو لیکن غالب گمان یہی ہے کہ ظالم و جابر اقوام ایسا کرتی رہی ہوں گی۔
ایک ملک جو چند کلومیٹر کے احاطے میں آباد لوگوں کا محاصرہ کرلے اور ان کے چلنے پھرنے اور کھانے پینے کی اشیاء تک کے نقل و حمل پر پوری نظر رکھے۔ جب چاہے اور جس کو چاہے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے ، جیلوں میں بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک کرے۔ ان کی زمین پر بیجا قبضہ کرکے اپنے شہریوں کو آباد کرے۔ ان کے مذہبی مقامات کو ڈھانے اور وہاں اپنا معبد بنانے کی سازشیں کرے، ایسے میں احتجاج کرنے والوں کو نہ بخشے، ان پر گولیاں چلا دے، جوابا ان کی پتھربازی، فائرنگ اور کم رینج کے ہلکے راکٹ داغنے پر دنیا بھر میں اپنے حلیفوں کے ساتھ ہنگامہ کرکے فضائی، بحری اور بری ہر طرح سے حملہ کردے۔ ہزاروں لوگوں بالخصوص بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنائے، پناہ گزیں کیمپوں پر بمباری کر، عالمی اداروں کے ذریعہ چلائے جا رہے تعلیمی، رفاہی کاموں کی جگہوں کو نشانہ بنا کر ان کے اہلکاروں کو ہلاک کردے۔ان طاقتوں کے بقول اس سے زیادہ مظلوم کون ہوگا؟ کیا انصاف کا یہی تقاضا ہے؟
عالمی طاقتوں کی یہی جانبداری اسرائیل کو اور بھی ظلم کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس کے اندر ہر طرح کا کوف نکل چکا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ وہ چاہے جو بھی کرے کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں اور اس کے پشتیبان ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب وہ کسی بھی قانون یا معاہدے کی پروا نہیں کرتا۔بلکہ بیشتر اہم معاہدے جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قرار پائے ہیں ان کو سب سے پہلے توڑنے والا اسرائیل رہا ہے۔اب تو اس نے اپنے ہی حلیف ممالک اور اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کا مقصد یہ کہ ایک طرف نوجوانوں ہلاک کر دیا جائے یا جیل میں بند کر دیا جائے۔ بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا جائے کیوں کہ یہی اس نسل کو آگے بڑھانے اور اس میں اضافے کا سبب ہیں۔دوسری جانب ان کے لئے کسی بھی طرح کی تعلیمی یا مالی مدد کو روکا جائے۔ اسکولوں، اسپتالوں، پناہ گزیں کیمپوں پر حملہ کرکے اسرائیل نے اسی بات کا ثبوت دیا ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ممالک، ادارے یا لوگ فلسطین کی حمایت میں آگے نہیں آ ئیں گے۔ اسرائیل اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اگر ابتدا میں ہی کسی کو غلط کام کرنے سے نہ روکا جائے تو دھیرے دھیرے وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر بعد میں روکنے سے بھی نہیں رکتا ہے۔اس سے بھی بڑی بات یہ کہ اگر اس کی غلط حرکت کی تائید کر دی جائے تو وہ اور بھی بڑا غلط کار اور ظالم ہوجاتا ہے اور پھر اس کے پاگلپن میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اپنے حلیفوں کو بھی نقصان پہنچانے سے نہیں چوکتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ کتا پاگل ہونے کے بعد مالک کو بھی کاٹ لیتا ہے۔
لھٰذا امریکہ اور اقوام متحدہ کو سمجھنا چاہئے کہ اب جب کہ وہ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل اب انہیں بھی دام میں نہیں لاتا اور ان کی منشا کے خلاف جا کر کارروائیاں کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کو جب یہ لگنے لگا ہے کہ اسرائیل کا محاسبہ کیا جانا چاہئے تو انہیں زبانی جمع خرچ کی بجائے عملا میدان میں آکر اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ کم از کم جرائم کی عالمی عدالت میں تو اس پر مقدمہ چلایا ہی جا سکتا ہے۔ نہیں تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ اسرائیل جو کچھ بھی کر رہا ہے اس کے پیچھے یہ طاقتیں بھی ذمہ دار ہیں۔کسی کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ عدال و انصاف کے بغیر امن و امان کا تصورخام خیالی ہے۔