میں مہاراشٹر کے اقلیتوں کے اتحاد کو مضبوط کرنے آیا ہوں

معیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض اکبر الدین اویسی سے محو گفتگو ، جبکہ انگریزی مسلم لائف اسٹائل  میگزین  معلّم کے ایڈیٹر مولانا عبید الرحمن قاسمی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
معیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض اکبر الدین اویسی سے محو گفتگو ، جبکہ انگریزی مسلم لائف اسٹائل میگزین معلّم کے ایڈیٹر مولانا عبید الرحمن قاسمی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

تلنگانہ سے ممبر اسمبلی اکبر الدین اویسی کا گھرانہ سیاسی شہسواری میں مشہور رہا ہے۔ سلطان صلاح الدین اویسی کے بیٹے اورممبر آف پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کے چھوٹے بھائی اکبر الدین گفتار کے غازی کہلاتے ہیں ،جون 1970کو حیدر آباد میں آنکھیں کھولنے والے ایم آئی ایم کے لیڈر اب پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔مہاراشٹر میں پارٹی کی کار کردگی اور انتخابات میں شرکت سے متعلق دانش ریاض نے تفصیلی گفتگو کی ۔پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال نمبر 1 ۔ مجلس اتحاد المسلمین کی وجہ سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟
جواب:۔ مجلس اتحاد المسلمین کی وجہ سے مستقبل میں کیا فائدہ پہنچے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن آج مجلس اتحاد المسلمین کی وجہ سے مسلمانوں میں اتحاد‘ شعور‘ ہمت اور خود اعتمادی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے اس سے فرقہ پرست قوتیں اور مفادات حاصلہ پریشان اور حواس باختہ ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین کے سلسلہ میں مہاراشٹر کے مسلمانوں اور پسماندہ طبقات میں جوش و ولولہ کو دیکھتے ہوئے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر میں بھی مجلس کی صورت میں ایک موثر‘ مضبوط‘ مستحکم اور طاقتور سیاسی پلیٹ فارم تشکیل پائے گا اور مسلمانوں اور انصاف سے محروم طبقات کو اپنے دستوری حقوق کے حصول اور مسائل کی یکسوئی کے لئے جدوجہد میں مدد ملے گی ۔جس طرح مجلس اتحاد المسلمین گذشتہ 50 سال سے آندھراپردیش میں مسلمانوں کے اتحاد کے نتیجہ میں اپنی سیاسی طاقت کے ذریعہ نہ صرف پارلیمنٹ‘ اسمبلی‘ قانون ساز کونسل اور بلدیات کے انتخابات میں کامیابی حاصل کررہی ہے بلکہ مجلس کے نمائندے ہر فورم میں بے باکانہ نمائندگی کا حق ادا کررہے ہیں اسی طرح وہ دوسرے مقامات پر اپنا حق ادا کریں گے۔ انشا ء اللہ
سوال 2 ۔ مجلس نے صرف ان علاقوں سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ آخر ایسا کیوں؟
جواب: ۔ مجلس نے ایسے حلقہ جات سے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے جہاں سے کامیابی کے وسیع تر امکانات ہیں کیونکہ ان حلقہ جات سے منتخب نمائندوں نے گذشتہ 5 سال کے دوران عوام کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور عوام ان نمائندوں سے مایوس اور بیزار ہوچکے ہیں۔
سوال3۔ کیا مجلس کی وجہ سے سیکولر ووٹ تقسیم نہیں ہوں گے؟
جواب:۔ مجلس اتحاد المسلمین کی وجہ سے سیکولر ووٹ تقسیم نہیں ہوں گے بلکہ متحدہ طور پر مجلس کے حق میں استعمال ہوں گے کیونکہ نام نہاد سیکولر جماعتوں اور ان کے منتخب نمائندوں نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ سیکولرازم کے نام پر ان کا استحصال کیا اور انہیں فرقہ پرست طاقتوں کا خوف دلاتے ہوئے اپنی دکانیں چلائیں ۔ اب ان جماعتوں سے مسلمان و دیگر کمزور طبقات عاجز آچکے ہیں۔ سیکولر ووٹرس کی تکلیف و تڑپ اور برہمی کو محسوس کرتے ہوئے ان کی خواہش پر مجلس اتحاد المسلمین نے یہاں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ مہاراشٹرکے مختلف حصوں میں مجلس کے جلسوں میں ہزاروں افراد بالخصوص نوجوانوں کی شرکت اور ان کے جوش و جذبہ کو دیکھتے ہوئے انتخابی مبصرین و ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار سیکولر ووٹ تقسیم نہیں بلکہ مجلس اتحاد المسلمین کے حق میں استعمال ہوں گے۔
سوال4۔ مجلس صرف مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کیا اس کی وجہ سے مہاراشٹرا کا ماحول خراب نہیں ہوگا؟
جواب:۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا ہندوستان جیسے ہمہ مذہبی‘ لسانی‘ تہذیبی و جمہوری ملک میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنا کیا جرم ہے؟ جب یادو طبقہ کے لوگ اپنے طبقہ کے حقوق کے لئے لڑتے ہیں‘ جب بہوجن سماج کے لوگ اپنے طبقہ کے مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں‘ جب مہاراشٹر میں مراٹھا عوام اپنے مطالبات رکھتے ہیں‘ جب کرناٹک میں لنگایت طبقہ کے قائدین اپنے طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں‘ جب آندھراپردیش اور تلنگانہ میں ریڈیوں کی اپنی جماعت ہوسکتی ہے‘ کما طبقہ کی اپنی جماعت ہوسکتی ہے‘ جب کاپو طبقہ اپنے طبقہ کے حقوق کے لئے کھڑا ہوسکتا ہے‘ جب ویلما طبقہ کے لوگ اپنے سماج کو متحد کرسکتے ہیں تو کیا مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی جماعت بنائیں اور اپنے طبقہ کے حقوق و مسائل کے لئے آواز بلند کریں۔ دوسری بات مجلس اتحاد المسلمین صرف مسلمانوں کے حقوق کی بات نہیں کرتی بلکہ ہندوستان کے تمام مظلوم اور انصاف سے محروم طبقات کے لئے آواز بلند کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب و سماج کے لوگ بھی بڑی تعداد میں مجلس سے وابستہ ہورہے ہیں۔ یہ کہنا سراسر الزام ہے کہ مہاراشٹر میں مجلس کی وجہ سے ماحول خراب ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں مجلس کی وجہ سے ماحول خراب نہیں بلکہ ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں مسلمانوں کے استحصال کا خاتمہ ہوگا اور ان کے ساتھ انصاف کی راہیں ہموار ہوں گی۔
سوال5 ۔ ایسا کہا جارہا ہے کہ درپردہ مجلس فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچارہی ہے‘ آخر اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:۔ یہ ایک جھوٹا‘ گمراہ کن اور بددیانتی پر مبنی پروپگنڈہ ہے۔ یہ پروپگنڈہ وہ مفادات حاصلہ اور مایوس عناصر کررہے ہیں جنہیں مجلس کی مقبولیت کے نتیجہ میں اپنی کرسی سے محروم ہوجانے کا خوف پیدا ہوا ہے۔ جنہیں اپنی اجارہ داری ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لئے کبھی مددگار یا فائدہ مند نہیں رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کبھی ان کی زبان نہیں کھلی۔ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود اور ان کے مسائل کی یکسوئی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ یہ وہ عناصر ہیں جو فرقہ پرستوں سے ساز باز اور خفیہ سمجھوتوں کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے ہیں۔
سوال 6 ۔ مجلس نے حیدرآباد میں کیا کارنامہ انجام دیا جو مہاراشٹرا کے مسلمانوں کو آپ کی جانب راغب کرسکے؟
جواب:۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد 1948 میں جب سلطنت آصف جاہی کا خاتمہ ہوا اور پولیس ایکشن کے نام پر فوجی کارروائی کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ محلات اور دیوڑھیاں ویران ہوگئیں‘ نوابی و جاگیرداری ختم ہوگئی۔ چاروں طرف خوف و سراسیمگی کا ماحول تھا‘ کوئی نہیں تھا جو مسلمانوں کے زخموں پر پھایا رکھتا‘ ان کی ہمت باندھتا‘ ان حالات میں فخر ملت مولوی عبدالواحد اویسیؒ نے 1958 میں مجلس اتحاد المسلمین کے احیاء کے ذریعہ مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کیا اور حالات سے مقابلہ کرنے کی ایک نئی ہمت و امید جگائی۔ فخر ملتؒ نے اپنے نوجوان فرزند سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسیؒ کے ساتھ مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مجلس کو مسلمانوں کے ایک طاقتور سیاسی مرکز میں تبدیل کیا۔ فخر ملتؒ نے یہ کام ایک ایسے وقت شروع کیا تھا جبکہ مجلس کا اپنا کوئی دفتر یا اثاثہ نہیں تھا۔ فخر ملتؒ اپنی وکالت کی آمدنی سے مجلس کی سرگرمیاں چلایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی قانونی صلاحیت ووکالت کے ذریعہ مجلس کے مرکز دارالسلام کو حکومت کے قبضہ سے حاصل کیا۔ مجلس کا کارواں آگے بڑھتا گیا اور مجلس آندھراپردیش میںایک ناقابل تسخیر سیاسی طاقت میں تبدیل ہوگئی جس کے نتیجہ میں ہر حکومت مجلس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے لئے مجبور ہے۔ مجلس گذشتہ 52 سال سے لگاتار اسمبلی میں نمائندگی کررہی ہے۔ گذشتہ 30 سال سے پارلیمنٹ میں مجلس کی آواز گونج رہی ہے۔ ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد میں مجلس بلدیہ پر مجلس کا قبضہ ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کا میئر ہے۔ اس سے قبل بھی پوری ایک میعاد یعنی 5 سال تک مجلس بلدیہ پر قابض رہی ۔ مجلس کی سیاسی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی میں 7 ارکان رکھنے والی جماعت نے قانون ساز کونسل میں دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اب کونسل میں مجلس کے دو نمائندے ہیں۔ مجلس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر جمع اور متحد کیا اور شہر کو مسلکی و عقائد کے اختلافات سے پاک رکھتے ہوئے ایک خوشگوار ماحول میں تبدیل کیا۔ اسمبلی‘ کونسل اور بلدیات میں تمام فرقوں اور مذاہب کی نمائندگی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین نے سیاسی طاقت کے ذریعہ جہاں پارلیمنٹ‘ اسمبلی ‘ کونسل اور بلدیات میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے کامیاب جدوجہد کی وہیں کئی پیچیدہ مسائل کی یکسوئی کے لئے ارباب مجاز کو مجبور کیا۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا بجٹ ہو کہ مختلف اسکیمات پر عمل آوری کا معاملہ ہو‘ مجلس کی مخلص و بے باک قیادت کی وجہ سے خاطر خواہ فنڈس مختص اور استعمال کئے جارہے ہیں۔ آندھراپردیش ملک کی پہلی ریاست تھی جہاں مجلس اتحاد المسلمین کی کوشش اور جدوجہد کے نتیجہ میں مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات‘ تعلیم و روزگار کے میدان میں حاصل ہوئے۔ مکہ مسجد بم دھماکوں کے سلسلہ میں حقیقی خاطیوں کا پتہ چل جانے کے بعد بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر اسمبلی میں میری مدلل تقریر کے بعد چیف منسٹر نے بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری پر ایوان میں معذرت خواہی کی جب میں نے چیف منسٹر سے دو ٹوک انداز میں یہ کہا کہ صرف معذرت خواہی سے ان بچوں کا مستقبل بہتر نہیں ہوسکتا‘ ان بچوں کو ان کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کے لئے کیریکٹر سرٹیفکیٹ بھی دیا جانا چاہئے اور انہیں اپنے پیروں کھڑا ہونے کے لئے معقول معاوضہ بھی دیا جانا چاہئے جس پر چیف منسٹر نے نہ صرف اس سے اتفاق کیا بلکہ بچوں کو سرٹیفکیٹ اور معاوضہ بھی دیا۔ چیف منسٹر نے خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کروانے کا تیقن بھی دیا۔ مجلس کی موثر نمائندگی کے نتیجہ میں ریاست میں دیگر پسماندہ طبقات کی طرح مسلمان طلباء و طالبات کو بھی اسکالرشپ دیئے جاتے ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین اپنی سیاسی طاقت کے ذریعہ جہاں ایوانوں میں مسلمانوں اور کمزور طبقات کی نمائندگی کررہی ہے وہیں تعلیمی و معاشی میدان میں بھی ٹھوس خدمات انجام دے رہی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے قائم کردہ دارالسلام ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے شہر حیدرآباد میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا ہوا ہے۔ مجلس کی جانب سے 1984 میں حیدرآباد میں دکن میڈیکل کالج‘ دکن انجینئرنگ کالج قائم کیا گیا جہاں سے گذشتہ 30 سال کے دوران ہزاروں مسلم نوجوان ڈاکٹر اور انجینئر بن کر نکلے اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ دکن کالج میڈیکل کالج میں اب انڈر گریجویٹ یعنی ایم بی بی ایس کے ساتھ ہی ساتھ پوسٹ گریجویٹ یعنی ایم ڈی‘ ایم ایس جیسے کورسیز کے علاوہ سوپر اسپکٹس کورس کا بھی انتظام ہے۔ مجلس‘ شہر میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں کے ساتھ ایم بی اے‘ ایم سی ای‘ فزیوتھراپی‘ فارمیسی‘ نرسنگ‘ آرکیٹکچر‘ ہاسپٹل مینجمنٹ کالجز بھی چلاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مجلس کی جانب سے شہر حیدرآباد میں دو عظیم دواخانے بھی چلائے جاتے ہیں جن میں اویسی ہاسپٹل 1050 بستر پر مشتمل ہے جبکہ پرنسس اسریٰ ہاسپٹل 2010 بستر ہیں جہاں روزانہ ہزاروں مریض اپنے علاج کے لئے رجوع ہوتے ہیں ان دواخانوں میں دس‘ بیس روپئے آؤٹ پیشنٹ کارڈ پر ڈاکٹرس‘ مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ ان دواخانوں میں تمام عصری سہولتیں انتہائی واجبی پیسوں میں فراہم کی جاتی ہیں۔ دل‘ دماغ‘ گردہ کے علاج کے لئے جدید آلات اور انتہائی عصری مشینوں کا انتظام ہے۔ ماہر تجربہ کار ڈاکٹرس اور خدمت کے جذبہ سے سرشار نرسنگ اسٹاف 24 گھنٹے مریضوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ غریب و پریشان حال مریضوں کا ان دواخانوں پر ہجوم رہتا ہے۔ مجلس کا اپنا ایک بینک بھی ہے۔ دارالسلام کوآپریٹیو اربن بینک کے نام قائم اس بینک کی شہر حیدرآباد میں کئی برانچز بھی ہیں جہاں غریب اور بیروزگار نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے قرضہ جات دیئے جاتے ہیں۔ یہ کام اپنی جگہ ہے۔ مجلس کی جانب سے اردو مدارس کے طلباء و طالبات کو فیس کی ادائیگی کے ساتھ مفت کتابیں‘ کاپیاں اور بیگس بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ مجلس حیدرآباد میں جہاں یہ کام کررہی ہے وہیں مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے 1993 میں ممبئی کے فسادات کے متاثرین کی امداد کے لئے 20 لاکھ روپیوں کی رقم یوسف خاں (دلیپ کمار) کے حوالے کی گئی۔ اس طرح سورت کے متاثرین کے لئے 26 لاکھ روپئے کی امداد دی گئی۔ گجرات کے نسل کشی واقعات کے وقت پر بھی انتہائی نامساعد حالات کے باوجود مجلس نے لاکھوں روپیوں کی دوائیں گجرات بھیجیں۔ اویسی ہاسپٹل اور پرنسس اسریٰ ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے کئی دن تک احمدآباد میں رہتے ہوئے متاثرین کے آپریشن کئے۔ آسام کے فسادات اور مظفر نگر فسادات کے متاثرین کی لاکھوں روپئے سے مدد کی گئی۔ کرنول کے بد ترین سیلاب اور اتراکھنڈ سیلاب کی تباہی کے موقع پر بھی مجلس نے ریلیف کا سامان روانہ کیا۔ عراق میں امریکہ کے حملہ سے متاثر معصوم بچوں اور خواتین کے لئے مجلس نے دواؤں‘ دودھ کے ڈبوں اور دیگر ضروریات کا سامان روانہ کیا۔ مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے جاری کاموں کا ایک خاکہ آپ کے سامنے آگیا ۔خود میں اپنی جانب سے شہر حیدرآباد میں کئی تعلیمی ادارے چلاتا ہوں جہاں کوئی دس ہزار طلباء و طالبات مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ ان تعلیمی اداروں کیلئے میں نے اپنے سرمایہ سے سات مقامات پر سات سات منزلہ عمارتیں تعمیر کی ہیں ۔ میں ان عمارات میں بعض ہمہ مقصدی کورسیز بھی چلاتا ہوں جو خواتین اور بے روزگارنوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں ممدو و معاون ثابت ہورہے ہیں ۔
سوال 7 ۔ مجلس نے کل 26 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا لیکن تکنیکی وجوہات کی وجہ سے کئی امیدوار اب انتخاب نہیں لڑپائیں گے ۔ اس کی وجہ سے فرقہ پرستوں میں خوشی کی لہر ہے آخر آپ کے امیدواروں نے ایسی غلطیاں کیوں کیں؟
جواب : مجلس نے جن امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ان میں صرف ایک امیدوار کے پرچہ نامزدگی کے سلسلہ میں الجھن ہوئی ۔ ہماری وجہ سے دو بڑے پرانے محاذ ٹوٹ گئے ۔ کوئی یہ یقین کرسکتا تھاکہ بی جے پی‘ سینا 25 سالہ پرانا محاذ ٹوٹ جائے گا ؟ کانگریس این سی پی محاذ کیوں ٹوٹا ؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ صرف ہماری آمد سے ہی یہ محاذ انتشار کا شکار ہوگئے کوئی ادھر ہورہا ہے کوئی اُدھر جارہا ہے ۔ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کون کس پارٹی میں ہے ۔ ہمارے پاس ایسی کوئی پریشانی یا الجھن نہیں ہے ۔ اگر کوئی مجلس امیدوار کسی بھی وقت عوامی خواہشات اور توقعات کے خلاف جانے کی کوشش کرے گا تو خود عوام اس کو سبق سکھائیں گے ۔
سوال8 ۔ ماضی میں سماج وادی پارٹی اپنی مطالبات کے ساتھ مہاراشٹرا کے مسلمانوں کے پاس آئی تھی جن مطالبات کے ساتھ آپ آئے ہیں لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے عوام کو صرف دھوکہ دیا کیا آپ بھی ایسا کریں گے؟
جواب:۔ سماج وادی پارٹی کن وعدوں کے ساتھ مہاراشٹر کی سیاست میں آئی تھی اور کہاں تک ان وعدوں کو پورا کیا مجھے ان چیزوں کے سلسلہ میں کوئی تبصرہ کرنا نہیں ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کا احساس ہے کہ سماج وادی پارٹی نے صرف دھوکہ دیا ہے اس کا جواب مجھے نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی کو دینا ہے جہاں تک مجلس اتحاد المسلمین کا تعلق ہے ہم وعدے نہیں کرتے بلکہ عملی کام کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر اسمبلی تک مجلس کی کارکردگی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی خدمات کا ریکارڈ عوام کے سامنے ہے۔ اس کے لئے ہمیں کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام کا اعتماد اور اطمینا ن ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ دوسری پارٹیاں ووٹوں اور اقتدار کے لئے صرف 5 سال میں ایک بار عوام کے درمیان آتی ہیں جبکہ ہم سال کے 12 مہینے‘ مہینے کے 30 دن خدمت کے جذبہ کےساتھ عوام کے درمیان رہتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *