مسلم ووٹ بینک : حقیقت یا فسانہ

جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

حالیہ دنوں اترپردیش میں ہونے والے ضمنی اسمبلی انتخابات کے دوران بھی وہی پرانا راگ سننے میں آیا کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں خصوصاً سماج وادی پارٹی کے ووٹ بینک ہیں یا ان کی منھ بھرائی کی جارہی ہے۔ یوں تو ایسی باتیں ہر بار ہی جب ریاستی یا ملک گیر سطح پر چناؤ کا بگل بجتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مسلم ووٹ بینک، مسلمانوں کی خفیہ انتخابی حکمت عملی اور عام سیاسی دھارے سے ہٹ کر چلنے کی ان کی روش کا رونا بھی شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنے کٹر پنتھی لیڈروں کے فیصلوں اور اماموں کے فتوے کے دائرے میں ہی رہ کر اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں، ان کے ووٹ ایسی پارٹیوں اور اُمیدواروں کو ہی ملتے ہیں جنہیں مسلم لیڈروں، علماء اور اماموں کی تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے۔
یہ مفروضہ ہے یا حقیقت؟ اس سوال کا جواب اب تک کے انتخابات میں مسلمانوں کے طرز عمل، ان کے فیصلوں اور ان کے رویے کی بنیاد پر آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ آزادی کے بعد ملک کی واضح اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی اور مسلمانوں کی غالب اکثریت کی پسند بھی کانگریس ہی تھی۔ اس معاملے میں مسلمان کسی بھی طور پر دوسروں سے الگ تھلگ نہیں تھے۔ پھر 1967 میں کانگریس کا سحر جب ٹوٹنے لگا اور برادران وطن کی خاصی بڑی تعداد نے کانگریس سے اپنا دامن جھٹک کر غیر کانگریس واد کی بنا استوار کی تو مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی ان کے ساتھ ہوگئی۔ جن ریاستوں میں غیر کانگریس واد کو مقبولیت حاصل ہوئی اور ایس وی ڈی حکومتیں وجود میں آئیں وہاں کے مسلمانوں کا رویہ عام ووٹروں کے رویہ سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ اگر غیر کانگریس واد کو اس وقت کے سیاسی دھارا کا نام دیا جاسکتا ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ مسلمان نہ صر ف یہ کہ اس سیاسی دھارے کا ایک حصہ تھے بلکہ انہوں نے اسے وجود میں لانے میں بھی ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ مثال کے طور پر اترپردیش کو لیا جاسکتا ہے جہاں مسلمانوں نے دوسروں کی ہی طرح کھل کر اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ دیا اور ان کی کامیابی کا ایک اہم وسیلہ بن گئے۔
ایس وی ڈی حکومتوں کے بری طرح ناکام ہوجانے کے بعد جس طرح دوسرے لوگ اپوزیشن سے مایوس ہوکر ایک بار پھر کانگریس کی طرف لوٹ گئے، ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد نے بھی کانگریس کی طرف مراجعت کی راہ اپنائی اور دوسروں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔
1975 میں ایمرجنسی نافذ ہوئی اور پورے ملک پر جبر و ظلم کی انتہائی تاریک اور خوفناک رات مسلم کردی گئی تو ملک کے عوام کی اکثریت کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی جس حد تک ممکن ہوسکا مزاحمت و مخالفت کی راہ پر چل پڑے۔ 1977 کے لوک سبھا چناؤ میں اندرا کانگریس کو شمالی ہند کی حد تک اکھاڑ پھینکنے میں انہوں نے جو رول ادا کیا وہ غیر مسلم رائے دہندگان کے رول سے کسی بھی طور پر نہ تو مختلف تھا نہ کسی بھی درجہ میں کم۔ اور اس کا محرک بھی قومی دھارے (مفاد) سے الگ کوئی اور دوسرا جذبہ بھی نہیں تھا۔
