اسرائیل، ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا؟
ایک اسرائیلی ڈرون طیارہ کی ویڈیو فوٹیج ایرانی سرکاری ادارے نے اسی ہفتے نشر کی ہے۔ اس ڈرون کے حوالے سے ایران کے پاسداران انقلاب نے دعوی کیا ہے کہ اسرائیلی جاسوس طیارے کو ایرانی فضائی حدود میں پرواز کرتے ہوئے اس وقت مار گرایا گیا جب یہ جوہری تنصیبات کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایرانی پاسداران کے دعوے کے مطابق اس ڈرون کو یورینیم کی افزودگی کے لیے نطنز نامی شہر میں قائم مرکز کی جانب جانے سے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔
ایرانی رہنماوں کے نزدیک جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی یہ اسرائیل کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ تہران اس سے پہلے بھی اسرائیل پر اپنے کئی جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کا الزام عاید کر چکا ہے۔ اگرچہ اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ تازہ واقعے کے بارے میں اسرائیل نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ”فوج غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس پر بات نہیں کرتی ہے۔” خیال رہے یورینیم کی افزودگی کے لیے ایران کا اہم ترین مرکز سمجھے جانے والا نطنز شہر ایران کے وسط میں واقع ہے۔ اس افزودگی مرکز میں تقریبا سولہ ہزار سنٹری فیوجز بروئے کار ہیں۔
علاوہ ازیں ایران کا زیر زمین افزودگی مرکز فردا میں واقع ہے جو عملا پہاڑیوں میں چھپا ہوا ہے۔ اس کا پہلی بار انکشاف 2009 میں ہوا تھا۔ اس خفیہ طور پر قائم کیے گئے یورینیم افزودگی کے مرکز میں تقریبا 3000 سنٹری فیوجز ہیں۔ اسرائیل ماضی میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ایک سے زائد بار دھمکیاں دے چکا ہے۔اس کے باوجود اہم گتھی یہ ہے کہ آیا اسرائیل واقعی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا۔
دوسری جانب ایرانی حکام نے بڑی مضبوطی سے اس تازہ واقعے کے بارے میں پاسدران انقلاب کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اپنا ردعمل ظاہر کر دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ”صہیونی رجیم کا ایک جاسوسی ڈرون میزائل کے ذریعے مار گرایا گیا ہے۔ ” صہیونی رجیم کی یہ تازہ مہم جوئی ہے، پاسداران انقلاب اور ایران کی مسلح افواج اس جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔ ” اس بیان میں مزید کہا گیا ہے ”کسی بھی سنجیدہ خطرے کی صورت میں پاسداران انقلاب اسرائیل کے لیے ڈرونے خواب کا ذریعہ بن جائیں گے۔”
ایرانی فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈئیر جنرل عامر علی حاجی زادے نے بھی یہی کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اسرائیل کے لیے ایک ڈراونا خواب ثابت ہو گا۔ اس واقعے کے رونما ہونے کی ٹائمنگ سازش کا پہلو بھی رکھتی ہے کہ ایک جانب ایران کے امریکا سمیت چھ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملے پر مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیلی رہنما خیال کرتے ہیں کہ ایسا جوہری معاہدہ اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی راہ ہموار کر دے گا۔ ایران اور اسرائیل دونوں باہم دشمن ہیں اور اسرائیل ایران کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔
نہ چاہے مضمرات اور علاقائِی آگ
اسرائیل فوجی اعتبار سے ایسی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے کے یک طرفہ طور پر ایسا نہ کر سکنے کی وجوہات موجود ہیں۔
اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی رہنما مانتے ہیں کہ ایسے حملے مکمل طور پر ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی ضمانت نہیں ہو سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ایسے حملے گھڑیال کو چند سال پیچھے کی طرف موڑ دیں گے جس کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کا عمل معطل ہو جائے یا ایک جوہری بم تیار ہو جائے گا۔
اسرائیلی حملے سے یہ امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی تکمیل کے لیے زیادہ پختہ عزم کے ساتھ جت جائے۔ حتی کہ اسرائیل کے متعدد سکیورٹی حکام بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ایران جوہری بم بنانے کے عمل کو تیز کر سکتا ہے اور یہ اسرائیلی وجود کے لیے سخت خطرے والی بات ہو سکتی ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی حملہ ایرانی عوام کو اپنی حکومت اور ایران کے جوہری بم بنانے کے حق کے حوالے سے قومی موقف کی تائید میں کھڑا کر دے گا۔ انتہا پسند ایرانی تیز رفتار جوہری پروگرام کے حق میں سرگرم ہو جائیں گے۔ جبکہ اسرائیل کے ایران پر یکطرفہ طور پر حملہ نہ کر سکنے کی تیسری وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کا حملے کی صورت میں عالمی طاقتوں کے ساتھ سے بات چیت سے انکار ہو سکتا ہے۔ اس انکار کے بعد ایران خود کو یورنیم افزودگی کے معاہدے سے بھی نکال سکتا ہے۔
پیش گوئی مشکل ہے
اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف جنگ شروع کرنا جہاں آسان ہے وہیں یہ کہنا مشکل تر بلکہ قریب قریب ناممکن ہے کہ جنگ کہاں تک جائے گی۔ ایرانی عسکری جواب کے بعد پورا خطہ جنگی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ جس سے عام شہریوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ خلیج میں تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جبکہ مغربی ممالک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ علاقے میں ملکوں کی سلامتی کے لیے خطرات اس کے علاوہ ہوں گے۔
اسی طرح اس جنگ سے نہ صرف خطے کے ملکوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو گا بلکہ اسرائیل کی اپنی سلامتی بھی خطرات میں گھر جائے گی۔ جس کے نتیجے میں عالمی طاقتوں بشمول امریکا اور روس کے جنگ میں گھسیٹے جانے کا اندیشہ ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں عام اسرائیلی ایران پر اسرائیل کے یک طرفہ حملے کے خلاف رائے دیتے ہیں۔
اس تناظر میں حتمی دلیل یہ ہے کہ اسرائیل کا زیادہ تر انحصار امریکا پر ہی ہے۔ حملے کے جواب میں ایرانی ردعمل کی صورت میں اسرائیل کی علاقائی سلامتی اور جغرافیائی امور کے لیے اسرائیل کو امریکا کی ضرورت ہو گی۔ اس کے مقابلے میں امریکا ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے واضح ہے۔
امریکی انتظامیہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنے کا سوچنے سے گریزاں ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے ابھی تک سفارتی طریقے سے ساری کوششیں ناکام نہیں ہوئی ہیں۔ اس لیے یہ مشکل ہے کہ اسرائیل، ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا