
اردو ٹائمز اخبار نہیں ادارہ ہے ،جہاں سے لوگ اپنی دنیا آپ بناتے ہیں

روزنامہ اردو ٹائمز کے پارٹنر اور منیجنگ ایڈیٹر امتیاز منظور احمد نے 1995میں بطور نگراں انتظامی امور کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہی انہوں نے شعبہ اشتہارات اور شعبہ ادارت پر بھی اپنی گرفت مضبوط بنالی ہے۔1960میں قائم ہوئے ادارے کی تیسری پیڑھی کامیابی کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہی ہے جبکہ مہاراشٹر میں مذکورہ اخبار ملت کی ترجمانی کا دعویدار ہے۔ادارے کے پارٹنر امتیاز احمد نے دانش ریاض سے تفصیلی گفتگو کی اور روزنامہ کی مقبولیت کا راز بتایا۔پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال : بحیثیت اخبار کے مالک آپ اردو زبان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: بحیثیت زبان اردو پوری دنیا میں مقبول ہے۔یہ دوسری زبانوں کی طرح سکڑ نہیں رہی ہے بلکہ پھیل رہی ہے ۔اردو اخبارات بھی پوری دنیا سے شائع ہو رہے ہیں۔جہاں انگریزی کی طرح تمام ڈیسک موجود ہےوہیں یہ انگریزی کے اخبارات کا مقابلہ کر رہی ہے۔اب اردو میں بھی نیوز ایجنسیاں شروع ہوچکی ہیں۔اردو جدید آلات سے ہم آہنگ ہے ۔اردومیں بھی ای میل اور ویب سائٹ ویسے ہی بن رہی ہیں جیسے دوسری زبانوں میں بنا کرتی ہیں۔یہاں بھی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے ۔بڑے بڑے این جی اوز اردو عواکم کے لئے کام کر رہی ہیں۔اردو اسکولوں کا جال بچھتا جارہا ہے۔اردو طلبہ بھی پورے حوصلے کے ساتھ دوسروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اگرملکی سطح پر دیکھیں تو ہندی اور مراٹھی کے مقابلے میں اردو نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔
سوال: اخبار نکالنا جوئے شیر لانا ہے،اردو اخبارات کو اشتہارات بھی نہیں ملتے آخر کیوں؟
جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو اخبارات کو دیگر اخبارات کے مقابلے کم اشتہارات ملتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا عام تاثر یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس قوت خرید کی کمی ہے۔لہذا جو بڑی کمپنیاں ہیں وہ دوسری زبانوں میں تو اشتہارات دیتی ہیں لیکن اردو کو نہیں دیتیں۔لیکن جن کمپنیوں کو اب یہ ادراک ہوگیا ہے کہ اردو صاحب ثروت گھرانوں کی بھی زبان ہے تو وہ اشتہارات دیتے ہیں۔البتہ المیہ یہ ہے کہ مسلم تاجر بھی اپنے اشتہارات اس طور پر نہیں دیتے جیسے کسی اخبار کو دیا جانا چاہئے لہذا اس سلسلے میں کمزوری تو ہے۔
سوال: آج سے سات برس قبل تک آپ کمپنی میںشعبہ اشتہارات کے ساتھ شعبہ انتظامی امور کے نگراں تھے لیکن اب خبروں کی جانچ پرکھ میں بھی آپ کی شمولیت نظر آتی ہے آخر مالکان کا ایڈیٹوریل سے کیا تعلق ؟
جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے بھائی مرحوم معین احمد کی حیات میں میرا خبروں کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا میں انتظامی امور اور اشتہارات میں اپنی صلاحیتیوں کا جوہر دکھارہا تھا۔لیکن بھائی کے انتقال کے بعد میں نے اس شعبہ میں بھی دلچسپی لینے کی کوشش کی اور الحمد للہ اب میں خبروں کے انتخاب اور دیگر ادارتی امور سے بخوبی آشنا ہو چکا ہوں۔دراصل १ 1990میں جب میں نے ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری سنبھالی تو اشتہارات کا شعبہ بھی مجھے ہی دیکھنا پڑا لہذا مجھے اس بات کا تجربہ تو ہوگیا تھاکہ اخبارات کے لئے مالیات کا شعبہ کس طرح مستحکم کیا جاسکتا ہے۔لیکن خبروں کا انتخاب کس طرح کیا جائے اس کی ذمہ داری بڑے بھائی کے ذمہ تھی،چونکہ جس طرح اخبار کو چلانے کے لئے اشتہارات کی ضرورت ہے اسی طرح اخبار کا وزن قائم رہے اس کے لئے خبروں کے انتخاب کی ضرورت پڑتی ہے۔میں نے کمپنی میں شمولیت کے بعد ہی بڑے بڑے صحافیوں کو دیکھا اور ان کے ساتھ کام کیاتھا لہذا اس کا کچھ تجربہ پہلے سے تھاالبتہ جب سے کارپوریٹ کلچر نے منیجنگ ایڈیٹر کا شعبہ شروع کیا ہے اس کے بعد سے ہی مالکان کا عمل دخل شعبہ ادارت میں بڑھ گیا ہے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تینوں شعبوں کا نگراں ہونے کے باوجود ہمارے یہاں ایڈیٹران کو مکمل اختیارات حاصل ہیں اور ہم ملی ایشوز کو اجاگر کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
سوال: ایڈیٹوریل میں مالکان کے عمل دخل سے کیا میڈیا ہائوس کو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے؟
