کیپٹلزم ایک نظریہ نہیں، ایک بھوک ہے

عمر فراہی،

عمر فراہی
عمر فراہی

اعظم گڑھ کے چندر بھان پرساد اور ممبئی کے ملند کامبلے جو پیشے سے خود کوئی صنعت کار تو نہیں ہیں مگر کسی وقت میں اپنی تعلیمی مصروفیت کے دوران نکسل تحریک سے وابستہ رہے ہیں ۔اب انہوں نے دلت انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈانڈسٹریز کی بنیاد رکھ کر اس تحریک کے ذریعے دلتوں کی پسماندگی دور کرنے کا عہد کیا ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ جس اونچ نیچ اور ذات برادری کی بدعت کو کارل مارکس ،ایمبیڈکر یا مایا وتی اور کانشی رام نہیں ہٹا سکے کیپٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ انقلاب کے ذریعے اس تفریق کو آسانی کے ساتھ مٹایا جاسکتا ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ بازار ہی وہ جگہ ہے جہاں اونچ نیچ اور ذات برادری پر یقین نہیں رکھا جاتا ۔
انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے اپنے انٹر ویو کے دوران جب ان سے پوچھا کہ انہیں یہ تحریک کہاں سے ملی تو انہوں نے امریکہ میں سیاہ فام برادری کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے صنعت و تجارت کی ترقی میں نمایاں مقام حاصل کیا تو اس برادری کے ایک شخص باراک اوبامہ کو امریکی صدارت کے منصب پر دیکھا جاسکتا ہے ۔

دلت چیمبرآف کامرس پروگرام کی فائل فوٹو
دلت چیمبرآف کامرس پروگرام کی فائل فوٹو

کانگریس کے بزرگ لیڈر اور وزیر جے رام رمیش نے چھتیس گڑھ میں نکسلائٹوں کے حملوں کے بعد نکسلیوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ملک کے جمہوری انتخابات مین حصہ لیکر جمہوری طریقوں سے اپنی بات کو پیش کرنا چاہئے ۔گفتگو چل ہی رہی ہے تو پاکستان کی نو عمر طالبہ ملالہ یوسف زئی کو بھی اس بحث میں شامل کرلیتے ہیں جس کو بارہ جولائی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا اور اس کی سولہویں سالگرہ پر ملالہ ڈے منایا گیا ۔ملالہ نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قلم کتاب اور اسکول کے ذریعے انقلاب لانے کی بات کہی مگر تعلیم کیسی ہو ؟تعلیم کا رخ کیا ہو ؟اگر حقیقت میں اس بچی کو اس کا ادراک ہوتا اور وہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے چند اقتباسات ہی پیش کردیتی تو شاید اس کے خطاب پر تالیاں نہیں بجائی جاتیں جسے اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ ؎
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
مگر وہ ایسا کیوں کرے جبکہ اس کی حوصلہ افزائی کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ آگے چل کر تسلیمہ نسرین کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کرے اور اس کی بات کو سنا جائے ۔ہماری دنیا میں کچھ لوگ کچھ ادارے اور پوری قوم اور ایک خاص تنظیم اور برادری کچھ لوگوں کے ذریعے یا یوں کہا جائے کہ وہ سرمایہ دارطبقہ جو پوری دنیا اور لوگوں کے ذہنوں پر غالب ہے استعمال کئے جارہے ہیں ۔مگر انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ استعمال کئے جارہے ہیں یا ان کا استحصال کیا جارہا ہے ۔
چندر بھان پرساد ،جئے رام رمیش اور ملالہ یوسف زئی کا شمار اسی برادری اور گروہ سے ہے جو صرف اپنی دولت شہرت اور عزت کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور اسی طرح اپنی پوری پوری قوم کا جذباتی استحصال کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ لبرل جمہوری طرز سیاست میں اقتدار کیلئے قوموں کا استعمال تو کیا جاتا ہے مگر اقتدار حاصل کرنے کے بعد کہیں پر انصاف ،مساوات اور رواداری کا دور دور تک نام ونشان تک نہیں پایا جاتا ۔
لوگ جس کیپٹلزم ،کارپوریٹ جمہو ریت اور سرمایہ دارانہ تعلیمی نظام کے ذریعے انقلاب کی بات کررہے ہیں یہ وہی نیو ورلڈ آرڈر ہے جو اب امریکہ میں بھی بحث کا موضوع نہیں رہا اور وہ لوگ خود ایک نئی تہذیب کی تلاش میں ہیں جو انہیں پناہ دے سکے جیسا کہ امریکہ اپنی ذہنیت سے ہمیشہ ہی جدت پسند رہا ہے۔ اس لئے کیپٹلزم کارپوریٹ جمہوریت بھی ا ب ان کے لئے قدیم روایت میں شمار کی جانے لگی ہے اور اپنی اسی ذہنیت کی وجہ سے انہوں نے امریکی صدارت کے منصب کیلئے نہ صرف ایک سیاہ فام برادری کے شخص کو ترجیح دی بلکہ ایک ایسے شخص کو منتخب کرنے کی جرات کی جو ایک مسلمان باپ کا ہی بیٹا ہے ۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ عرب بہار کے بعد یوروپ اور امریکہ کے تمام شہروں میں ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘کی پرزور تحریک چلائی گئی اور وہ نعرے لگارہے تھے کہ اسی کی وجہ سے ہم گھر سے بے گھر اور مقروض ہوچکے ہیں ۔مگر منظم نہ ہونے کی صورت میں یہ تحریک ناکام ہو گئی ۔مصر میں جس طرح کیپٹلسٹوں اور لبرلسٹوں نے ایک مہذب عوامی انقلاب کو ناکام بنایا امریکی دانشور نوم چومسکی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بہتر انصاف پسند مہذب اور منظم اخوان المسلمون ہی نکلے جنہوں نے ایک پر امن جمہوری انقلاب کی بنیاد اور روایت کو زندہ کیا جبکہ لبرلسٹوں نے اس کا خون کرکے فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا موقع فراہم کردیا۔
پھر بھی سرمایے کی طاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اگر یہ جائز اور حلال طریقے سے حاصل کی گئی ہواور انسانی فلاح و بہبود کیلئے صرف کی جائے ،مگر انسانی تاریخ میں کسی قوم کی کوئی ایسی مثال نہیں دی جاسکتی جسنے دولت کی فراوانی اور حصول کے بعد کوئی ایسا سماجی انقلاب برپا کیا ہو جہاں اونچ نیچ اور ذات برادری کی تفریق نہ پائی جاتی ہو ۔مثال کے طور پر جس کیپٹلزم اور کارپوریٹ جمہوریت کے ذریعہ انقلاب لانے کی بات کی جارہی ہے یہاں پردے پر تو انصاف اور مساوات کی خوشنما تصویر دکھائی دیتی ہے لیکن پردے کے پیچھے کا سچ یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی تقریب اور اجلاس کے بعد جب میڈیا کے ذریعے اجلاس میں شامل سیاستدانوں کی تصویر مشتہر کی جاتی ہے تو اس کی صف بندی کا بھی ایک غیر مساواتی اور دور جاہلیت کا پروٹوکول ہوتا ہے یعنی کسی بھی خاص لیڈر کے ساتھ چاہے وہ سونیا گاندھی ہوں یا منموہن سنگھ ان کے بازو میں کوئی کیبنیٹ درجہ کا سیاستداں ہی کھڑا کیا جائے گا چاہے وہ کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو نہ کہ پارٹی کا کوئی عام ایم ایل اے اور کارپوریٹر اور آخر میں ای احمد اور کپل سبل نظر آئیں گے ۔ایک سیاسی اجلاس میں میڈیا کی اسی نمائشی تصویر میں جب تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ کو یہ مقام نہیں دیا گیا تو وہ بغیر تصویر کھنچوائے ہی واپس چلی گئیں ۔ہمیں یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ لوک تنتر کے نمائندے اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں کیلئے منتخب ہونے کے بعدعام سے خاص ہو جاتے ہیں جنہیں VIP کہا جاتا ہے اور اب ان سے ملاقات کیلئے بہتوں کے ہاتھ گرم کرنے پڑتے ہیں اور ملک کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے تو عام آدمی زندگی بھر ملاقات نہیں کر سکتا ۔جبکہ راجائوں اور بادشاہوں کے دور میں بھی اکثر عام دربار لگا کرتے تھے اور عام آدمی براہ راست اپنی بات پہنچا بھی دیا کرتے تھے ۔
دراصل ابلیس بھی اپنی اسی سوچ کی وجہ سے گمراہ ہوا کہ وہ VIP ہے اور دنیا کا خلیفہ ہونے کا پہلا حق اسی کا ہے ۔اس کے بعد انسانوں میں بھی بہت سی قومیں اونچ نیچ ذات برادری اور اعلیٰ و ادنیٰ کے فتنے میں اسی وقت مبتلا ہوئیں جب اللہ نے انہیں طاقت ،دولت اور شہرت عطا کی اور پھر اپنی اسی طاقت اور اقتدار کیلئے انہوں نے عوام کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ۔ہندوستان میں آریہ حکمرانوں نے ایسا ہی کیا اور پوری آبادی کو برہمن ،چھتری ،ویش اور شدر میں تقسیم کرکے اونچ نیچ کا ایک پروٹوکول قائم کردیا ۔یہ سچ ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کے ہزار سالہ دور میں اعلیٰ اور ادنیٰ کی اس خلیج کو مٹایا نہیں جاسکا مگر ان حکمرانوں کے دور میں اسلامی تعلیمات کو جو عروج حاصل ہوا یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی اپنے مذہب اور عقیدے پر قائم رہنے کی وجہ سے بے ایمانی اور بد عنوانی کے جراثیم نہیں داخل ہونے پائے اور اخلاق واقدار کا معیار بلندرہا ۔وہ قومیں جو مذہب اور خدا کوفرسودہ خیالی تصور کرتے ہوئے بغاوت پر آمادہ نہیں ہونے دیتے اس خیال سے باہر آنا پڑا کہ خرابی دین اور مذہب میں نہیں بلکہ ان کی اپنی سرمایہ دارانہ سوچ میں ہے جو انسانوں کو مساوات سے ہٹا کر مسابقت کی طرف موڑ دیتی ہے ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ کم سے کم ایک ہزار سال تک مسلم دور حکمرانی میں اوراٹھارہویں صدی تک عوام کے اندر بے ایمانی بدعنوانی اور بدکاری کی یہ حالت نہیں تھی جسنے کیپٹلزم اور لبرلزم کے دور میں دھماکہ خیز صورتحال اختیار کرلی ہے ۔یہ بھی دنیا پر اسلام اور مسلم دور حکمرانی کا احسان ہے کہ اس نے چنگیز و ہلاکو جیسی بہت سی قوموں کو اپنی آغوش میں جگہ دی اور وہ بعد میں ایک متمدن سماج اور قوم کے رہنما کہلائے ورنہ دنیا میں جس انسانیت اور مساوات کا چرچہ بھی ابھی باقی ہے اس کا نام ونشان تک نہ ہوتا اور ہندوستان میں دلت اور پسماندہ قومیں نیچ اونچ کے اس پروٹوکول سے کبھی باہر نہیں آپاتے جو آریوں نے ان کے لئے قانون بنادیا تھا۔
بدقسمتی سے دنیا کے افق پر تحریکات اسلامی کی کمزور پڑتی ہوئی گرفت کے بعد اٹھارہویں صدی کے سائنسی انقلاب اور خدا بیزار تہذیب میں سرمایہ پرستی کی یہ سوچ مذہب کے درجے میں داخل ہو گئی دوسرے لفظوں میں زمین نے اپنا پورا خزانہ باہر نکال دیا اور اس دور کو اقتصادیات اور معاشیات کے سنہرے دور سے جانا جانے لگا ۔پھر کیپٹلسٹوں اور سرمایہ داروں کے عروج اور غلبے کے بعد کیپٹلزم کے مقابلے میں دنیا کے سارے ازم اور مذاہب دوسرے درجے میں شمار ہونے لگے ۔نتیجہ کیا ہوا اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک جو آدمی ایک روٹی پر بھی مطمئن تھا وہ ہزاروں روٹی حاصل کرنے کے بعد بھی بھوکا ہے ۔دنیا کا ہر طاقت ور ملک کمزور ملک کی صنعت و تجارت پر قبضہ کرلینا چاہتا ہے ۔غریب اور پسماندہ ممالک امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے سامنے ہر وقت کشکول لئے کھڑے نظر آتے ہیں ۔اس طرح کے کیپٹلزم نے دنیا کو ایک ایسے پروٹوکول میں داخل کردیا ہے جہاں دنیا کی معیشت پر کچھ مخصوص سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار پر بھی اس طرح حملہ آور ہیں کہ اب آزادانہ تجارت کا بھی تصور باقی نہ رہے ۔اور دنیا کا ہر شخص چند مخصوص سرمایہ داروں کا غلام بن کر رہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو موجودہ سیاست اور لبرل جمہوریت کے دستور اور آئین کے موجد اور صلاح کار ہیں ۔اندازہ لگائیے جہاں نفس کو مطمئن کرنے کیلئے پیٹ کی بھوک کو ترجیح دینا لازمی قرار پائے وہاں سماج اور معاشرے میں قناعت رواداری ،صبر ،انکساری،مساوات اور انصاف کی باتیں دل کو بہلانے کیلئے تو ٹھیک ہیں ،اس کے عملی مظاہرے کی تصویر دنیا کے ہر لبرل جمہوری مملکتوں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں عدلیہ سے لیکر پارلیمنٹ تک ،تعلیم تربیت کے ادارے اور عبادت گاہیں تک بدعنوانی اور حرام خوری میں غرق ہیں ۔
جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس ایف ایم ابراہیم پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے 4 ؍جولائی کو مدھیہ پردیش حکومت کے ایک فیصلہ کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملک کے موجودہ سرمایہ دارانہ تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی کے بعد ہماری شرح خواندگی 12% تھی مگر 2011 میں بڑھکر 74.04% ہوگئی ہے بظاہر یہ ایک بڑی کامیابی ہے مگر جو انسانی اقدار سابقہ ادوار میں پائی جاتی تھی وہ اب مفقود ہوگئی ہیں ۔مگر دوسری طرف امریکہ اور بنگلہ دیش کی عدالتوں میں جو ایک سیاہ فام لڑکے کے قتل پر اور جماعت اسلامی کے خلاف فیصلے آئے ہیں وہ پوری طرح نسلی اور فرقہ وارانہ عصبیت سے متاثر ہیں اورخاص طور سے ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں ڈانس بارگرل پر سے جو پابندی اٹھائی ہے وہ پوری طرح اسی سرمایہ دارانہ سوچ پر مبنی ہے کہ اس پابندی سے ملک کو تقریباً نو سو کروڑ ٹیکس کی آمدنی کا خسارہ ہے اور لاکھوں لڑکیاں بریڈ اور بٹر سے محروم ہورہی ہیں ۔اس کا مطلب معاشرے میں برائی بدکاری اور گندگی عام ہوتی ہے تو ہوتی رہے عوام اور ملک کی معیشت میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر چندر بھان پرساد ،ملند کامبلے اپنی سرمایہ دارانہ تحریک کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا ۔کیا مایا وتی نے اسی کارپوریٹ جمہوریت کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی کا اقتدار حاصل نہیں کیا ۔مگر کیا ہوا انہوں نے ہمیشہ اپنے تمام اسمبلی ممبران اور پارٹی کے کارکنان کو فرش پر بٹھایا اور تنہا کرسی کا استعمال کیا ۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ مادیت کے بطن سے ایسا ہی انقلاب برپا ہوگا ۔یہ وہی فساد برپا کریگا جو لینن ،اسٹالین ،مسولینی اور نپولین کی شکل میں ہوگا ۔ایک قوم جو دلت ہے وہ برہمن ہو جائے گی اور جو برہمن ہے اسے دلت بنادیا جائے گا ۔ابلیس کا کام بھی فساد فی الارض ہی ہے اسی لئے وقت کی ملالائوں کو تعلیم کے خوبصورت عنوان سے اقوام متحدہ کے اس مقام پر لاکر انعام اکرام سے نوازا جارہا ہے جہاں پہنچنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تاکہ خوبصورت عنوانات کے ذریعے دنیا کو بیوقوف بنایا جاتا رہے اور وہ کبھی کشمکش اور فساد کی صورتحال سے باہر نہ نکل سکے ۔مگر اس فسانے کا مورخ خود بھی اس تاریخ سے نابلد ہے کہ جنت میں آدم کو شجر ممنوعہ تک لے جانے میں ابلیس کا ہی اہم کردار تھا اور وہ آج بھی سرگرم ہے۔ ابلیس اور اس کے ساتھی اپنی چال چل رہے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کررہا ہے اور اس میں کیا شک کہ اللہ کی ہی تدبیر کامیاب ہوگی نیز استحکام بھی اللہ کے دوستوں کیلئے ہی ہے۔
عمر فراہی۔موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *