میں نے تجارت ابّو سے سیکھی ہے:ابوفرحان اعظمی

ہندوستان میں حُقّہ اور سیسہ کلچر کی داغ بیل ڈالنے والے فرحان اعظمی نے کم عمری میںہی تجارت کی نبض پکڑلی ہے ،محض 18 سال کی عمر میں انہوں نے کوئیلہ ریسٹورنٹ کی بنیاد رکھی اور اب پورے ملک میںفائیواسٹار طرزکے ریسٹورنٹ کا جال بچھانا چاہتے ہیں،دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں انہوں نے اپنے ان تجربات سے آگاہ کیا جسے عملی زندگی میں وہ برتا کرتے ہیں، پیش ہے اہم اقتباسات۔
سوال : بہ حیثیت ریسٹورنٹرآپ کی جداگانہ شناخت ہے ۔آخرآپ کے فیملی پس منظر کا اس میں کتنا عمل دخل ہے؟
جواب:جب میں نے دسویں جماعت میںکامیابی حاصل کی تھی اسی وقت والد صاحب(ابو عاصم اعظمی) یہ چاہتے تھے کہ میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ تجارت میں بھی ان کاہاتھ بٹائوں ،1997میں جب میں جے ہند کالج (چرچ گیٹ) میں FYJCکا طالب علم تھا،مجھے صرف اس لئے امتحان میں شرکت سے منع کر دیا گیا کیونکہ میری پرنسپل سے لڑائی ہوگئی تھی ،واقعہ یوں ہے کہ میں کالج میں فٹ بال کا کھلاڑی تھا اور اپنی ٹیم کی سربراہی کررہا تھا،فائنل امتحانات سے قبل ہی مہاراشٹر انٹر اسکول فٹ بال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہمارے کالج کی ٹیم نے بھی حصہ لیا،ٹیم کے تمام طالب علم نے میچ میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کیا اور ہم ٹورنامنٹ جیت کر واپس آگئے ،لیکن جب ہم امتحان میں شریک ہونے گئے تو معلوم ہوا کہ ہمیں امتحان میں بیٹھنے سے معذور قرار دے دیاگیا ہے،اسیمسئلے پر میری پرنسپل سے لڑائی ہوگئی،ہم کھیل کی دنیا کے تو فاتح تھے لیکن پڑھائی میں ناکام قرار دے دئے گئے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے مجھے تجارت کرنے کا مشورہ دیا لہذا ٹیکسٹائل کے بزنس کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے 1998میں مجھے دبئی بھیج دیا لیکن 7آٹھ ماہ کے قیام کے دوران ہی مذکورہ تجارت کے لئے میری طبیعت آمادہ نہیں ہوئی ،میں کچھ نیا کرنا چاہتا تھا لیکن وہاں لگے بندھے اصولوں کے مطابق ہی تجارت کرنی تھی لہذا میں واپس آگیااور پھر والد صاحب کے مشورہ سے قلابہ میں ہی موجودہ ہوٹل گلف کی بلڈنگ کے چھت پر 1999میں ریسٹورنٹ کی بنیاد رکھی۔ دراصل اس کے پیچھے Concept یہ تھا کہ ایسی جگہ بنائی جائے جہاں نوجوان آکر بیٹھیں اور بہتر Viewاور فضا میں شام کا وقت گذاریں ،ابتداء میں ہوٹل گلف کے کسٹمر آنے لگے اور حُقّہ اور سیسہ وغیرہ پینے لگے،والد صاحب نے بھی میرے شوق کو دیکھتے ہوئے ہمّت افزائی کی اور آخر کار اس کی شہرت ہونے لگی،جیکی شراف کے ساتھ فلمی دنیا کے دوسرے لوگ بھی یہاں آنے لگے اور شام کا وقت گذارنے لگے۔بالآخر 2000ء میں میں نے باقاعدہ Page3پارٹی رکھی ،اور قلابہ میں ہی5ہزار اسکوائر فٹ پر کوئیلہ کے نام سے ریسٹورنٹ کا آغاز کیا۔والد صاحب نے کبھی اس تجارت میں قدم نہیں رکھا لیکن میں جسept Conc کو Permoteکرنا چاہ رہاتھا ابوّ نے ہمیشہ میری ہمت افزائی کی۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہمارا پورا گھرانہ کھانے کا شوقین رہا ہے ،خصوصاً مشرقی ہند کے کھانے عام طور پر لوگوں کو اچھے لگتے ہیں۔میں نے اپنے ریسٹورنٹ میں ’’تازہ کھانا بہترین ذائقہ کے ساتھ‘‘،اس کا خیال رکھا ،چونکہ مجھے کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا لہذا میں نے ایک اسرائیلی شیف موسے شیک کی خدمات حاصل کیں ،موشے دراصل مسلمان تھے اور موسی شیخ سے موسوم تھے لیکن اسرائیل جا کر انہوں نے اپنا نام تبدیل کرلیا اور موشے ہوگئے۔وہ Athinaنائٹ کلب میں تھے میں نے تین لاکھ کی Salaryپر انہیں ہائر کیا اور پھر 2002 میںکیفے Basilicoکی بنیاد رکھی۔ہمارے ریسٹورنٹ میں Five Starہوٹلوں کے طرز پر کھانے پروسے جانے لگے ،چونکہ ہمارے یہاں شراب ممنوع ہے اس لئے مختلف Flavorکے ساتھ حقہ دیا جانے لگا ،دراصل ہم سنجیدہ اور مالدار طبقہ کواپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے جس میں ہمیں بھر پور کامیابی ملی ۔اس پور عرصے میں ابو کا تعاون حاصل رہا البتہ میں نے دبئی یا سعودی عرب میں شیوخ حضرات کی جو مجالس دیکھی تھیں اسے ہی یہاں بھی شروع کیا تھا ورنہ ہمارے گھر میں ریسٹورنٹ قائم کرنے کا کسی کو تجربہ نہیں تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان گزشتہ دس برسوں میں ہی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھا ہے جس میںIndustry Food نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ،یہ عام اصول ہے کہ اگر آپ سیاحت کو Permoteکرنا چاہتے ہیں تو آپ Resturentکو Permote کیجئے آج ہوٹل تاج نے نیویارک اور برطانیہ میں اہم ہوٹلوں کو خریدا ہے لہذا Hospitalityہر جگہ بڑھ رہی ہے۔

سوال:اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے مزید آپ کے کیا عزائم ہیں؟
جواب:میں پورے ملک میں اپنے ریسٹورنٹ کا جال بچھانا چاہتا ہوں،یہی وجہ ہے کہ میں نے رامالنگم راجو کے بیٹے تیجا راجو کے ساتھ مل کر بنجارہ ہلس روڈ نمبر 1پرحیدر آباد میںکوئیلہ ریسٹورنٹ کھولالیکن کچھ داخلی معاملات کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا،2007میں باندرہ پالی ہل میں Basilico کی برانچ قائم کی ،اندھیری میں Fameکے بالمقابل کوئیلہ کی برانچ ہے جبکہ یاری روڈ پر ’’چائے کافی ‘‘کے نام سے نیا ریسٹورنٹ کھولا ہے،دراصل چائے ہماری ہے اور Coffee باہر سے آئی ہے ،چائے دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہے جبکہCoffee کا زور بڑھتا جا رہا ہے اسلئے ہم نے دونوں کا امتزاج قائم کرنے کی کوشش کی ہے ،یہاں ہم نے صرف Snaksرکھا ہے ساتھ ہی Lookایسا دیا ہے کہ کارپوریٹ ورلڈ کے لوگ یہاں آکر اپنی میٹنگ کر سکتے ہیں۔گوامیں ہوٹل کا کام شروع کیا ہے جس میں میری اہلیہ عائشہ ٹاکیہ بھی شریک ہیں،گوا میں Pillerneکے مقام پر Basilico Houseکے نام سے دس کمروں پر مشتمل بوٹیک ہوٹل ہے ۔جسے انشا ء اللہ چھ ماہ میں تیار کر لیا جائے گا۔دہلی میں کوئیلہ شروع کرنا چا ہ رہا ہوں جبکہ Basilico Home Furnishingبھی شروع کرنے کا ارادہ ہے۔
سوال :فرحان اعظمی اگر تجارت نہیں کرتا تو کیا کرتا؟
جواب:مجھے اگر بزنس کی جگہ کوئی نوکری کرنی ہوتی تو میں پائلٹ بنتا،یا پھر پولس آفیسر بننے کی کوشش کرتا،Jobکا اپنا مزہ ہے ،بزنس میں Riskہے،ہوٹل انڈسٹری میں آپ 24گھنٹے مصروف ہیں۔
سوال:ہندوستان کا جمہوری نظام تاجروں کے لئے کس قدر مفید ہے؟
جواب:اگر آپ ہندوستان میں اپنا بزنس Setupکر لیتے ہیں تو باہر بھی بآسانی کر سکتے ہیں کیونکہ یہاں Struggleزیادہ کرنا پڑتا ہے۔اگر آپ برطانیہ یا امریکہ میںہوتے ہیں تو وہاں زیادہ سہولت ملتی ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو Growth آپ یہاں پا سکتے ہیں وہ کسی اور جگہ ممکن نہیں،آپ دیکھئے کہ دنیا بھر کے گورے اب یہاں آرہے ہیں جبکہ یہاں کے لاکھوں حضرات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں،خود یہاں کے بڑے تاجر باہرجاکر اپنا بزنس سیٹ اپ کر رہے ہیں۔البتہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں میں محنت کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ،جو باپ دادا کرتے آئے ہیں اسی کو آگے کرنے کی کوشش ہوتی ہے ،باہر کے لوگ جس Dedicationکے ساتھ کام کرتے ہیں ہمارے یہاں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اسی طرح یہاں بدعنوانی اس قدر ہے کہ جھوٹ کے دو لفظ بول کر آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں،اور اس کا بہترین فائدہ سیاست داں اٹھا رہے ہیں۔
سوال:آپ کے بزنس کا سالانہ ٹرن اوور؟
جواب:12کروڑ روپیہ
سوال:زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو اب بھی یاد آتا ہو؟
جواب:زندگی کے بہت سارے واقعات مجھے اب بھی یاد آتے ہیں لیکن دبئی کے جیل کا واقعہ بھلائے نہیں بھولتا،بغیر کچھ کئے اگر آپ پکڑے جاتے ہیںتو پھر آپ کے اندر تبدیلیاں رونماں ہوتی ہیں۔آپ متحمل مزاج بن جاتے ہیں،چیزوں کو سوچ سمجھ کر برتنے لگتے ہیں۔
سوال:آپ کی ذات پر سب سے زیادہ اثر کس کا ہے؟
جواب:میں نے تمام چیزیں ابو سے سیکھی ہیں،ان کا احترام آج بھی اس قدر ہے کہ میں ان کے سامنے بیٹھنے کی ہمت نہیں کرتا،کبھی کبھی تو 7آٹھ گھنٹے ان کے سامنے کھڑا رہا ہوں۔