
ہفتے میں صرف تین دن کام! – ’وہاٹ این آئیڈیا‘
نئی دہلی، 4 اگست (یو این بی): دنیا کے کئی بڑے صنعت کار ملازمین کے لیے ’تھری ڈے ویک‘ یعنی ہفتہ میں صرف تین دن کام کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان میں کارلوس سلم اور برینسن کمپنی بھی شامل ہے جن کا کہنا ہے کہ ہفتے میں تین دن کام کرنے سے لوگوں کی کارگزاری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ہندوستان میں ہیومن ریسورس سے منسلک افسران اس ’آئیڈیا‘ کو زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے سب سے امیر شخص میکسیکو کے صنعت کار سلم اور برطانوی صنعت کار برینسن تو ’تھری ڈے ویک‘ ماڈل کو خوب مشتہر کر رہے ہیں۔ اس ماڈل میں ملازمین ہفتے میں تین دن روزانہ 11-11 گھنٹے کام کریں گے۔ اس کے بعد انھیں چار دن کی تعطیل ملے گی۔ اس ماڈل کی حمایت کرنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ کم دن زیادہ گھنٹے کام کرنے سے ملازمین کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
بہر حال، ہندوستان کے معاملے میں ماہرین زیادہ خوش نظر نہیں آ رہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ہندوستانی ماحول میں یہ ’آئیڈیا‘ درست نہیں ہوگا۔ ایس اے پی لیب انڈیا کے ایچ آر ہیڈ ٹی شیو رام کہتے ہیں ’’11 گھنٹے کام کرنا 100 میٹر ریس دوڑنے جیسا ہے۔ ایسا کچھ ہی علاقوں کے لیے ہو تو ٹھیک ہے۔ کسٹمر سروس، ریٹیل، انٹرٹینمنٹ اور ہیلتھ کیئر جیسے شعبے اس ماڈل پر کام نہیں کر سکتے۔‘‘ شیو راج کہتے ہیں کہ ترقی پذیر اقتصادی نظاموں میں پیداواری ہی اصل منتر ہے اور زیادہ ملازمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے یہ ماڈل کام نہیں کرے گا۔ کچھ ماہرین کو اس سے آمدنی میں کمی ہو جانے کا خوف بھی ستا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو گھنٹے کے حساب سے پیسہ ملتا ہے، ان کی آمدنی کم ہو جائے گی اور اپنے خرچ پورے کرنے کے لیے انھیں دوسری ملازمت بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔ ریکروٹمنٹ فرم اینٹن انٹرنیشنل نیٹورک کے منیجنگ پارٹنر جوسیف دیواسیا کہتے ہیں ’’ہم ہندوستانی تو ویسے ہی پیداواریت کے معاملے میں بہتر نہیں ہیں۔ تین دن کام سے یہ شعبہ مزید متاثر ہوگا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اب 5-6 دن کام کر کے بھی لوگوں کی پیداوارانہ صلاحیت مغربی ممالک کے تین دن جتنی ہی ہے۔‘‘