کاروباری مقابلہ اور شرعی ہدایات

کاروباری مقابلہ کوئی بری چیز نہیں۔ صارفین کو بہتر سے بہتر چیز پہنچانا اور خریدار کا دل جیتنا بہت بڑی نیکی ہے۔ ایسا کاروباری مقابلہ (business competition) جس میں بنیادی مقصد گاہک کو لوٹنا ہو ، زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا اور اپنے کاروباری حریف (business copetitor) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاناہو، ایسے مقابلے کی نہ عقل حمایت کرتی ہے نہ ہی شریعت۔کاروباری مقابلے کو نہ تو جنگ کی صورت اختیار کرنا چاہیےجس میں ایک جانب کی یقینی شکست اور ہمیشہ کی ذلت ہے، جبکہ دوسری جانب فتح یاب اور کامیاب کہلاتی ہے۔ کاروباری مقابلہ تو رحمت ہے، جس میں گاہک اور خریدار کو فائدہ ہوتا ہے، جبکہ مختلف تاجروں یا کمپنیوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں شریعت کی روشنی میں کاروباری مسابقت (business competition) کا دائرہ کیا ہے؟ اور کن کن چیزوں کا خیال رکھ کر کاروباری مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
سچائی:
سچ تو ہر مسلمان کو بولنا چاہیے۔ مگر کاروبار میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ کوئی بھی جھوٹی افواہ کسی کا کاروبار تباہ کرسکتی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کرنے والے کتنے ہی تاجر اپنی دولت اسی جھوٹی اطلاع کی وجہ سے لٹا بیٹھے۔احادیث مبارکہ میں بے شمار بار حکم دیا گیا ہے کہ تجارت اور کاروبار میں سچ بولنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرید و فروخت کرنے والے دونوں افراد کو اختیار حاصل ہوتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہیں ہوجاتے۔ اگر دونوں سچ بولیں اور تمام عیب یا خامیاں بتادیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اگر دونوں جھوٹ بولیں اور ایک دوسرے سے معاملات چھپائیں تو اس سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تاجر گناہ گار ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: (ایسا کیوں ہے؟) کیا اللہ تعالی نے خرید و فروخت کو حلال نہیں کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرید و فروخت تو حلال ہے، مگر تاجر (جب خرید و فروخت میں) قسم اٹھاتے ہیں، تو گناہ گار ہوتے ہیں، جب گفتگو کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں۔ (مسند احمد)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین افراد کو قیامت کے دن اللہ تعالی رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تین بار دہرایا اور پھر فرمایا: ایک چادر ٹخنے سے نیچے کرنے والا، دوسرا احسان جتانے والا، تیسرا جھوٹی قسمیں اٹھا کر سامان بیچنے والا۔ (مسلم، ترمذی)
کاروباری مقابلہ کرنے والی کمپنی یا دوکان یا تاجر کو بھی چاہیے کہ سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔ جعلی پروپیگنڈہ یا گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے جھوٹے دعوے ہرگز نہیں کرنے چاہئیں۔ اس پروپیگنڈے سے چند گاہک شاید متوجہ ہوجائیں، مگر ایسی شہرت اور ناموری چند روز کی ہوتی ہے۔ جھوٹ بول کر ایک بار تو نفع کمایا جاسکتا ہے، مگر ہمیشہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ اپنے حریف کو پچھاڑنا چاہتے ہیں تو حقیقی اقدامات کریں۔ عوام کو زیادہ سے زیادہ سستی چیزیں فراہم کریں۔ کاروباری ماہرین کہتے ہیں کہ مقابلے میں وہ کمپنی یا دوکان ہی کامیاب رہتی ہے جو کم نفع رکھے اور زیادہ سے زیادہ سامان بیچے۔ اس طریقے سے گاہک کا اعتماد بھی قائم ہوتا ہے اور کمپنی بھی ترقی کرتی ہے۔
اس لیے ہر کمپنی پر لازم ہے کہ
1 اپنے اشتہارات میں درست اور سچے اعداد و شمار پیش کرے۔ عوام کو فریب دینے کے لیے جھوٹے اعداد و شمار کا سہارا نہ لے۔
2 اپنی بیلنس شیٹ اور سالانہ نفع میں بھی حقیقی اعداد و شمار پیش کرے، کامیابی اور نفع کے جھوٹے دعوے نہ کرے۔
3 اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے لیے بہت اہم ہے کہ درست معلومات فراہم کرے۔
4 بروکریج ہائوس میں بیٹھنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ کلائنٹ کو درست معلومات فراہم کریں۔
5 کمپنی اپنے کاروباری حجم کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی تو نہ کرے، مگر بلاوجہ خود کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور دوسری کمپنیوں پر برتری ثابت کرنا جائز نہیں۔
6 بہت سی کمپنیاں جعلی سروے اور جھوٹی رپورٹس کا سہارا لے کر اپنے حریف کو نفسیاتی طور پر ہرانا چاہتی ہیں، ایسے سروے اور رپورٹ کا پیش کرنا ہرگز درست نہیںہے۔
7 جھوٹی افواہیں پھیلانا اور اپنے حریف کو بدنام کرنا یا اس پر جھوٹا الزام لگانا بھی درست نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *