زبیر حسن شیخ
عمومی طور پہ دیکھا جائے تو دن بہ دن تعلیمی معیار پست ہوتا جارہا ہے. سرکاری اسکول ہوں یا پرائیویٹ یا اعلی تعلیمی مراکز سب مادیت پرستی کے شکار ہیں. اکثر اسکول سالانہ نصاب کو جیسے تیسے ختم کرنے پر کار بند ہیں. ٹیوشن کے نام پر صرف ان طلبا کی کھیپ تیّار کی جارہی ہے جو مارکس حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں . نصاب کا حال انتہائی پیچیدہ اور عملی زندگی سے میل نہیں کھاتا. پندرہ سالہ تعلیمی دور کا عملی زندگی میں صحیح اورحقیقی مصرف تلاش کرنے میں اکثر نوجوان کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں. مشکل سے بیس فیصد نصابی تعلیم کا عملی زندگی میں استعمال کر پاتے ہیں. مغربی طرز تعلیم کے کچھ روشن پہلو ضرور ہیں لیکن ان میں اور مغربی طرز تربیت میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے. نفسانفسی کے اس دور میں صرف معقول تربیت ہی ہے جوایسی تعلیم کے لاشے میں جان ڈال سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو تعلیم کا صحیح مصرف عطاکر سکتی ہے. بچپن کی زرخیز زمین میں تعلیم کا بیچ بوکر ماحول کے معتدل موسموں میں تربیت کےآب زم زم سےآبیاری کی جائےگی تو وہ شجر تنومند اور ہر بھرا ہوگا. غیر انگریزی یا اردو زبان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ سچائی خوش دلی سے قبول کرنی ہوگی کہ انگریزی سے لاپرواہی اپنی معاشی اور پیشہ وارانہ ترقی سے لاپرواہی ہوگی اور اردو سے لا پرواہی کرنا اپنی تہذیب و تمدن سے لا پرواہی ہوگی. اس مسئلہ کا سیدھا سادہ حل ہے کہ ان دونوں زبانون میں کڑی محنت اور ذوق و شوق درکار ہے اور جدید دور میں اس مقصد کے حصول کے لئے کافی وسائل اور ذرائع موجود ہیں. نوجوانوں کو اس حقیقت کو فراخدلی سے قبول کرنا ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے سے اپنی مادری زبان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوتی. موجودہ ترقی کی دوڑ میں سہل پسند تعلیمیافتہ نوجوانوں کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس کے لئے ضروری ہے کے نوجوان خود اپنی شخصیت کا تجزیہ کریں کہ وہ زندگی میں روحانیت اور مادیت میں کس قدراعتدال و توازن چاھتے ہیں. اس توازن کو سمجھنے کے لئے ہماری دانست میں خلفائے راشدین کی سیرت کا اجمالی مطالعہ بے حد سود مند ہو سکتا ہے یا ان تاریخی شخصیات کی سیرت کا جن میں ان خلفاء کا پرتو نظر آتا ہو.ہر ایک نو جوان اپنے بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے کہ وہ کس قدر ترقی کی دوڑ میں بھاگ سکتا ہے اور کس مقام کو پا سکتا ہے، اس مقام سے اسکی جائز خواہشات اور ضرورتوں کی تکمیل ممکن ہے یا نہیں. اور ہے تو کتنی ہے. اور یہ بھی کہ کیا وہ ایک قناعت پسنداور اولوالعزم شخض ہے یا کاہل یاسہل پسند. کیا وہ دنیا سے صرف بنیادی ضرورتوں کا تقاضا کرتا ہے یا اسے دنیا کی بیشتر یا تمام آسائیش درکار ہے. کیا وہ چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے گنتی کے چند حضرات کی مثال کو سامنے رکھنا چاہتا ہے. یا ان بے شمار لوگوں کی مسلسل تگ و دود سے حاصل شدہ کامیابی کو مثال یا معیار بنانا چاہتا ہے جوفطری اور تدریجی طرز عمل کی عکاسی کرتی ہے. اور کیا وہ ایک اولوالعزم شخض ہے اور اپنی اور خاندان اور سماج کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہے. اور اپنی تعلیم، قابلیت، عمر اور ذمہ داریوں کے مد نظر روزگار کے ذرائع تلاش کرنا چاھتا ہے. مذکورہ نکات کا تجزیہ کرنا اور اپنی شخصیت کو سمجھنا بہت اہم ہے. ضروری نہیں کے ہر نوجوان ایک جیسے نتیجہ پر پہنچے. ضروری یہ ہے کے اس تجزیہ کے بعد ہی عملی میدان میں کودے اور پھر مسلسل یہ تجزیہ جاری رکھے کیونکہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ اس توازن میں اپنی شخصیت اور تربیت کے مطابق کمی بیشی ہوتی رہتی ہے.
پچھلی دو دہائی میں بی اے، بی کوم، ایم اے ایم کوم، اور بی ایس سی ایم ایس سی پاس اسناد اتنی عام ہو چکیں ہیں کہ ان اسناد سے نوکری مشکل سے ملتی ہے اور کو ئی اچھا عہدہ پانا تو بے حد مشکل ہوتا ہے. اس لئے عملی میدان میں کودنے سے پہلے مناسب سرٹیفیکٹ کورسیس کرنا از حد ضروری ہے . یہی حال انجینیرنگ، آرٹ اور فن کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کا ہے. انجینیرنگ اور ٹیکنالوجی کے متخصص آسانی سے ملازمت تو پا لیتے ہیں لیکن معاشیات اور انتظامیہ کے شعبہ سے نابلد ہونے کی بنا پر ترقی کے ابتدائی مقام پر جا کر رک جاتے ہیں گریجویشن کے ساتھ ساتھ مختلف قلیل مدتی کورسیس بے حد ضروری ہوتے ہیں۔ “پرسنالٹی ڈویلوپمنٹ”، “انگلش پروفیشنل ریڈنگ اینڈ رایٹنگ”، بنیادی اور خصوصی کمپیوٹر ٹریننگ، لینگویج کورسیس، پی جی ڈی (پوسٹ گریجویشن ڈپلومہ)، پروجیکٹ مینیجمنٹ، فائنانس فار نان فائنانشیئلز” اور ایسے ہی دیگر اورکئی کورسیس ہیں جو اصل ہدف سے مطابقت رکھتے ہیں اور جن کا حصول ضروری ہے. موجودہ دور میں فاصلاتی تعلیم اور اسناد کا حاصل کرنا مشکل نہیں رہا. کوئی بھی انجینیرنگ، بی ایس سی، بی اے یا بی کوم پاس آسانی سے ایم بی اے یا پی جی ڈی کرسکتا ہے. کوشش کریں کہ ایم بی اے کرنے سے پہلے مناسب تجربہ حاصل کرلیں اور قلیل مدتی ایکزیکٹیو ایم بی اے بھی کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی فاصلاتی کورسیس کی بدولت، “مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ”. اور یہاں بھی بات وہی اپنی ذات کے تجزیے کی اور مذکورہ توازن کی ہے. موجودہ دور میں ایم بی اے کی مختلف شاخیں وجود میں آ چکی ہیں. لیکن اس حقیقت کو مد نظر رکھیں کہ آنے والے دور میں ایم بی اے کی اسناد بھی بی اے ڈگری سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوگی. اس لئے جو نوجوان ابھی اپنے ہدف کو سمجھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں انھیں “پوسٹ گریجویشن” کے ساتھ ساتھ مناسب قلیل مدتی کورسیس پر دھیان دینا چاہیے. دوسری اہم بات یہ ہے کہ نوکری کرتے ہوئے بھی مختلف طریقوں سے اعلی تعلیم اور قلیل مدتی کورسیس کرنے کا عمل جاری رکھا جا سکتا ہے اور یہ طریقہ کار آزمودہ اور بے حد کار آمد ہوتا ہے. اسناد کے ساتھ تجربہ کی اہمیت بہت ہے اور اس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں. اس میں بھی محنت زیادہ کرنی ہوتی ہے لیکن نتایج دور رس ہوتے ہیں.
نوجوانوں میں یہ بات نقص کے بجائے اوصاف میں شمار ہونے لگی ہے کہ آپ بے شمار کمپنیوں کا سابقہ تجربہ رکھتے ہو اور آپکی تبدیلیء ملازمت کا اوسط زیادہ ہے. لیکن انھیں اس غلط فہمی کے دائرے سے باہر آنا چاہیے کہ عالمی سطح کے تجارتی مراکز میں اعلی عہدوں کی امیدواری میں شامل ہونے کے لئے کم از کم پانچ سالہ سابقہ ملازمت کا کامیاب ریکارڈ درکار ہوتا ہے. اس لئے کسی بھی ابتدائی ملازمت کو کم از کم پانچ سال کے عرصہ تک خوش اسلوبی سے انجام دے کر اور خاطر خواہ تجربہ حاصل کر کے کہیں اعلی عہدے کے لئے درخواست دینا بہتر ہے. عجلت میں حاصل کی ہوئی ترقی بہت کم پائدار ہوتی ہے. ترقی اور کامیابی حاصل کرتے ہوئےاکثر کو دیکھا گیا ہے لیکن بہت کم اس مقام پر جمے رہ پاتے ہیں اور آگے بڑھ پاتے ہیں. اب رہی بات ان داستانوں کی جب “فرسٹ کلاس پوسٹ گریجویٹس اور ایم بی اے” نامور عالمی تجارتی مراکز میں کروڑوں کی ملازمت پاتے تھے اور جسکا اشتہار میڈیا جا بجا کیا کرتا تھا وہ سب پانی کے بلبلے ثابت ہویے ہیں.
ایچ آر ایم ایس اور “ملازمت کی تلاش ختم” کے نام سے ملازمتیں ملنا آسان تو ہوگئی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پیچیدگیاں اور بھی بڑھ گئی ہیں. اپنے پیشہ ورانہ مقاصد کے حصول کے لئے ایک ہدف، مختلف طریقہ کار و آلہ کار اور سنگ میل کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مقاصد کے حصول میں آنے والی مشکلوں پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے سے بہتر ہے کے ہدف کو حاصل کرنے کے طریقہ کار و آلہ کار کا مطالعہ اور مشق جاری رکھیں یا کو ئی بھی عارضی ہدف اپنایا جائے جو اصل ہدف کے قریب تر ہو. اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کے آپ کسی تیز رفتار سواری کے انتظار میں کھڑے ہیں اور اس مخصوص سواری کو آنے میں کافی تاخیر ہو رہی ہے. جو سواریاں آ رہی ہیں وہ مسافروں سے لدی ہوئی ہیں اور آپکے مزاج اور رتبے سے مناسبت نہیں رکھتی. یا پھر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے. یا آپکے پاس ضروری قوت ارادی اور قابلیت کا فقدان ہے. یا آپ اپنی مطلوبہ سواری کےانتظار میں وقت ضائع کر رہے ہیں. ٹہل رہے ہیں، فکر مند ہیں اور یا تو خوش فہمی میں مبتلا ہیں یا پھر قسمت سے بدگماں ہیں یا خوابِ خرگوش میں ہیں – جھنجلائے ہوئے بھی ہو سکتے ہیں. ایسے میں بہتر ہے جو بھی سواری ہدف کی سمت جاتے ہوئے ملے اپنے مزاج کو طاق پر رکھ کر اس سواری میں چڑھ جائیں اور اپنے ہدف کا کچھ راستہ طے کرلیں. لیکن ہدف سے آنکھ نہ ہٹایں اور نہ ہی منہ موڑیں اور نہ ہی طریقہ کار و آلہ کار کے مطالعہ اور مشق سے درگزر کریں. اپنے کیرئیر میں پلیٹ فارم پر کھڑے رہنے سے بہتر ہے ہمیشہ سفر میں رہیں چاہے سواری جیسی بھی ہو. روزگار اور پیشہ ورانہ سفر میں ہر ایک سواری ہدف کی سمت ہی گامزن ہوتی ہے لیکن عارضی ہدف کو اصل ہدف بھی نہ سمجھ لیں.
معاشی اور پیشہ وارانہ ترقی کا کلیدی پہلو یہ ہے کہ پہلے” کچھ” حاصل کرنا ہوتا ہے. اور اس کے بعد ہی کچھ نہ کچھ یا “بہت کچھ” ہو سکتا ہے. اس کے یہ معنی بلکل نہیں ہے کے انسان بڑے خواب نہ دیکھے یا بڑی خواہش نہ کرے. وہ چاند پرگھر بسانے کی خواہش رکھتے ہوئےصرف زمیں پر اچھل کود سے شروعات نہیں کر سکتا. گنتی کے ان چند کامیاب لوگوں سے متاثر ہونا غلط طرز فکر ہے جن پر قسمت راتوں رات مہربان ہوجاتی ہے یا جنھیں بغیر “کچھ” کیے یا کچھ غلط کیے بہت کچھ مل جاتا ہے. حضرت سعدی شیرازی کی ایک حکایت اپنی ذات کے تجزیے اور اعتدال و توازن کے مفہوم کو سمجھنے میں کچ مددگار ثابت ہو سکتی ہے . ایک فقیر نے سعدی کے محل کے دروازے پر پہونچ کر ایک درہم کا سوال کیا. سعدی نے فرمایا ہماری حیثیت کے مطابق مانگ، فقیر نے کہا پھر اپنا محل دے دو. سعدی نے فرمایا ہمنے تجھے ہماری حیثیت یاد رکھنے کہا تھا اپنی حیثیت بھولنے نہیں . اخلاقی اقدار میں پستی اور عقاید میں اختلافات نے تعصب پسندی کا زہر انسانوں کے دلوں میں بھر دیا ہے اور بہت کم انسان اس زہر کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں. ملازمت پیشہ خواتین و حضرات کو اس کا مقابلہ صبر و تحمل سے کرنا ہوتا ہے اور اپنے ہدف پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے. حقیقت پسندی اور تعصب پسندی میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے. تعصب تو ویسے بھی ایک خوبصورت شخصیت کے لئے کسی گہن سے کم نہیں لیکن تعلیم اور روزگار کی راہ میں کسی بھی قسم کا تعصب ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے. لسانی تعصّب سے لیکر مذہبی، مسلکی، طبقاتی، علاقایی، ملکی، نسلی، رنگی، پیشہ ورانہ اور ہر قسم کے تعصّب سے بھرے لوگ ہر ملک اور علاقہ میں مل جائیں گے. اکثر نوجوانوں کو تعصب کے خوف سے چولا بدلتے یااپنی شناخت کو چھپاتے یا اسمیں تبدیلی کرتے دیکھا گیا ہے جو ایک احمقانہ فعل ہے. شخصیت کے اجمالی مفہوم میں ظاہر اور باطن کے تمام پہلو شامل ہوتے ہیں اور اچّھے باطنی پہلو دور رس نتایج کے حامل ہوتے ہیں. ظاہری شخصیت کے تعلق سے آگے چند اہم باتیں بتائی گئی ہیں. اس سوچ میں رہنا کہ ہر کوئی آپ کے ساتھ تعصّب رکھے گا تو یہ غلط سوچ ہوگی.
عام معلومات کی اہمیت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے. موجودہ دور میں معلومات کی نوعیت جتنی اہم ہے اتنی ہی آسانی سے دستیاب بھی ہے بلکہ انگلیوں کی جنبش سے حاصل کی جاسکتی ہیں. اس کے لئےانٹرنیٹ پر مطالعہ اور اسکا مثبت استعمال کیا جاسکتا ہے. نیک جذبات کو اپنے اندر پروان چڑھانا ایک اچّھی شخصیت کی تعمیر کے لئے بے حد ضروری ہے لیکن موجودہ نسل کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ مادیت پرستی کے اس دور میں اکثر غیر ضروری جذباتیت کا شکار ہو جاتی ہے. دیرینہ یاری، بچپن کی دوستی اور ایسے ہی دیگر احساسات کے تحت اکثر تعلیم و روزگار کے مسائل کو دوستوں یاروں کے من مطابق حل کرنا چاہتی ہے. جبکہ ان معاملات میں انھیں بہ نسبت دیگر احباب کے ہم پیشہ و ہم مزاج احباب کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ضروری ہوتا ہے نہ کہ ہم پیالہ و ہم نوالہ کے ساتھ. تعلیم و روزگار کی دوڑ میں کبوتر . باکبوتر، باز با باز کی طرز اختیار کرنا بہتر ہے.
مالک حقیقی نے ہر ایک انسان کی صورت کیا خوب اور نقص سے پاک بنائی ہے اور اسکا اعتراف بھی کیا ہے اور اعلان بھی. پھر بھی وہ عبادات کے اوقات میں ملاقات کرنے آنے والے بندوں کو جائز زینت اور بناؤ سنگھار کرنے کی ترغیب دیتا ہے. روزگار کو بھی اپنا فضل بتاتا ہے. پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی نوجوان روزگار کے معاملے میں بناؤ سنگھار سے احتراز کرے . مقابلہ بازی کے موجودہ دور میں خوش لباسی روزگار میں ترقی حاصل کرنے کا اہم ہتھیار ہے. اپنے آپ کو پیش کرنے کا فن سیکھیے اور اس حقیقت کو قبول کیجئے کہ کیرئیر کے لئے اپنی ذات کی “پیکیجنگ” کا خوبصورت اور مزین ہونہ ضروری ہے. جائز زینت و آرایش کا شوق رکھیے کہ زرد پتوں کو اسکا اپنا درخت بھی ساتھ نہیں رکھتا. روزگار کی دوڑ میں شامل نوجوان امیدواروں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شخصی “پیکیجنگ” میں ہلکی مسکراہٹ سے لیکر جوتوں کی پالش اور مختلف اعضاء کی جنبش سے لے کر لفظوں کی ادائیگی تک کو انٹرویو میں نوٹ کیا جاتا ہے. عہدوں کی مناسبت سے اپنی “پیکیجنگ” کرنا اچھی تربیت کا حصّہ ہے. .
انٹرویو کے لئے اپنا “بائیو ڈاٹا” اور عرضی تحریر کرنے میں خاص باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اورجتنا اونچا عہدہ اتنی ہی احتیاط لازم ہے. ان میں لکھے گئے مواد اور “اجزائے ترکیبی و ترتیبی ” سے ہی کمپنی کے اعلی عہدےداروں کو پتہ چل جاتا ہے کہ امیدوار کا سابقہ تجربہ عہدے سے میل کھاتا ہے یا نہیں.گھسے پٹے اور طویل “بائیو ڈاٹا” ابتدائی کانٹ چھانٹ کا شکار ہو جاتے ہیں. تلاش روزگار میں ابتداء کرنے والوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مختصر “بائیو ڈاٹا” تحریر کریں. تجربہ کارامیدواروں کے لئے بہتر ہے کہ وہ ایک صفحہ میں مختصر مگر جامع طور پر اپنے سابقہ تجربات اور اپنی کامیابیوں کو منفرد انداز میں بیان کر یں. اور اس کی شروعات حقائق پہ مبنی اس دعوے سے کریں جس میں آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جس کا یہ عہدہ متقاضی ہے. پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو کہ لکھنے والے کا اپنا ایک انداز ہے. نقل شدہ یاگھسا پٹا طرز تحریر اختیار نہ کریں. اس ایک صفحے کے ساتھ بقیہ تفاصیل مروجہ طریقہ کار کے تحت منسلک کریں جس میں اپنے کوائف اور تعلیمی اسناد کا ذکر اور دیگر اہم باتیں رقم ہوں. اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ضرورت ہو توعہدے کی مناسبت سے اپنے تجربہ کو کم کر کے پیش کریں. “غیر ضروری اور بے جا اولو العزمی” کا اظہار نہ کریں کے انتظامیہ اسے
*Unqualified enthusiasm * سے تعبیر کرے اور آپ انٹرویو میں بلائے ہی نہ جائیں. ہر ایک عہدے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ ڈیپارٹمنٹ کے، کچھ ساتھی کام کرنے والوں کے اور کچھ باس” کے بھی اور ان تقاضوں کی اہمیت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے. عالمی تجارتی مراکز میں انٹرویو کے مختلف مراحل ہوتے ہیں، عرضی داخل کرنے سے لیکر کر ذاتی انٹرویو اور اعلی عہدیداروں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے تک. کبھی کبھارعملی طور پر امتحانات بھی لیے جاتے ہیں. آجکل انٹرویو کا اختتام ایک اجمالی تجزیہ پر کیا جاتا ہے جہاں امیدوار کو مختلف سوالات کے جوابات تحریری طور پر دینے ہوتے ہیں. یہ وہ مرحلہ ہے جہاں کچھ اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار خواتین و حضرات خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر پاتے. ہر کمپنی کے سوالات کمپنی اور عہدے کے پس منظر میں مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مقصد یہی ہوتا ہے کہ امیدوار مذکورہ تمام تقاضوں کو سمجھنے کا اہل ہے یا نہیں. اور یہ بھی کے اپنی اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ کیسی تربیت کا حامل ہے اور کس قسم کی طرز فکر رکھتا ہے. . یہ وہ اہم سوالات و جوابات ہیں جو تجارت کی ترقی کے لئے ضروری ذہن سازی کرتے ہیں.