جواب: میں نے پہلے ہی یہ بات کہی ہے کہ کارپوریٹ کلچر نے منیجنگ ایڈیٹر کاجو شعبہ قائم کیا ہے اس کی وجہ سے ایک نئی چیز شروع ہوئی ہے وہ یہ کہ اب ایڈیٹران مالک کی سطح پر آگئے ہیں۔بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیاں انہیں آفر دے رہی ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی عزت بھی برقرار ہے اور قلم کی دھار بھی،یہی صورتحال اردو میں بھی ہے کیونکہ اب پوری دنیا کی نظر اردو پر ٹکی ہوئی ہے۔
سوال: آپ نے اپنے اخبار کو مقبول عام بنانے میں کن امور کا خیال رکھا ہے؟
جواب: ہم نے اپنے اخبار کا Orientation ملّی رکھا ہے۔ملّی ایشوز کو اٹھانا ہم اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔لیکن اسی کے ساتھ میڈیا ہائوس چلاتے وقت یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ آپ کا مارکیٹ کیا ہے۔ مثلاً اردو ٹائمز بھیونڈی،مالیگائوں،ممبرا،میرا روڈ وغیرہ کو اپنا مارکیٹ سمجھتا ہے لہذا ہم ان جگہوں کی خبروں کو اولیت دیتے ہیں جبکہ بہترریونیو بھی ہمیں یہیں سے ملتا ہے۔ہماری ریڈرشپ بھی مڈل اور اپر مڈل کلاس ہے ۔غریب طبقات میں اردو ٹائمز گھر بھر کی زینت سمجھا جاتا ہے لہذا ہم بھی غریب و پسماندہ اور مڈل کلاس کی آواز بننا چاہتے ہیں۔چونکہ ممبئی میں 80فیصد مسلم آبادی مڈل کلاس یا غریب طبقات سے تعلق رکھتی ہے لہذا ہمارا اخبار مقبول سمجھا جاتا ہے۔
سوال: ماہرین کا تجزیہ یہ ہے کہ اخبارات کے قاری کم ہوتے جارہے ہیں کیا اس کا اثر آپ لوگوں پر بھی پڑا ہے؟
جواب: 1970کی دہائی میں جب ریڈیو کی خبریں شروع ہوئیں تو لوگوں نے کہا کہ اخبارات کو خطرات لاحق ہیں۔1980میں ٹیلی ویژن کی خدمات شروع ہوئیں تو یہی کہا گیا۔2000 میں جب انٹر نیٹ کا دور آیا تو یہی کہانی دہرائی گئی اور اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور چل رہا ہے لوگ اخبارات کے بارے میں فکر مند ہیں ۔مجھے بھی سوشل میڈیا کی طرف سے فکر لاحق ہے۔لیکن میں یہ کہتا ہوں جب تک اردو موجودہ دور کے حساب سے اپنے آپ کو تیار رکھے گی اسے خطرات نہیں پیش آئیں گےلیکن جس دن وہ ٹیکنالوجی کا سہارا لینا بند کردیگا اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا آج بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھروسہ کرتی ہے سوشل میڈیا پر اس کا بھروسہ نہیں ہے جس دن سوشل میڈیا پر لوگوں کا بھروسہ ہوجائے گا اس روز حالات سنگین ہوجائیں گے۔لیکن بھروسہ اسلئے نہیں ہوگا کہ وہاں ذمہ داری کا فقدان ہے جبکہ ہم لوگ پوری ذمہ داری کے ساتھ خبریں شائع کرتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت عالمی میڈیا یہودیوں کے ہاتھ میں ہے وہ جو خبریں دیتے ہیں عوام ان پر بھروسہ کرتی ہے لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلم ملکیت والا میڈیا ہائوس بھی ہو جو مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کرسکےاور الحمد للہ ہم یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں لہذا اس باب میں بھی ہم بہتری کی امید رکھے ہوئے ہیں۔
سوال:اردو ٹائمز 1960میں قائم ہوا اور اس کے بعد سے ہی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے جبکہ کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے ادارے اس دوران آئے اور ختم ہوگئے آخر ایسا کیوں؟
جواب: دراصل 1960میں ہمارے دادا محمد نذیر احمدمرحوم نے اسے شروع کیا تھا جس کے بعد میرے والد منظور احمد نے اسے سنبھالا اس کے بعد ذمہ داری میرے چچا سعید احمد سر آئی ۔لہذا یہ ایک فیملی بزنس ہے جو پورا خاندان مل جل کر چلا رہا ہے اور ایک جنریشن کے بعد دوسری جنریشن اسے سنبھال رہی ہے۔اسی کے ساتھ یہ ایک ادارہ ہے جہاں سے تمام لوگ سیکھ کر اپنی دنیا آپ بناتےہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں میرے بھائی اور چچا جان متحرک رہے ہیں وہیں اس ادارے کو بنانے میں ایم جے اکبر،خلش جعفری،حنیف اعجاز جیسے ایڈیٹروں کا بھی اہم رول رہا ہے جبکہ 1992-93کےفسادات کو یاد کریں تو راجدیپ سر دیسائی کے ساتھ کئی ایک صحافی اردو ٹائمز میں ہی ڈیرہ ڈنڈا ڈالے رکھا تھا اور یہیں سے رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ادارے کو بلندی پر پہنچانے میں ہر ایک نے اپنا رول ادا کیا ہے اور اسے کامیابی کی منزلوں تک پہنچایا ہے۔