سید خرم رضا
آج کی نئی نسل شاید جنرل محمد ضیاء الحق سے واقف نہ ہو لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب شائد ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب کسی اخبار میں جرنل صاحب کا تذکرہ نہ ہوتا ہو اور کیوں نہ ہوتا جنرل صاحب کی شخصیت تھی ہی کچھ ا یسی۔ ارے صاحب جرنل صاحب نے کچھ ایسے کارنامے انجام دئے ہیں جن کو کرنے کا شائد کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ویسے تو پاکستان میں کئی مرتبہ مارشل لا لگا اور فوج نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی مگر جنرل صاحب کا دور اقتدار بڑا تاریخی نوعیت کا تھا۔ 1978میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جنرل صاحب سے اوپر چار سینئر فوجی افسران کو نظر انداز کرکے ان کو ملک کا فوجی سربراہ بنایا تھا لیکن ایک سال بعد ہی جنرل صاحب نے اس احسان کا بدلہ ایسے ادا کیا کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈلوا دیا بلکہ د و سال کے اندر ان کو تختہ دار پر بھی چڑھوا دیا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا اب تک کا واحد معاملہ ہے جب ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی ہوئی ہو۔ اس کے بعدجنرل صاحب زندگی کی اپنی آخری سانسوں تک اقتدار پر کسی نہ کسی شکل میں قابض رہے۔ اس کا سہرا بھی ان کے ہی سر جاتا ہے کہ امریکہ کی ہم پلہ طاقت سوویت یونئن کو دنیا کے نقشہ سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا۔ سوویت یونئن کے خلاف جو جنگ بظاہرافغانستان لڑ رہا تھا وہ حقیقی معنی میں امریکہ کی سرپرستی میں جنرل صاحب کی فوجیں ہی لڑ رہی تھیں۔ آج پاکستانی فوج کا ایک طبقہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ طالبان دراصل فوج کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی دین ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان تحریک جنرل صاحب ہی کی دین ہے ۔ ان کے 11سال کے اقتدارکا خاتمہ اس وقت ہوا جب 1988میں ایک طیارے حادثہ میں ان کی موت واقع ہوئی۔اس حادثہ میں ان کے ساتھ پاکستانی فوج کے کئی سینئر افسران اور امریکی ڈپلومیٹ بھی شکار ہوئے۔ کچھ لوگوںکی نظر میںجنرل صاحب ایسے حکمراں تھے جنہوں نے صرف اور صرف امریکہ کے ایجنڈے کو لاگو کیا اور کچھ کی نظر میں وہ خدا کا خوف رکھنے والے مذہبی رہنما تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی غلط نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے پاکستانی حکمراں تھے جنہوں نے ملک میں شرعی قانون کے نفاذ کے لئے جر ات کا مظاہرہ کیا اور پورے معاشرے کو مذہبی رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کی اس کے ساتھ میں امریکہ کے ایجنڈہ کو کامیابی سے عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی ہر ممکن کوشش کی اور امریکہ کے سب سے بڑے حریف سوویت یونئن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں میں تبدیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک طبقہ ان کی ہمیشہ تعریف کرتا رہے گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان آج جن برائیوں کے گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے اس جنگل میں جنگلی پودے جنرل صاحب کے دور میں ہی اگنے شروع ہوئے تھے لیکن امریکہ نے ان کی آنکھوں پر اقتدار کا ایسا چشمہ لگا دیا تھا کہ جنرل صاحب کو یہ جنگلی پودے پھل د ار درخت نظر آ رہے تھے ۔ جنرل صاحب نے پاکستان میں جومذہبی اور مسلکی شدت پسندی کا پودا اس دور میں لگا یا تھا اسی پودے نے دہشت گردی اور گن کلچر کو جنم دیا جو پاکستا ن کے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے ایک لعنت بن کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ اپنے مقاصد میںپوری طرح کامیاب رہا۔ اس نے سوویت کو بھی ختم کرا دیا اور پاکستان کو بھی ایک ناکام ریاست میں تبدیل کرا دیا۔ اور جنرل صاحب کی بے لوث خدمات کی وجہ سے امریکہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا۔
آج سوویت یونئن کی جگہ چین نے لے لی ہے اور وہ دنیا کے نقشہ پر ایک بڑی طاقت بنکر سامنے آیاہے۔ ظاہر ہے چین کا طاقتور ہونا امریکہ کو کیسے گوارہ ہو سکتا ہے اس لئے اب وہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ چین کی ترقی کی رفتار اگر رکے نہیں تو دھیمی ضرور ہو جائے۔اس کے لئے وہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی خدمات لینے کے لئے ماحول بنائے۔ ہماری خدمات کے بدلے میں ہمیں کچھ چھوٹی موٹی رعائتیں بھی ملیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملک میں آنے والے دنوںمیں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہو اور پورے سماج میں بے چینی ہو جس کا پورا فائدہ امریکہ اٹھائے ۔ ایسے ہی نازک اور حساس موقعوں پر ہمارے قائدین اور اقتدار کے اعلی منصب پر بیٹھے لوگوں کا امتحان ہوتا ہے۔یہ وہ موقع ہے جب ہمیں اپنی گنگا جمنی تہذیب کو بھی بچانا ہے اور ملک کو ترقی اور کامرانی کے راستے سے بھی نہیں ہٹنے دینا ہے۔ اگر ہم نے اپنی نگاہیں اپنے مقصد سے ہٹا لیں اور کسی دوسرے ملک کے چشمے سے چیزوں کو دیکھنا شروع کر دیا تو ہم اپنے راستے سے تو بھٹک ہی جائیں گے ساتھ میں ہمارے سماج میں بد امنی اور بے چینی پیر پسار کر سوئیں گی۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنا ہے کسی دوسرے کے ایجنڈے سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ (یو این بی)