ہندوستانی اور جاپانی کاروباری عالمی اقتصادیات کو نئی سمت عطا کر سکتے ہیں: نریندر مودی
ٹوکیو، یکم ستمبر (یو این بی): وزیر اعظم نریندر مودی جاپان کے ساتھ دو فریقی تعلقات کو نئی اونچائی پر لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے وہاں کے تاجروں کے لیے ہندوستان میں سرمایہ کاری کا بہتر ماحول تیار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جاپان کے پانچ دنوں کے دورہ پر گئے وزیر اعظم نے یہاں کے کاروباریوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم دفتر میں جاپانیوں کو سرمایہ کاری میں مدد دینے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جائے گی جس کا نام ’جاپان پلس‘ ہوگا۔ انھوں نے اس موقع پر چین کو درکنار کرتے ہوئے ’اکیسویں صدی کے ایشیا‘ کے لیے ہندوستان اور جاپان کو فطری شراکت دار بتا کر اشاروں اشاروں میں اپنی منشا بھی ظاہر کر دی۔
سوموار کے روز ٹوکیو میں جاپان چیمبر آف کامرس میں ہندی میں دی گئی اپنی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ 21ویں صدی ایشیا کی ہوگی یہ تو سبھی مانتے ہیں، لیکن یہ صدی کیسی ہوگی یہ ہندوستان اور جاپان کے تعلقات پر منحصر کرتا ہے۔ انھوں نے کہا ”دنیا دو لہروں میں منقسم ہے۔ ایک وسعت پرستی کی لہر ہے اور دوسری ترقی پسند لہر ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ دنیا کو وسعت پرستی کے چنگل میں پھنسنے دینا ہے یا ترقی کے راہ پر جانے کے لیے موقع پیدا کرنا ہے۔ ان دنوں 18ویں صدی کی وسعت پرستی نظر آتی ہے، کہیں کسی کے سمندر میں گھس جانا، کہیں کسی کے سرحد میں داخل ہو جانا۔ اکیسویں صدی میں امن اور ترقی کے لیے ہندوستان اور جاپان کو بڑی ذمہ داری نبھانی ہے۔“ تصور کیا جا رہا ہے کہ مودی کے اس بیان کا نشانہ چین تھا کیونکہ ہندوستان اور جاپان دونوں کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں۔ چین اور جاپان کے درمیان مشرقی چین سمندر میں کچھ جزیروں سے متعلق تنازعہ چل رہا ہے۔ جاپان میں ان جزیروں کو ’سینکاکو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جب کہ چین کے لوگ اسے ’تیااویو‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی لداخ کے علاقے میں چین کے فوجی اکثر دراندازی کرتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں پورے اروناچل پردیش پر بھی چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ جنوبی چین سمندر میں بھی ہندوستان اور چین کے مفاد آپس میں متصادم ہیں۔ اس کے علاوہ برہمپتر پر پشتہ، اکسائی چین، پاکستان مقبوضہ کشمیر اور گلگت میں چین کی لگاتار تیز ہوتی سرگرمیاں بھی دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کا سبب ہے۔
بہر حال، وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپانی سرمایہ کاروں کو مدعو کرتے ہوئے ہندوستان میں بہتر سرمایہ کارانہ ماحول فراہم کرنے اور فوراً فیصلہ لیے جانے کا وعدہ کیا ہے۔ کاروباروں سے روبرو مودی نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ ”گجراتی ہونے کے ناطے تجارت میں خون میں ہے۔ اس وجہ سے میرے لیے اسے سمجھنا آسان ہے۔ کاروباریوں کو کام کرنے کے لیے اچھا ماحول چاہیے اور یہ دستیاب کرانا سسٹم اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم اسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔“ انھوں نے مزید کہا کہ ”ہندوستانی اقتصادی نظام کے لیے گزشتہ ایک دہائی مشکلوں بھرا رہا ہے، لیکن اب پہلی ہی سہ ماہی میں 5.7 فیصد کی شرح ترقی کے ساتھ ہم نے لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ اس سے اعتماد پیدا ہوا ہے۔ قانون اور ضابطوں کو بدلا جا رہا ہے، جن کے نتائج مستقبل قریب میں نظر آنے لگیں گے۔“ مودی نے ہند-جاپان تعلقات پر اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے تقریر کے دوران کہا کہ ”ہندوستان اور جاپان کی ذمہ داری دو فریقی تعلقات سے بھی آگے بڑھ کر ہیں۔ ہندوستانی اور جاپانی کاروباری دنیا کے اقتصادی نظام کو سمت عطا کر سکتے ہیں۔“ انھوں نے کہا کہ ہم ’اسکل ڈیولپمنٹ‘ اور تحقیق میں جاپان سے مدد لینا چاہتے ہیں۔ ہم حکومت کے کام میں تکنیک اور ’کلین انرجی‘ کے استعمال کو بڑھانا چاہتے ہیں جس میں جاپان ہماری مدد کر سکتا ہے۔