1977 کے اس چناؤ میں ایک بات یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ جنوبی ہند میں جہاں اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے اپوزیشن کے بجائے کانگریس کو بڑے پیمانہ پر لائق ترجیح قرار دیا تھا، وہاں مسلمانوں کی اپنی سوچ بھی ان کی سوچ سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ گویا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ شمالی ہندوستان ہو یا جنوبی ہندوستان، ملک کے کسی بھی حصہ میں مسلمانوں کا اپنا طرز عمل دوسروں سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ وہ اگر کسی ووٹ بینک کا حصہ تھے تو وہ مسلم ووٹ بینک نہیں بلکہ اپنے وسیع تر مفہوم میں قومی ووٹ بینک تھا۔
مسلمانوں نے عام سیاسی دھارے سے ہٹ کر کسی الگ دھارے میں بہنے اور اس کے ذریعہ اپنے لیے کچھ خصوصی مراعات حاصل کرنے کی منصوبہ بند کوشش نہ تو پہلے کبھی کی ہے، نہ آئندہ کے لیے بظاہر اس کا کوئی امکان ہے۔ مسلمانوں کی سوچ کا اظہار جنتادل اور کانگریس کے اُس انتخابی معرکہ میں بھی بھرپور انداز میں ہوا تھا جس کے نتیجہ میں مرکز اور کئی دوسری ریاستوں میں جنتادل برسر اقتدار آیا تھا۔ اس چناؤ میں جنتادل اور بی جے پی کی مفاہمت کے باوجود دوسروں کی طرح مسلمانوں نے بھی کانگریس کے خلاف ڈٹ کر ووٹ دیا تھا اور اس الزام کو غلط ثابت کردیا کہ وہ گروہی مفادات کے پیش نظر ہی کسی پارٹی کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اسی طرح مرکز میں جنتا دل کی سرکار کے قیام کے ساتھ ہی منڈل و مندر کے مسئلے نے جو بھیانک شکل اختیار کرلی اور سنگھ پریوار کے سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی نے بابری مسجد کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا تو اس کے پیش نظر عام مسلمان یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں اس کی تہذیب، اس کے کلچر ہی نہیں بلکہ اس کی مسجدوں اور اس کے دینی شعار کے لیے بھی گوناگوں خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ پھر جب بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیا گیا اور مرکز میں کانگریس حکومت خاموش تماشائی بنی رہی تو مسلمانوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آپ کسی فتویٰ یا حکم نامہ کے بغیر یہ فیصلہ کرلیا کہ انہیں ان دونوں ہی پارٹیوں سے ممکن حد تک دور رہنا ہے۔ 6 دسمبر 1992 کے واقعات کے بعد عام مسلمان کے سامنے جان و مال اور اپنے دینی شعار کے تحفظ کا جو سوال بہت ہی بھیانک شکل میں آکھڑا ہوا اس نے مسلمانوں کو از خود سمجھا دیا کہ انہیں اپنا ووٹ کس طرح کس کے حق میں اور کس کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مسلمان کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی سے بہت دور چلا گیا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سچ ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان دونوں پارٹیوں سے خاصے دور چلے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اترپردیش میں بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی کو شکست کا منھ نہ دیکھنا پڑتا۔ بی جے پی جس کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہے جس کے لیے مسلمان تو کیا ایک انسان سوچ نہیں سکتا۔ اترپردیش کے علاوہ دیگر کئی ریاستوں میں بھی یہی صورت حال ہے جہاں نہ کوئی فتویٰ اپنا اثر دکھاسکا اور نہ کسی مسلم لیڈر کا فیصلہ ہی مسلمانوں کو متاثر کرسکا۔ ہر الیکشن کے موقع پر مسلمان نے اپنی صوابدید، موقع محل کو سامنے رکھا اور دوسروں کی طرح ہی اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اگر مسلم ووٹ بینک کا مفروضہ درست ہوتا اور مسلمان اپنے نام نہاد لیڈروں اور اماموں کے حکم ناموں کے پابند ہوتے تو ان کا ووٹ مسلم امیدواروں اور مسلم تنظیموں کو ہی ملتا اور انہیں شرمناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
بہرحال مسلمانوں کے ووٹ بینک کا مفروضہ بھی اتنا ہی بے بنیاد ہے جتنا کہ ان کی منھ بھرائی کا رونا۔ مسلمانوں نے کبھی بھی نہ تو کسی ’فتویٰ‘ یا حکم نامہ کو لائق اعتنا سمجھا ہے نہ ’مسلم ووٹ مسلم امیدواروں کے لیے‘ کے نعرہ پر ہی ادنیٰ درجہ میں عمل کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم مسلم جماعتوں کا حال اتنا پتلا نہ ہوتا اور یہ سیاسی اعتبار سے ایک بڑی طاقت کے روپ میں پارلیمنٹ اور ملک کی مختلف ریاستی اسمبلیوں میں موجود ہوتیں۔ اگر مسلم ووٹ بینک کے مفروضہ کی کوئی ٹھوس بنیاد ہوتی او رمسلمان اپنے ’کٹرپنتھی لیڈروں‘ کے چشم و ابرو کے اشارے پر ہی اپنا انتخابی رویہ طے کرتے تو مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر سیّد شہاب الدین کی انصاف پارٹی پالنے میں ہی دم نہ توڑ دیتی۔ اور حالیہ پارلیمانی انتخابات سے قبل شاہی امام سید احمد بخاری کی کانگریس کے لیے اپیل بھی بے اثر نہیں ہوتی۔
اگر مسلم ووٹ بینک کا مفروضہ واقعتا بے بنیاد ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا اتنے بڑے پیمانے پر پرچار کیوں؟ اس کا جواب ہمارے نزدیک یہی ہوسکتا ہے کہ اس مفروضے نے ہندتو کے حامیوں اور مسلمانوں کے خود ساختہ ٹھیکیداروں، دونوں ہی کی سیاسی ضرورت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ بی جے پی، شیوسینا، وشوہندو پریشد اور سنگھ پریوار کی دوسری تنظیمیں مسلم ووٹ بینک کا ڈھنڈورا پیٹ کر اکثریت کے لوگوں کو بالواسطہ طور پر یہ ترغیب دینے کی کوشش کرتی رہتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ’سیاسی بلیک میل‘ کو ناکام بنانے کے لیے اجتماعی طور پر انہیں ہی اپنا ووٹ دیں۔ وہ مسلم ووٹ بینک کا ڈھول پیٹ کر فی الواقع ہندو ووٹ بینک کی تشکیل کرتی رہتی ہیں جیسا کہ پارلیمانی انتخابات میں دیکھا گیا ہے اور اب ریاستی انتخابات میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اترپردیش کے ضمنی اسمبلی انتخابات کے نتائج تو آپ کے سامنے ہیں، چند مہینوں بعد دیگر ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، پھر ایک بار آپ امتحان گاہ میں پہنچنے والے ہیں اور آپ کے سیاسی شعور کی آزمائش ہونے والی ہے۔ اگر مسلمانوں نے پارلیمانی انتخابات میں امام بخاری کی اپیل کو نظرانداز کیا تو اس کی توجیہ یہی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کسی حکم نامہ یا انتخابی فتویٰ کی پابندی ضروری نہیں سمجھی۔ جس طرح مسلم ووٹ بینک کی حیثیت ایک افسانہ کے سوا کچھ نہیں ہے ٹھیک اسی طرح مسلم قیادت کی حیثیت بھی ایک دل فریب کہانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کہانی کو منتشر کرنے اور مختلف مراحل میں اسے کچھ خوبصورت موڑ دینے کا فریضہ اس نام نہاد قومی پریس نے بھی ادا کیا ہے جو نہ تو مسلمانوں کی نفسیات سے واقف ہے اور نہ ہی ان کے حقیقی مسائل سے۔ اسے تو یہ تک نہیں معلوم کہ فتویٰ اور اپیل میں کیا فرق ہوتا ہے اور فتویٰ جاری کرنے کا مجاز کون ہے؟
1977 کے بعد ملک کے سیاسی حالات میں مسلمان اپنے فیصلے خود لیتے رہے ہیں۔ وہ کسی لیڈر، کسی بخاری یا کسی مفتی کے فتویٰ کے محتاج نہیں رہے۔ ان میں اتنا سیاسی شعور اور اتنی عقل و فہم ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کرسکیں کہ ان کے اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کن لوگوں کے ہاتھوں میں محفوظ رہیں گے اور کون ایوان اقتدار میں داخل ہوکر تباہی و بربادی اور خلفشار کے دروازے کھولنے کی کوشش کرے گا۔ آنے والا وقت سیاسی طور پر خاص طور سے مسلمانوں کے لیے سخت ترین حالات کا غماز ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہئے کہ پہلے کے بہ نسبت اب کچھ زیادہ محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی مومنانہ بصیرت کا مظاہرہ کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *