
مہاراشٹر میں اقلیتوں کو صرف بے وقوف بنایا گیا ہے، میں مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑنا چاہتا ہوں

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی طرف سے بائیکلہ اسمبلی حلقہ کے امیدوار ایڈوکیٹ وارث پٹھان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قانونی دائو پینچ کے ساتھ سیاسی اتار چڑھائو کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔اپنی ہنگامہ خیز انتخابی مصروفیات کے بعد بھی انہوں نے اپنا قیمتی وقت نکالا اور نمائندہ معیشت آرزو شوکت علی سے تفصیلی بات چیت کی، پیش ہیں گفتگو کے اہم اقتباسات
سوال : موجودہ الیکشن کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
جواب : ملک میں بی جے پی غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے،فسطائی نظریات کی تبلیغ کے ذریعہ اس نے جمہوری تانے بانے کو بکھیردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود پارٹی کے اندر دو ایسےگروہ پیدا ہو گئے ہیں جس میں ایک کی پشت پناہی آر ایس ایس کر رہی ہے۔لہذا پارٹی کے اندر جو لوگ ماڈریٹ خیالات کے حامل تھے انہیں یا تو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے یا پھر سائڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ جھوٹے پروپگنڈہ کی بدولت فسطائی ذہنیت کے علمبردار نریندر مودی کی اس طرح تعریف کی گئی ہے کہ جو لوگ حقیقت حال سے واقف نہیں اب وہ بھی کف افسوس مل رہےہیں۔دراصل ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہےاور یہ انتہا پسند انہیں نظریات کے حامل ہیں جنہوں نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا۔
لہذا اس وقت ملک میں نظریاتی جنگ چل رہی ہے موجودہ الیکشن صرف سیاسی پارٹیوں کا الیکشن نہیں ہے بلکہ افکار ونظریات کا الیکشن ہے۔ ایک وہ ہیں جو گنگا جمنی تہذیب چاہتے ہیں،مشترکہ تہذیب پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔یعنی وہ کہیں نہ کہیں گرونانک،خواجہ اجمیریؒ،سنت تکا رام،مولانا آزاد ،پنڈٹ نہرو،خان عبد الغفار خان،مہاتما گاندھی کا ہندوستان چاہتے ہیں تو دوسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو گولوالکر،مسولینی،ہٹلرکی زبان بولتے ہیں اور ہندو راشٹر کا خواب دیکھتے ہوئےفاشسٹ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔دراصل جو لوگ فاشزم کے علمبردار ہوتے ہیں وہ کسی اور کو برداشت نہیں کرتے ۔وہ نہ کسی کے نظریات کو قبول کرتے ہیں نہ ہی کسی فکر و خیال کو پنپنے دیتے ہیں بلکہ ان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس فکر کے وہ حامل ہیں اسے تمام لوگوںپر تھوپ دیا جائے۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اول الذکر اور آخر الذکر کے مابین ایک ٹکرائو اور تصادم ہے۔اس الیکشن میں یہ طے ہونا ہے کہ مہاراشٹر کس سمت میں اپنا سیاسی سفر طے کرے گا۔
سوال:مہاراشٹر میں اوقاف کی اراضی پر ناجائز قبضہ برقرار ہے ،سابقہ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا ہے ،انتخابات میں کامیابی کے بعد آپ کی کیا کوششیں رہیں گیں؟
جواب:پورے مہاراشٹر میں 92ہزار ایکڑ زمین اوقاف کی ہیںجن میں 60ہزار ایکڑ سے زائد زمینوں پر ناجائز قبضہ ہے۔لیکن جن لوگوںنے بھی اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ان پر وقف ایکٹ 1995کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔دراصل سینٹرل وقف بورڈ کی واحد آفس اورنگ آباد میں ہے،جہاں اسٹاف کی کمی کے ساتھ دوسری بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔لہذا میں اولین فرصت میں کوکن،پونہ اور اورنگ آباد میں Revenue Divisionشروع کریں گے جبکہ کام میں تیزی لانے کے لئے وقف بورڈ میں نئےملازمین کی بحالی کا فیصلہ لیںگے ۔اسی کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کے لئےنئے وکلاء کی ٹیم بنائیں گے تاکہ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ لڑا جا سکے جنہوں نے وقف بورڈ پر ہی مقدمہ قائم کر رکھا ہے۔جہاں اوقاف کی زمین پر سرکاری یا غیر سرکاری دفاتر قائم ہیں ان سے کرایہ وصول کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔اسی طرح وقف بورڈ سے متعلق تمام چیزوں کو کمپیوٹرائزڈ کر کے آن لائن کریں گے۔ساتھ ہی وقف بورڈ کی پرانی عمارتوں،تاریخی عمارتیں،مساجد وغیرہ کے Renovation کے لئے کام شروع کروائیں گے جبکہ خادم و خدّام کی تنخواہوں میں اضافے کی بھی کوشش کریں گے۔
سوال:آپ یہ بتائیں کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد آپ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے لئے کیا کچھ کریں گے؟
جواب:سابقہ حکومت نے نیم تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے44آئی ٹی آئی سینٹر شروع کرنے کا فیصلہ لیا تھا جو ابھی تک عمل میں نہیں آیا ہے اس میں جہاں 120طرح کے کورسیز کا آپشن تھا۔ وہیںایک سال یا دو سال کی مدت میں کم پڑھا لکھا نو جوان اس لائق ہوجانے کے قابل تھا کہ وہ 8سے 10ہزار روپیہ کی نوکری حاصل کر سکے۔ جبکہ 4,400بچوں کو آئی ٹی آئی کی ٹریننگ دینے کا فیصلہ لیا گیا تھاساتھ ہی ہائر ایجوکیشن کے لئے 25000ہزار روپئے سالانہ بطور اسکالر شپ اسکیم شروع کی گئی تھی۔ ڈی ایڈ اور بی ایڈ کرنے والے طلبہ و طالبات کو 5ہزار روپئے اسکالر شپ دینے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔اردو اسکولوں کو Non Refundable دو لاکھ روپیہ دئے جانے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔اسی طرح ریاستی سطح پر مولانا آزاد فائنانشیل کارپوریشن کی جانب سے ذاتی Affidavit پر 5لاکھ روپئے کا ایجوکیشنل لون دئے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ۔لڑکیوں کیلئے نندور بار،واشم،آکولہ گرلس کالج قائم کئے جانے کا پرپوژل تھا جبکہ چندر پور اور اورنگ آباد میں گرلس ہاسٹل قائم کر نے کی بات کہی گئی تھی ۔آپ اگر تمام چیزوں کا تفصیلی جائزہ لیں تومحسوس ہوگا کہ مہاراشٹر کے مسلمانوں کی تصویر بدلنے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے ان وعدوں کے ذریعہ صرف بے وقوف بنانے کی کوشش کی اور عملی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔پورے مہاراشٹر کے ایسے علاقے جہاں اقلیتی آبادی ہے وہاں قبرستان وغیرہ کی تعمیر کے لئے ضلع پریشد کی سطح پر 10لاکھ نگر پالیکا کی سطح پر 15لاکھ اور مہا نگر پالیکا کی سطح پر 20لاکھ روپئے دئے جانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن کیا ایسا ہوا؟اسی طرح عازمین حج کو سہولت پہنچانے کے لئے اورنگ آباد اور ناگپور میں حج ہائوس کا قیام جبکہ اورنگ آباد،ناندیڑاور ممبئی میں اردو گھر کی تعمیر کا ڈھنڈھورا پیٹا گیا تھا لیکن جب انتخابات کا اعلان ہو گیا اور ضابطہ اخلاق نافذ ہوگیا تو سنگ بنیاد کی رسم کے ذریعہ لالی پاپ دینے کی کوشش کی گئی۔لہذا انشاء اللہ اگر میں کامیاب ہوا تو ان تمام چیزوں کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائوں گا اور اگر موقع ملا تو خود بھی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔
سوال: بھیونڈی اور مالیگائوں جیسے علاقوں کے ٹیکسٹائیل تاجر ان گنت مسائل سے دوچار ہیں بائیکلہ اسمبلی حلقہ میں بھی اس صنعت سے وابستہ لوگ موجود ہیں ،آپ ان کے لئے کیا کریں گے؟
جواب:سر دست ہم پاور لوم صنعت کو Moderniseکرنے کی کوشش کریں گے لہذا ٹیکسٹائیل زون بنا کر مالیگائوں ،شعلہ پور،بھیونڈی جیسے علاقوں کو Upgradeکرنے کی کوشش کی جائے گی جس کا فائدہ ہمارے اسمبلی حلقہ کو بھی ملے گا۔ ہم پرائیویٹ سیکٹر کو Involveکرنے کی کوشش کر یںگےچونکہ پہلے صرف کارپوریٹ سیکٹر کے لوگ اس سے وابستہ تھے لہذا ہماری اقلیتی برادری اس سے استفادہ نہیں کرپاتی تھی لیکن پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کے بعد اس میں بہتری کی توقع کی جائے گی۔
سوال : لوگوں کا یہ الزام ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کی وجہ سے سیکولر ووٹ بکھر رہے ہیں اور اس کا فائدہ فسطائی قوتوں کو پہنچ رہا ہے ۔اس سلسلے میں آپ کی وضاحت؟
جواب: ایم آئی ایم کے قائد اکبر الدین اویسی صاحب نے پریس کانفرنسوں ،پبلک میٹنگوں،جلسے جلوسوں میں بارہا اس سوال کا جواب دیا ہے کہ ہم مہاراشٹر میں مسلمانوں کو متحد کرنے آئے ہیں۔سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے نہیں۔فسطائی طاقتوں کا خوف دکھا کر نام نہاد سیکولر طاقتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کا استحصال کیا ہے ۔جبکہ بی جے پی بر سر اقتدار آکر پورے ملک کے نقشہ کو بدلنا چاہتی ہے وہ اپنے فسطائی نظریات کی تبلیغ کر رہی ہے ،مسلمانوں کے تشخص کو مٹا دینا چاہتی ہےلہذا ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بذات خود اقتدار کا حصہ بنیں اور اپنی بقا ء و سالمیت کی جنگ لڑیں۔
سوال :آپ کے مطابق بی جے پی فسطائی پارٹی ہے لیکن وہ تو اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟
جواب: پارٹی کے نظریات آج بھی وہی ہیں جو بابری مسجد کی شہادت کے وقت تھے۔لہذایہ صرف عوام کو دھوکہ دے رہی ہے اس نے اپنا جومنشور شائع کیا ہے اس میں یہ درج ہے کہ دنیا کے کسی گوشہ یا ملک سے اگر کوئی ہندو ہندوستان آتا ہے تو ہندوستان اس کا خیر مقدم کرے گا لیکن کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو انہوں نے قبول نہ کرنے کا عندیہ دیا ہےکیا یہی بی جے پی کا سیکولرزم ہے؟بی جے پی نے اتر پردیش کی کمان امیت شاہ کے ہاتھ میں دی جس کے بعد مظفر نگر کا فساد برپا ہوگیا۔جب گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تو وہ وزیر داخلہ امیت شاہ تھایعنی مسلمانوں پر ظلم کے جو بھی پہاڑ توڑے گئے اس کا ذمہ دار وہ بھی ہے۔جسے اب پارٹی کا مکھیا بنا دیا گیا ہے ۔کیامظفر نگر فسادات میں اس کے کردار کو معاف کیا جاسکتا ہے؟پارٹی میں جو جتنا بڑا فسطائی ہے وہ اتنا ہی مقبول ہے۔انہوں نے سر عام کہا ہے کہ اگر ان کی حکومت بنی تو وہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیں گے۔لہذا ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی سیکولر ہے۔
سوال :مہاراشٹر میں سیکولر حکومت قائم ہو اس کا ہر شخص خواہش مند ہے لیکن ایم آئی ایم کی وجہ سے کہیں اقلیتوں کو تو نقصان نہیں پہنچے گا ؟
جواب: ملک کی موجودہ صورتحال میں فسطائی طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے مسلمانوں کوایم آئی ایم کو ووٹ دینا چاہئے کیونکہ جب آپ کا اتحاد ووٹ کی شکل میں ایم آئی ایم کے ذریعہ دیکھنے کو ملے گاتو فسطائی طاقتیں بھی ڈریں گی اور سیکولر قوتیں بھی آپ کو بے وقوف نہیں بنائیں گی لہذا میری اپیل تو یہ ہے کہ آپ ایم آئی ایم کو مضبوط کریں پارٹی قوم کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔انشاء اللہ