ایف اے مجیب
گجرات فسادات اور بالخصوص نرودا پاٹیا کا قتل عام ہر کسی کو یاد ہوگا ۔ عام لوگوں کو یاد ہو یا نہ یاد ہو جو لوگ اس سے براہ راست متاثر ہوئے یا جو برسوں سے اس کی قانونی چارہ جوئی یا انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں انہیں تو اس کا بخوبی علم ہوگا۔ نرودا پاٹیہ میں تقریبا 97 افراد کا قتل کردیا گیا تھا۔ ایک لمبے عرصے کی جدو جہد کے بعد مظلومین کو کچھ امید کی کرن نظر آئی جب خصوصی عدالت نے اس سلسلے میں ریاستی وزیر اور نرودہ سے رکن اسمبلی مایا بین کوڈنانی اور بجرنگ دل کے لیڈر بابو بجرنگی سمیت 29 افراد کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے یکم اگست 2012 کو عمر قید کی سزا سنائی۔ لوگوں نے سوچا دس سال بعد ہی سہی کچھ قصورواروں کو سزا تو ملی۔ یہ اور بات ہے گلبرگ سوسائٹی قتل عام معاملہ میں ذکیہ جعفری اپنے مقتول شوہر کے لئے انصاف کی پکار لگاتی رہیں لیکن کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا اور آج تک کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کے قاتلوں کو آنچ تک نہیں آسکی۔
صرف ذکیہ جعفری ہی واحد بیوہ نہیں ہیں جنہیں ابھی تک اپنے شوہر کے لئے انصاف کا انتظار ہے بلکہ ایسے سیکڑوں افراد ہیں جو فسادات میں اپنی بربادیوں کے قصے لئے پھرتے ہیںاور بہت سے تو فسادات کے بعد قانونی چارہ جوئی کی پیچیدگیوں اور خوف و ہراس کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ حد تو یہ رہی کہ تیستا سیتلواڈ جیسی بے بیباک اور انصاف پسند خواتین ، جو کسی حد تک مظلومین کو انصاف دلانے کے لئے میدان میں اتری تھیں انہیں بھی نشانہ بنایا گیا اور ان کی نہ صرف تنقید کی گئی بلکہ انہیں دھمکیاں بھی ملیں۔بہر حال جو بھی ہوا لوگ سمجھ رہے تھے کہ چلو پوری طرح سے انصاف نہ سہی کچھ لوگ تو کیفرکردار تک پہنچ رہے ہیں۔
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے گجرات کی مودی سرکار جسے کئی بار سپریم کورٹ کی طرف سے سرزنش کی جا چکی تھی اور جس پر فسادات نہ روکنے اور فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوتے رہے تھے ، اکثریت کے ساتھ مرکز میں پہنچ گئی۔نریندر مودی کو فسادات کے معاملہ میں کلین چٹ مل گئی وہ وزیر اعظم بن گئے اور ان کا دایاں ہاتھ سمجھے جانے والے گجرات کے سابق وزیر داخلہ جنہیں فرضی انکاؤنٹر کرانے کے الزام میں جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی ، کلین چٹ پاکر بی جے پی کے قومی صدر بن گئے۔ گجرات ماڈل کے نعرے کے ساتھ مودی سرکار گجرات سے دہلی پہنچ گئی۔
نریندر مودی اور امت شاہ کو کلین چٹ ملنے کے بعد سلسلہ مزید آگے بڑھا اور اب نرودہ پاٹیہ قتل عام معاملے میں قصوروار پا ئے جا چکے لوگوں کو بھی راحت ملنی شروع ہو گئی ہے۔چند دن پہلے گجرات کی سابق وزیر مایابین کوڈنانی کو گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے مستقل ضمانت مل گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوڈنانی کی ضمانت پر روک لگانے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے قائم خصوصی تفتیشی ٹیم نے درخواست بھی دی تھی جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔
مایاکوڈنانی کے بعد اب گجرات ہائی کورٹ نے نرودہ پاٹیا قتل عام کے مجرم اور وشوہندوپریشد کے لیڈر بابو بجرنگی کو بھی ضمانت دے دی ہے۔ بابو بجرنگی اور مایابین کوڈنانی کو صحت کی بنیاد پر ضمانت دی گئی ہے۔ یہ وہی بابو بجرنگی ہیں جنہیں ایک خبررساں ادارے کے اسٹنگ آپریشن میں نہ صرف اعتراف جرم کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا بلکہ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بھی لوگوں نے دیکھا تھا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ مجرم ثابت ہونے کے بعد قتل عام میں ملوث ہونے کے لئے کڑی سے کڑی سزا دی جاتی جیسا کہ بعض کیسوں میں دیکھا گیا ہے، انہیں صحت کی بنیاد ہر ضمانت دے دی گئی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ گجرات فسادات کے ان قصورواروں کو جرم ثابت کے کے بعد جب صحت کی بنیاد پر ضمانت مل جا رہی ہے تو پھر بیچاری پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت جیسے لوگوں کو کیوں نہیں مل سکتی ہے؟ آخر اس پہلے پرگیہ کی جانب سے خرابی صحت کی بات کہی گئی تھی۔ملک میں مودی حکومت کے قیام کے بعد سے جس طرح کا ماحول بن رہا ہے۔ مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور افواہوں کے ذریعہ فسادات کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ شدت پسند اور فرقہ پرست ادارے اور ان سے جڑے افراد جس طرح سے سر اٹھا رہے ہیںوہ ملک میں امن و سلامتی کے لئے اسی قدر خطرے کی گھنٹی ہیں۔
بہرکیف کہنے کا صرف یہی مطلب نہیں ہے کہ گجرات فسادات اور ملک میں بم دھماکوں کے الزام میں جیلوں میں بند افراد کی رہائی کے لئے راہیں ہموار ہو رہی ہیں بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکومت ہو اس کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پوری طرح سے انصاف کو قائم کرے۔ انصاف میں جانب داری کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے ۔ جس پر بھی جرم ثابت ہو اسے کیفرکردار تک پہنچایا جانا لازمی ہے تاکہ دوسری اس سے عبرت حاصل کرے اور اس طرح کے اقدامات سے باز رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ملک کو آگے لے جانا ہے اور اسے مزید ترقی دینی ہے اور ملک سے واقعتا محبت ہے تو یہاں امن و امان کے قیام کا بیڑہ اٹھانا ہوگا۔اور ملک میں امن و آشتی کا قیام انصاف اور یکساں برتاؤ کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی ہے۔
ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی یہاں کی یونٹی ان ڈائیورسٹی یعنی تنوع میں اتحادہے۔ مختلف، رنگ، نسل، زبان، مذہب اور ثقافت کی حامل یہاں کی عوام کو اگر صرف انہیں کے رنگ ، نسل اور زبان سے پہچانا گیا اوراس بنیاد پر ان کے ساتھ تفریق کی گئی یا ان پر ہونے والے ظلم و جبر کو نظر انداز کیا گیا تو ملک میں امن و سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ملک میں جس طرح سے افواہوں کا بازار گرم کرکے یا چھوٹے سے واقعے کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے کر شرپسند عناصر بڑے فسادات کا سبب بنا دیتے ہیں ان پر لگام لگائی جانی چاہئے۔ ملک میں سیکورٹی اداروں کو مزید مستحکم کیا جانا چاہئے۔ اگر کسی جگہ پر کوئی بات سامنے آتی ہے تو پہلے اس کی تحقیق کی جانی چاہئے اور اگر کوئی اس تحقیق میں رخنہ ڈالتا ہے یا اس سے اوپر ہوکر چلنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جانی چاہئے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قانون و انتظام کی صورتحال کو بہتر بنائے رکھنے کے لئے سخت سزاؤں کا التزام ضروری ہے اور اس کے ساتھ انصاف کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔
غالب گمان یہی ہے کہ ملک کا ہر شہری امن پسند ہے ۔ امن و آشتی کا خواہاں ہے۔ ہر کوئی ترقی کرنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی اپنے مذہب اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ چاہتا ہے۔ لیکن دشواری تب ہوتی ہے جب شرپسند عناصر ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دیتے ہیں۔ اب تو سیاست کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب قصورواروں کو واقعی سزا نہیں ملتی تو ایک طرف ان میں منفی جذبہ مزید ابھرتا ہے جب کہ فریق ثانی خود کو زیادہ مظلوم و مقہور تصور کرنے لگتا ہے اور یہیں سے دوریاں اور نفرتیں جگہ لینے لگتی ہیں۔