اکثر سوالات ” اوبجیکٹیو ٹائپ” ہوتے ہیں اور انکی فہرست طویل ہوتی ہے. امیدوار کے لئے انٹرویو کی ریہرسل کرنا ضروری ہوتا ہے جہاں تمام امکانی سوالات اور جوابات کومختلف نقطۂ نظر سے پرکھنا بہتر ہے. انٹرویو سے پہلے کمپنی کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کرنا ضروری ہے. اکثردیکھا گیا ہے کہ صرف کمپنی کا نام اور تنخواہ وغیرہ کے بارے میں سرسری معلومات حاصل کر لی جاتی ہے جو بعد میں پریشانی کا باعث بن جاتی ہے. کمپنی کے اعلی عہدیداروں، مصنوعات کی فہرست، ” پروڈکٹ لائین”، بازار میں کمپنی کی مصنوعات کا مقام اور حریف کمپنیوں کی” … صنوعات سے انکا تقابلی موازنہ، بڑے خریداروں کی فہرست، ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدا ر اور اسٹاف کی معلومات، تنخواہ کے علاوہ دیگر مفادات، محل وقوع اورذرایع آمدورفت کے علاوہ اور بھی پہلو ہیں جن کو انٹرویو کی تیّاری میں شامل کیا جانا چاہیے. .
اکثر امیدوار نصابی تعلیم پر مکمّل انحصار کرتے ہیں اور تجارت کے جدید پہلووں کے مطالعہ سے درگزر کر جاتے ہیں. جدید تجارتی طریقہ کار اور اصطلاحات کی کچھ جانکاری انٹرنیٹ پر دستیاب ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ضروری کتابوں سے استفادہ حاصل کیا جائے کیونکہ انٹرنیٹ اس ضمن میں اب بھی اپنے عہد طفلی سے گزر رہا ہے اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ شعبے میں مطالعہ کاذوق و شوق ہی ترقی کا بنیادی وسیلہ ہے اور اس میں کاہلی نہیں برتنا چاہیے. اسکے علاوہ اساتذہ اور تجربہ کار حضرات کی صحبت سے استفادہ کرتے رہنا بھی اشد ضروری ہے. مطالعہ اور تجربہ کار کی صحبت دونوں کچھ اس طرح ہے جیسے کوئی خزانہ کی تلاش میں نقشہ اور رہبر دونوں پر انحصار کرتے ہوئے کامیابی کو یقینی بنائے. جن لوگوں کو ترقی نہ ملنے کا رونا روتے دیکھا گیا ہے ان میں اکثر کو ایسے تمام خصائص سے عاری پایا گیا ہے.
نوجوانوں کو کاہلی اور قناعت میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے، اور والدین اوراساتذہ کو اس بارے میں ٹوکتے رہنا چاہیے. اکثر تعلیمیافتہ بے روزگار جوانوں کو قناعت کے وسیع پہلو میں اونگھتے ہوۓ دیکھاگیا ہے یا دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے۔ یا پھر انھیں قسمت کو کوستے. چند احمقوں کوخودی کا غلط مطلب اخذ کرتے دیکھا گیا ہے. انہوں نے خودی کے ساتھ خود کو بھی اتنا بلند کردیا کہ خدا کے ساتھ دنیانے بھی انھیں پوچھنا چھوڑ دیا کہ بتا تیری رضا کیا ہے. اکثر نوجوانوں کو یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ ترقی صرف عالمی معیاری یا نام چین کمپنیوں میں نوکری کی ابتدا کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے. یہ بات ان چند نوجوانوں کے لئے تو صحیح بھی ثابت ہوسکتی ہے جو تعلیم و تربیت کےسمندر میں غواصی کر کے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی حاصل کردہ اسناد پر پورے اترتے ہیں. لیکن یہ بات ان نوجوانوں پہ لازم نہیں آتی جو سعدی کی مذکورہ حکایت کے فقیر کا کردار ہوتے ہیں. اسی لئے اس مضمون کی ابتدا میں اپنی ذات کے تجزیہ کرنے پر زور دیاگیا ہے. ایسے نوجوانوں کو اگر بڑی نام چین کمپنی میں موقع نہ ملے تو خوشدلی اور حوصلے سے کسی چھوٹی کمپنی سے ملازمت کی ابتداء کرنی چاہیے اور وہاں خوب محنت اور ایمانداری سے تجربہ حاصل کرنا بہتر ہے. بڑی کمپنیوں میں ترقی حاصل کرنے میں سخت مقابلہ ہوتا ہے اور اکثر نوجوان ترقی کی خاطر “بینچر” بن کر کام کے حقیقی تجربہ کو حاصل کرنے میں انتظار کی گھڑیاں گنتے رہتے ہیں. ان میں سے چند تو بیٹھ کر تنخواہ لینے کے عادی ہو جاتے ہیں اور جب کبھی کمپنی میں خزاں کا موسم آتا ہے تو زرد پتوں کی مانند کانٹ چھانٹ کے شکار ہو جاتے ہیں اور اگر بچ گئے تو ان پتوں کی مانند ہوا دینے لگتے ہیں جن پر تکیہ کیا گیا ہو.
خود اعتمادی ایک بہترین صفات ہے لیکن جب لبالب ہو کرچھلکنے لگتی ہے تو روزگار اور ترقی میں مشکلیں پیدا کرتی ہیں. اکثر اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار میں اسکا شکار ہوتے دیکھا گیا ہے. اپنی ذات کا غلط تجزیہ کرتے اور عجلت میں غلط فیصلے کرتے دیکھا گیا ہے. انٹرویو کی تیّاری میں اہم نکات کو درگزر کرتے بھی دیکھا گیا ہے. خاص کر اپنے اعلی عہدےداروں کی قابلیت اور اختیار کا غلط تخمینہ لگاتے دیکھا گیا ہے اور اس طرح روزگار میں ترقی کے مواقعوں کو گنواتے دیکھا گیا ہے. اس ضمن میں نوجوانوں کو یہ بات سمجھنا بے حدضروری ہے کہ آپ سے اوپر اگر کوئی اعلی عہدےدار ہے تو وہ یا تو آپ سے زیادہ قابلیت کی وجہ سے ہے یا پھر کمپنی کا مالک اس پر مہربان ہے اور ان سب سے بڑھ کر یا تو تمام مالکوں کا مالک اس پر مہربان ہے اور ان تینوں میں سے کسی بھی معاملے میں الجھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں. ایسے میں اگر خود اعتمادی کے جام کو نیاز مندی کی طشتری سے ڈھانپ دیا جائے تو چھلکنے کا ڈر نہیں رہتا.
کالج ڈراپ آوٹ” کے اپنے مسائل ہوتے ہیں. خاص کر ان نوجوانوں کے جن کی تعلیم اپنے خاندان کے کمزور معاشی حالات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور جن کے کاندھوں پر وقت سے پہلے کمانے کی ذمہ داری آجاتی ہے. نوجوانوں کی یہ وہ قسم ہے جو آگے حالات جب بھی ساتھ دیتے ہیں اپنے تعلیمی سفر کو دوبارہ شروع کرتی ہے اور ایسے لوگ لائق تحسین ہوتے ہیں جو ذمہ داری کو فوقیت دیتے ہیں اور حوصلوں کے بل پر ترقی کرتے ہیں. تعلیم ان کے لئے صرف پیسے کمانے کا وسیلہ نہ ہوتے ہوئے ایک روحانی غذا کا وسیلہ ہوتی ہے اور ایسے نوجوان اپنے آپ کو روحانی، دماغی اور جسمانی ہر طور سے صحت مند رکھتے ہیں. تعلیم کے تسلسل میں وقفہ آجانے سے خود اعتمادی نہیں کھونی چاہیے. اگر ایسے وقفوں کا صحیح استمعال کیا جائے تو بہترنتائج سامنے آتے ہیں. ان وقفوں میں ہدف کو حاصل کرنے کے مختلف طریقہ کار اور آلہ کار پر دھیان دیا جاسکتا ہے. دوبارہ تعلیم جاری رکھنی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں تبدیلی اختیار کی جانی چاہیے. “کالج ڈراپ آوٹ” کی ایک قسم وہ ہے جو اعلی تعلیم کو غیر ضروری اور وقت کا زیاں خیال کرتی ہے اور ایسے نوجوانوں کو تعلیم کا راستہ طویل اور تکلیف دہ لگتا ہے. ایسے نوجوان زندگی میں ہمیشہ مختصر راستوں کے متلاشی ہوتے ہیں اور فطری تدریجی عمل سے انحراف کرتے ہیں. ان میں سے چند تو کسی طرح منزل پا بھی لیتے ہیں. ان میں اور اول الذکر قسم میں وہی فرق ہے جو کنویں اور دریا میں ہوتا ہے.
روزگار کے معاملے میں مادی ہدف مقرر کرنا اور اس ہدف کو پانے کے لئے اعلی تعلیم کو ذریعہ بنانا ترقی کے لئے اہم ھے. ایک مادی ہدف کی خاطر مسلسل تعلیم اور سیکھنے کا عمل کمزور ترین انسان کی کامیابی کا ضامن بن جاتا ہے. اکثر نوجوان بغیر ہدف کے تعلیم و روزگار کی راہ پرگامزن ہو جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چلتے ہی رہتے ہیں. معاشی ترقی کے لئے ایک جائز مادی محرک کا ہونا فطری ہے اور دینی نقطہ نظر سے بھی یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے . اسے حرص یا مادیت پرستی سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے. سائینسی اور نفسیاتی تجربہ سے بھی ایسے کسی محرک کی اہمیت ثابت ہے اور بطور ثبوت یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ. ایک نوجوان کو کمپیوٹر اسکرین پر جلتی بجھتی متحرک گیند کی گنتی کرنے کے لئے کہا گیا. اور یہ بھی کہ ہر ایک گنتی پر اسے ایک ڈالر دیا جائےگا. اسے یہ نہیں بتایا گیا کہ ایک کیمرہ نصب کیا گیا ہے اور اسکی پلکوں کے جھپکنے میں اور متحرک گیند میں شعاعوں کے ذریعے ربط پیدا کیاگیا ہے. یعنی گیند کی ہر حرکت کا دارومدار اسکی پلکوں کے جھپکنے پر ہے. نوجوان نے گنتی شروع کرتے ہی پلکوں کو جھپکانا شروع کیا اور گنتی کے ساتھ ساتھ اس عمل میں تیزی آتی گئی. لا شعوری طور پر وہ نوجوان اپنے ہدف کی سمت نظریں گاڑھے اپنی پلکوں کے جھپکنے سے بے خبر متحرک گیند کو گنتا رہا اور دل ہی دل میں ڈالر بھی. مادی ہدف میں ایک گھر خریدنے سے لیکر ازدواجی زندگی کی شروعات تک سب کچھ شامل ہو سکتا ہے. اس میں اپنی ذاتی ضرورت کے علاوہ بہن بھائیوں اور والدین کی مادی ضروریات بھی ہو سکتی ہیں یا کار خیر کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے. لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مادی ہدف مذکورہ روحانیت اور مادیت کے توازن کو کہیں بگاڑ نہ دے .
اس مضمون کی تمہید میں موجودہ طرز تعلیم کا جو حال بیان کیا گیا ہے اس کا اہل فکر اور ذمہ دار حضرات کو صحیح حل تلاش کرنا ضروری ہے ورنہ روزگار کے مسائل بڑھتے جائیں گے. بنیادی تعلیم و تربیت میں تبدیلی ضروری ہے اور والدین اور اساتذہ کو اس کا مل کر خیال رکھنا ہوگا. تجارتی ذہنیت سے تعلیم کے شعبہ کا جو حال ہوا ہے اس نے دنیا کو تعلیم یافتہ معزز شرفاء تو بے شمار دیے ہیں لیکن محنت کش، ایماندار اور حوصلہ مند نوجوان بہت کم دیے ہیں. مارکس کی ہوڑ میں شامل ہوکراور ٹیوشن پڑھ کر اعلی نمبروں سے کامیاب ہونے والے چند ہزار اعلی تعلیم یافتہ اور تجارتی نقطہ نظر سے کائیاں حضرات سے “کارپوریٹ” اور تجارت کی دنیا تو آگے ترقی کر سکتی ہے لیکن معاشرہ اپنے تہذیبی ارتقائی سفر میں پیچھے کی سمت دوڑے گا. کیونکہ لاکھوں بلکہ کروڑوں غیر تعلیم یافتہ یا نیم تعلیم یافتہ نوجوان مستقل روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں. ذمہ داران اور اہل اقتدار حضرات کا ہدف دس پندرہ فیصد اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل ہوتا ہے جن سے ان کا کاروبار چلتا ہے اور شہرت ہوتی ہے. ان کا ہدف ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر نہیں ہوتا جہاں زیادہ سے زیادہ بنیادی اور ضروری تعلیم سے لیس نوجوان ہوں جو مختلف فنون سے بھی آراستہ ہوں اور روزگار کے مسائل حل کرنے میں مدد گار ہوں. انھیں وجوہات کی بنا پر معاشرہ میں غیر منصفانہ دولت کی تقسیم ہوتی ہے اور آبادی کا اسی سے زاید فیصد حصہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتا ہے..